ایڈوکیٹ شاہد علی
حاتم طائی یمن کے بنو طئے کا سردار تھا اس کی سخاوت بہت مشہورہے۔ لیکن حاتم ہند کو بہت کم لوگ جانتے ہیں یہ ہےں عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی اور دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین محترم جناب امانت اللہ خان صاحب جو دہلی کے اوکھلا حلقہ انتخاب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ عام آدمی پارٹی کے ایک رکن ہیں اور پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال کے خاص معتمد ہیں۔ ہر آڑے وقت میں یہ ان کے کام آتے ہیں ۔ سگنیچر برج کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے رستم ہند کا کردار ادا کیا اور بی جے پی ایم پی منوج تیواری کو ناک آؤٹ کیا ۔معرکۂ کیجریوال اور کمار وسواس میں انہوں نے چانکیہ کا کردار ادا کیا اور تغلق آباد میں سنت روی داس مندر کی ، انہدام کی بعد حاتم طائی کا کردا ر ا دا کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ سنت روی داس مندر کی تعمیر وقف بورڈ کی رقم سے کرائیں گے۔ یعنی مندر کے تعمیر کے اخراجات وقف بورڈ برداشت کرے گا۔
محترم رکن اسمبلی نے اپنے حلقہ انتخاب میں کتنے ترقیاتی کام کئے ہیں ، کتنے تعلیمی اور ٹیکنیکل ادارے قائم کئے ہیں یا ان کے حلقۂ انتخاب میں اوقاف کی حالت کیا ہے ۔ یہ تو رکن اسمبلی اور اس حلقۂ انتخاب کے لوگ بخوبی جانتے ہیں اب ان کے اس زریں اقوال نے لوگوں کو حیران و ششد کردیا ہے۔ کہ کیا دہلی وقف بورڈ کے پاس اتنی رقم ہے کہ وہ اب مندروں کی تعمیر کرائے کیا وقف کے اغراض و مقاصد میں مندروں کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اوقاف کی جائیداد کے تحفظ سے عاری بورڈ مندر کی تعمیر کرائے گا۔ خیر ان نکات سے قطع نظر عام آدمی پارٹی کے سیکولر کردار اس کے خفیہ ایجنڈے اور اس کی ذہنی رجحان کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ اس حقیقت کا تجزیہ بہت ضروری ہے کہ وہ کتنا سیکولر ہے اس کے اور آر ایس ایس نیز آرایس ایس کے سیاسی بازو بی جے پی سے اس کے نظریاتی اختلافات اور یگانگت کیاہے کہیں نظریاتی طور پر یہ دونوں جماعتیں ایک ایجنڈے پر کام کررہی ہیں اور صرف نام اور طریقۂ کار کا فرق ہے۔
عام آدمی پارٹی ” انّا تحریک “کے نتیجے میں وجود میں آئی اناّ ہزارے نے یوپی اے کے خلاف آر ایس ایس اور بی جے پی کی حمایت سے تحریک چلائی جس میں رام دیو بھی شامل تھے جن کے بی جے پی سے تعلقات محتاج تعارف نہیں ہے۔ اسی تحریک کے پیداوار اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی ہے جس کا سیکولرزم کا دعویٰ اسی طرح کا ہے۔ جیسا ان تمام سیکولر پارٹیوں کا جن کے اراکان ذہنی طورپر آر ایس ایس کے حامی ہیں۔ اب ملک کا مسلمان اچھی طرح سے سمجھ چکا ہے کہ وطن عزیز میں سیاسی پارٹیوں کے نام الگ الگ ہیں۔ مگر سب کے اغراض ومقاصد ایک ہی ہیں سب پر زعفرانی ذہن غالب ہے ان کے نعرے اور طریقۂ کار الگ الگ ہیں ۔ یہ اس مالے کی بیش بہا موتی ہیں جس کو زعفرانی دھاگے نے پرو کے رکھا ہے۔
