وارث مظہری
اس وقت مغربی ممالک میں بڑے پیمانے پر اسلام فوبیا کا مظہر پایا جاتاہے۔ سیاسی، صحافتی اور مذہبی حلقوں سے تعلق رکھنے والا ایک بڑا طبقہ اسلام کو اپنے سماجی اقداراور تہذیبی روایات کے لیے عظیم خطرہ تصور کرتا ہے۔اس کے مقابلے میں اسلامی دنیا میں بھی ایک بڑا طبقہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جو بیگانہ خوفی (xenophobia) یا دوسرے لفظوں میں ’مغرب فوبیا‘ کا شکار ہے۔مغرب یا دوسری قوموں اور ثقافتوں کی ہرچیز اسے خطرے کی علامت محسوس ہوتی ہے اور اس سے منسوب ہر چیز کو وہ نفرت وحقارت کی نگاہوں سے دیکھنا اپنے ایمان و عقائد کا لازمی تقاضا تصور کرتا ہے۔ حقیقت میں یہ ذہنیت دور استعمار کی پیداوار ہے۔ 19 ویں صدی کے اواخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں،خاص طور پر روایتی مسلم مذہبی حلقوں میں یہ ذہنیت عروج پر تھی۔چناں چہ اس زمانے میں مغرب کی بہترین سائنسی ایجادات کو بھی خلاف شرع اورمشرقی اور اسلامی تہذیب کے لیے خطرے اور تباہی کاسامان تصور کیا گیا جیسے پرنٹنگ مشین،ریڈیو،دیوار گھڑی،ریلوے،ٹرام،لاؤڈ اسپیکر وغیرہ۔(اس مو ضوع پر تفصیلی مثالوں کے لیے دیکھیں: ابراہیم محمد الفحام کا مضمون: العرب والغرب (ماہنامہ العربی، الکویت،مارچ، 1980) پریس اور جدید انداز پر فوجی تربیت کی شرعی ممانعت کا فتوی خو د ترکی کے شیخ الاسلام نے دیا۔
تاہم یہ ذہنیت دور استعمار کے خاتمے کے بعد ختم تو نہیں ہوئی لیکن کمزور ضرور ہوگئی۔اب مغربی طاقتوں کی عالم اسلام کے تعلق سے نئے استعماری اقدامات اور کوششوں کے بعد یہ ذہنیت پھر ابھر کر سامنے آنے لگی ہے۔یہ ذہنیت خود مغرب کے لیے تو لمحہئ فکر ہے ہی، کہ مغربی دنیا کے مفادات مشرقی دنیا سے بہت وسیع سطح پروابستہ ہیں؛ اسلامی دنیا کو بھی اپنے حق میں اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ مغربی ممالک میں اسلام فوبیاکے مظہر کے پھیلاؤ کے ساتھ مغرب فوبیا کا مظہر بھی تیزی کے ساتھ ارتقا پذیر ہے۔ مغرب کی خوبیوں اور قابل اخذ باتوں کو بھی خامی اور عیب کے معنی پہنا ئے جانے لگے ہیں۔ یہ مظہر ہندوپاک کے روایتی علمی ومذہبی حلقوں میں زیادہ نمایاں ہے۔مثال کے طور پر مغرب میں صدق وامانت،ایفاے عہد،خدمت خلق، قانون کا احترام، ڈسپلن،دوسروں کے انسانی حقوق کے پاس و لحاظ کا مزاج عمومی سطح پر پایا جاتا ہے۔لیکن بعض لوگ ان امتیازی خوبیوں کی بھی اس طرح تعبیر کرتے ہیں کہ یہ در اصل اہل مغرب کے لیے مادی منفعت کے حصول کی بنیاد ہیں۔انہوں نے اسی بنا پر اسے اختیار کر رکھا ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم نے دھوکا اور خیانت کوکیوں مادی منفعت کی بنیاد بنا رکھا ہے۔صدق، ایفاے وعدہ کو تو رسول اللہ نے ایمان کی عظیم علامت اور ان کے بر عکس کو نفاق بتا یا ہے۔(بخاری)
مغرب کی وکالت قطعا مقصود نہیں ہے کہ ظاہرہے ان خوبیوں سے ہٹ کرخامیوں کی ایک لمبی فہرست ہے،بلکہ اصل مقصود اس نقطہئ نظر پر نظر ثانی کی دعوت دینا ہے،جس کے تحت محض رسوم و اوہام پر مبنی اپنے بہت سے دنیاوی اعمال بھی خالص دین داری کا عنوان بن جاتے ہیں اور دوسروں کے، دینی و اخلاقی تناظر میں، اصولی اور اساسی نوعیت کے اعمال بھی دنیاوی اور مادی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔حقیقت میں نہ تو مغرب کو’شجر خبیث‘ سمجھنا صحیح رویہ ہے اور نہ ہی اسلامی دنیا کے لیے مغربی ماڈل کو قابل تقلید باور کرانا جو اسلام اور اسلامی تہذیب سے بیزار مقلدین مغرب کا شعار بن چکا ہے۔مشرق و مغرب دونوں میں اپنی انفرادی خوبیاں ہیں۔دونوں ہی فریق عقل و بصیرت اور خوش گوار باہمی تعامل کی بنیاد پر ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔لیکن اسی ’فوبیائی‘ ذہنیت نے دونوں کو حقیقت پسندی کی راہ سے بر گشتہ کردیا ہے۔