اروندکیجریوال اور منیش سیسودیا نے پہلے الکا لامبا اور یوگیندر یادو کے ذریعے شاہی امام سید احمد بخاری سے حمایت کرنے کی درخواست کی ۔ اور اقلیتوں کے مسائل حل کرنے اور ان کے مسائل پر ہمدردانہ غور کرنے کا وعدہ کیا ۔ مگر جب سید احمد بخاری نے عام آدمی پارٹی کی حمایت کا اعلان کردیا تو ان لوگوں نے مسلم لیڈر شپ کے وقار کو مجروح کرنے اور اکثریتی طبقہ کے ووٹ کو پولرائز کرنے کے لئے فوراً یہ اعلان کردیا کہ ہمیں احمد بخاری کی حمایت نہیں چاہئے ہم اس کو مسترد کرتے ہیں یہ ایک بہت بڑی منصوبہ بند سازش تھی ۔ایک تیر سے دو نشانہ کرنے کا انہوں نے کامیاب تجربہ کیا۔ دیگرفرضی سیکولر پارٹیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے مسلح لیڈر شپ کی بینچ کنی کا ایک نیا راستہ نکالا اپنے نام نہاد سیکولر کردار کا وہ شروع سے اب تک دعویٰ کرتے رہے ہیں ۔
عام آدمی پارٹی اور آر ایس ایس نیز اس کے سیاسی بازو بی جے پی کی سوچ میں کتنی یکسانیت یہ ہے پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاس میں ظاہر ہوگیا۔ عام آدمی پارٹی نے راجیہ سبھا میں تین طلاق بل پر بی جے پی کی حمایت ہی نہیں کی۔ بلکہ یکساں سول کوڈ پر بی جے پی کو حمایت کا یقین دلایا ایک طرف دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کررہے ہیں دوسری طرف کشمیر کے مکمل ریاست کے درجے کو ختم کرکے اس کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کی حمایت کرتے ہوئے دستور ہند کی دفعہ 370اور35اے کوختم کرنے کی حق میں ووٹ دیا۔ ان کے یہ اقوال ان کی سوچ کے عکاس ہیں یہ کتنی بڑی منافقت ہے کہ جس مرکز کے زیر انتظام علاقے کے وہ خود وزیر اعلیٰ ہیں اسے تو مکمل ریاست کا درجہ دلوانے کا مطالبہ کررہے ہیں اور جس کو وہ درجہ حاصل ہے اس کو اس سے محروم کرنے کی حمایت کررہے ہیں۔ کیا صرف اس لئے کہ اس ریاست کی اکثریت مسلمان ہے؟
کیجریوال صاحب دہلی کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ اور دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ اوکھلا جسیے مسلم اکثریتی علاقے میںایک بھی سرکاری اسپتال نہیں ہے۔ایک بھی لڑکیوں کے لئے اسکول نہیں ہے ۔ ایک بھی لائبریری نہیں ہے۔ ایک بھی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ نہیں ہیں ۔ اس کے لئے انہوں نے کیا کیا۔ اور یہ صرف اوکھلا میں ہی نہیں ہر اس علاقے کا حال یہی ہے جہاں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے ۔ ان علاقوں میں مناسب بس سروس نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اوکھلا سے ایرپورٹ تک کوئی بس سروس نہیں ہے۔ آنند وہار ریلوے اسٹیشن تک کوئی بس سروس نہیں ہے۔ گڑ گاؤں اور نوئیڈا کےلئے براہ راست بس سروس نہیں ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟یہ ایک کھلا راز ہے۔
یوں تو اردو دہلی کی دوسری سرکاری زبان ہے ۔ مگر اردو کو ختم کرنے میں عام آدمی پارٹی بھی اپنے پیشروں کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ دہلی کے تمام اسکولوں میں اردو ٹیچر کی کمی ہے ۔ بہت سارے ایسے اسکول ہیں جس میں اردو کے ٹیچرہیں ہی نہیں۔ اس کے باوجود اردوٹیچروں کی بحالی نہیں کی جارہی ہے۔ یہ اردو دشمنی نہیں تو اور کیا ہے ؟ تمام نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی طرح عام آدمی پارٹی کو بھی مسلمانوں کا ووٹ چاہئے۔ مسلمان نہیں۔