ہمارے مذہبی واعظین و ناصحین کی ہر لے مغربی فکر وتہذیب پر لعنت بھیجنے پر ٹوٹتی ہے۔لیکن بہ مشکل ہی کبھی ان کی زبان سے مغرب کی کسی خوبی کی تعریف سامنے آتی ہو۔ستم ظریفی یہ ہے کہ خود مغربی ممالک میں رہتے ہوئے بھی ہمارے علما و داعیان مغرب کو کوستے اور اس پر لعنت بھیجتے نہیں تھکتے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مغرب کے تعلق سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کس حد تک حقیقت پر مبنی ہے؛مسئلہ یہ ہے کہ اس سے اسلام سے خوف کھانے والے حلقوں کی ذہنیت کو تقویت ملتی ہے۔
غور کیجیے اگر قرآن اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی اور پڑھی جانے والی کتا ب ہے تو اس میں پریس کا بہت بڑادخل ہے۔اگر امریکا اور مختلف مغربی ممالک میں اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والامذہب ہے تو اس میں مغرب کے ایجاد کردہ جدید مواصلاتی ذرائع کے استعمال کے ساتھ مغرب میں سیاسی سطح پر حاصل فکرونظرکی وسیع آزادی کوبھی دخل ہے۔آزادیئ فکر کے مغربی تصورنے ہی مسلم داعیوں اور اسکالرس کو اسلامی دعوت،اسلامی تنظیمات وتحریکات اور اداروں کے قیام کا موقع فراہم کیا۔ اس کے بغیر مغرب کی اسلامی فتوحات کے قصے کب سنا ئی دینے والے تھے؟ہم نے ایک فاضل شخصیت سے ایک مرتبہ اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کیا کہ اسلامی دنیا مغرب کے مقابلے میں محض صارف (consumer) اور اس کے ایجادات سے فائدہ اٹھانے والی بن کر رہ گئی توانہوں نے بڑے اطمینان سے کہا کہ ہماری حیثیت مخدوم اور اہل مغرب کی حیثیت خادم کی ہے۔ظاہر ہے اس ذہنیت کے ساتھ ہمیں بجا طور پراپنے زوال و انحطاط پر اشک ریزی کے بجائے خوشی سے بغلیں بجانے کا موقع مل جاتا ہے کہ در اصل ہمارے زوال میں ہی ہمار ا عروج پوشیدہ ہے۔
مغرب فوبیا کی شدت کا عالم یہ ہے کہ کوئی بھی ایسی چیز جوہماری روایتی فکر سے ہٹ کر ہو اور اس میں جدت کا عنصر ہوتو ا س پر تقلید مغرب کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔حالاں کہ نہ توہر جدید چیز مغربی ہے اور نہ ہر مغربی چیز جدت کا شاہکار۔جدت انسانی تمدن کے ارتقا کا نتیجہ ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔بدقسمتی سے جدید تمدن کے ارتقا کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں مغرب کے ہاتھ میں ہے،اس لیے ہر جدید چیز مغربی قالب میں ڈھلی ڈھلائی اور اس کی تہذیب کا پرتو نظر آتی ہے۔ مغرب کے بعض فکری حلقے ہمارے یہاں کے قدامت پسند حلقوں سے زیادہ قدامت پسند ہیں۔ مثلا امریکا اور یورپ کے بعض ملکوں میں ’آمش‘نامی عیسائی فرقہ موجودہ تمدن کو کلی طور پر مسترد کرتا ہے۔شہروں میں رہتے ہوئے ٹیلی فون،ٹیلی ویژن اور جدید ذرائع نقل و حمل سے دور سادہ بلکہ سینکڑوں سال قبل کی بدوی زندگی گزارنے پر اصرار کرتا ہے۔ہمارے فکری حلقوں کی ایک بڑی کمی یہ رہی کہ انہوں نے جدت اور مغربیت دونوں کو ہم معنی باور کرانے کی کوشش کی۔چناں چہ یہ حلقے ہر نئی چیز اور فکر و خیال کو مغربی باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہاں البتہ یہ رویہ اس رویے کا بھی رد عمل ہے،جو مغرب کی اندھی تقلید او نقالی کو ہی جدت پسندی کا عملی نمونہ تصورکرتا ہے۔