مسلمانوں کی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کےلئے اروند کیجریوال اور منیش سسودیا کی سازش کے تحت دہلی وقف بورڈ سے یہ اعلان کرایا گیا کہ پورے دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے میں دہلی وقف بورڈ اسکول کھولے گا۔ اس کے لئے تدریسی اور غیرتدریسی اسامیوں کی بحالی کےلئے اشتہار شائع کرایا گیا ۔ انٹرویو بھی ہوگیا لیکن اس کو فوراً ملتوی ہی نہیں منسوخ کردیا گیا ۔ وزیر تعلیم نے کسی مجلس میں یہ کہا کہ اس کا عام آدمی پارٹی پر منفی اثرات مرتب ہونگے ۔ عام آدمی پارٹی مسلمانوں کے فلاح کا کام کررہی ہے۔ جبکہ یہ دہلی حکومت کا نہیں دہلی وقف بورڈ کا منصوبہ تھا ۔ جس کے اخراجات دہلی وقف بورڈ برداشت کرتی۔ یہ اسکول دہلی وقف بورڈ کی زمین پر بنائے جائے۔ لیکن عام آدمی پارٹی کو یہ بھی گوارہ نہیں ہوا کہ اس کے دور حکومت میں یہ کام ہو۔
خود کو سیکولر کہنے والی عام آدمی پارٹی اب بے نقاب ہوچکی ہے ۔ وقت کے نباض تو پہلے سے ہی آشنا تھے کہ عام آدمی پارٹی آرایس ایس کی بی ٹیم ہے۔ مگر عام لوگوں کو اس حقیقت کو جاننے میں تھوڑا وقت لگا۔ حالیہ لوک سبھا الیکشن میں عام آدمی پارٹی نے ایک بھی مسلمان کو دہلی سے اپنا امیدوار نہیں بنایا۔ جبکہ پوربی دہلی لوک سبھا حلقہ انتخاب میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 30فیصد ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایسے علاقے ہیںجس میں مسلمانوں کی تعداد قابل ذکر ہے۔ اگر راجیہ سبھا کی بات کریں تو اب تک دہلی کی تین سیٹوں میں سے ایک سیٹ پر مسلمانوں کو ہی نمائندگی دی گئی۔ واضح رہے کہ راجیہ سبھا کے ممبران کو صوبے کے ممبران اسمبلی ووٹ دیتے ہیں ۔ اور جس وقت راجیہ سبھا کا الیکشن ہوا 70ممبران اسمبلی میں 67ممبران اسمبلی عام آدمی پارٹی کے ہی تھے ۔ لوک سبھا کے الیکشن میں تو مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے عام آدمی پارٹی یہ کہہ سکتی ہے کہ اگر کسی مسلمان کو ٹکٹ دیتے تو وہ اس لئے نہیں جیت پائے گا کیونکہ دیگر فرقے کے لوگ مسلمان امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے ۔ راجیہ سبھا میںتو اراکان اسمبلی ہی ووٹ دیتے ہیں ۔ جو عام آدمی پارٹی کے رکن تھے۔ توکیا یہ ممبران اسمبلی جو عام آدمی پارٹی کے ممبر تھے وہ بھی مسلمان کو ووٹ نہیںدیتے۔ اس لئے ان کو نامزد نہیں کیا گیا ۔ ویسے بھی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے دیگر فرقے کے لوگ ووٹ نہیں دیتے ۔ کیونکہ یوپی کے غازیپور حلقہ انتخاب سے بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار جناب افضال انصاری صاحب کامیاب ہوئے جہاں صرف 9فیصد مسلمان ہیں ۔ بہار کے سیوان حلقہ انتخاب سے جناب شہاب الدین صاحب الیکشن جیت کر آئے تھے جہاں صرف 17فیصد فی مسلمان ہیں ۔
عام آدمی پارٹی نے دہلی اسمبلی الیکشن میں صرف پانچ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا۔ جس میں چار امیدوار ہی کامیاب رہے ۔ یعنی عام آدمی پارٹی کانگریس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دہلی میں مسلمانوں کے لئے پانچ سیٹ کا کوٹا مقرر کردیا۔ جبکہ دہلی میں مسلمان 13فیصد ہیں۔ اس طرح سے مسلمانوں کو کم از کم 70سیٹیں ملنی چاہئے۔
جنوں کا نام خردخرد کاجنوں رکھ دیا
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
(مضمون نگار سپریم کورٹ آف انڈیا کے وکیل ہیں )