یورپی اورامریکی ملکوں میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو قابل رشک اسلامی زندگی گزار رہے ہیں، جن سے مل کر ایمان میں تازگی اور حرارت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہاں مساجد و مدارس کی تعداد اور ان کی سرگرمیوں میں اس کے باوجود اضافہ ہورہا ہے کہ مذہبی تعصب و انتہا پسندی کے شکار طبقے کی نگاہ میں یہ مظہر خار بن کر چبھ رہاہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس حقیقت کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ مغرب میں اب بھی انتہا پسند طبقے کے مقابلے میں اعتدا ل پسند طبقہ زیادہ مضبوط اور وسیع ہے جس سے اسلام اور مسلمانوں کومغرب میں اپنے وجود کو مستحکم کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
مغرب کے ساتھ ہمیں مثبت رویہ اختیار کرنا چاہیے، خواہ اس کے لیے ہمیں جو بھی قیمت چکانی پڑے۔ اس کی دو وجہیں ہیں: ایک یہ کہ ہم داعیانہ حیثیت میں اس بات کے مکلف ہیں کہ دنیا کو اپنی دعوت کا مخاطب بنائیں۔ اس کو اسلام کا پیغام امن وانسانیت پہنچائیں۔اس فریضے کی انجام دہی کے لیے مدعو (مغرب) کے ساتھ خوش گوار تعلق کا قیام ایک دینی فریضے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔اسلام فوب حلقے یہ چاہتے ہیں کہ مغرب اور اسلام کے درمیان کش مکش کی صورت قائم رہے اور مغربی ممالک میں دعوتی میدانوں میں کام کرنے والی تنظیمات وتحریکات کی ایسی منفی شبیہ سازی کی جائے کہ وہ اپنے سنجیدہ مقاصد میں ناکام ہو کر رہ جائیں اور انہیں وہاں کی زمین میں اپنے وجود کوراسخ کرنا ممکن نہ ہو۔اسلام سے نفرت وعداوت کی نفسیات رکھنے والے ایسے تمام حلقے عام مسلمانوں کے تعلق سے عمومی اور دعوت کے میدانوں میں کام کرنے والی تنظیموں کے تعلق سے خصوصی طور پر اس تاثر کو عام کرنے میں مصروف ہیں کہ مسلمان اورمسلم تنظیمیں، خواہ وہ مغرب کی سرزمین پرہی کیوں نہ قیام پذیرہوں، فی الجملہ مغرب سے بغض وعداوت رکھتی ہیں۔ وہ مغرب کے تئیں کبھی مخلص نہیں ہوسکتیں۔میرے خیال میں ادھر چند سالوں میں مسلمانوں کے اندر بیگانہ خوفی کی نفسیات میں جس طرح اضافہ ہوا ہے اس سے مغرب کے ان حلقوں کو تقویت ملی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمیں مغرب کے ان علوم و فنون سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے تہذیبی وجود کو مستحکم کرنا ہے جن کے حصول کے بغیر ہمارے لیے مغرب کا نرم چارہ بنے رہنا مقدر ہوچکا ہے۔ مغرب سے مثبت تعلق کے بغیر ہم مغرب سے ضروری سطح پر استفادہ نہیں کرسکتے۔
بہر حال بیگانہ خوفی یا مغرب سے نفرت و بے زاری ہمارے مسئلے کا حل نہیں ہے۔بلکہ اکثر صورتوں میں یہ ہمارے لیے سخت مضر ہے۔یہ نفسیات ہمیں خود احتسابی سے دور رکھتی اور دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنی کمزوریوں کی اصلاح اور تعمیر ذات سے روکتی ہے۔اسلام فوبیا کے مظہرکو پھیلنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ ہمیں مغرب فوبیا یا ” زینوفوبیا “ کی نفسیات سے بھی نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٭٭






