مسلم قیادت اور عوام کے بیچ ٹوٹتا اعتماد 

ثناء اللہ صادق تیمی 

نریندر مودی کی حکومت سے پہلے بھی نام نہاد ہی سہی مسلم قیادت اور عوام کا رشتہ بہت مثالی یا آئیڈیل نہیں رہا ہے ۔ یہ بات عام طور سے مشہور رہی ہے کہ مسلم عوام اپنی قیادت پر بھروسہ نہیں کرتے ۔ مولانا آزاد کی طرف غلط طریقے سے ایک بات منسوب بھی کی جاتی رہی ہے کہ مسلمانوں کا اپنے قائدین پر عدم اعتماد اور ہندو قوم کی تنگ نظری کبھی ختم نہیں ہوگی۔ آزاد ہندوستان میں تقسیم کے حادثہ فاجعہ کے زیر اثر مسلمانوں کی کسی مسلم قیادت کا ابھر پانا آسان نہیں تھا اور یہی ہوا بھی کہ اصلا تقسیم سے لے کر آج تک مسلمانوں کی کوئی سیاسی قیادت ابھر نہیں سکی ۔ اس بیچ ابھرنے والے سیاسی قائدین نے عام طور سے کسی نہ کسی سیکولر یا غیر سیکولر پارٹیوں سےخود کو منسلک کرکے رکھا اور ان کی پہچان اس پارٹی کے قائد کی رہی ہاں البتہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ضمنا انہیں مسلمانوں کا قائد بھی سمجھا جاتا رہا ۔

 سیاست خالص عملی چيز کا نا م ہے ، اس لیے جب کبھی کوئی انسان سیاست کا حصہ بنتا ہے تو وہ اپنی نظریاتی بلندی پر قائم نہيں رہ پاتا ، اسے عملا بہت سی چيزوں کوقبول کرنا پڑتا ہے، مسلمانوں میں دوطرح کے لوگ سیاسی قائد بن کر ابھرے ، ایک وہ جنہوں نے سیوکولر پارٹیوں سے منسلک ہوکر خود کو مسلم چہرہ بنانے کی کوشش کی، مسلمان ووٹ سے اپنی جیت یقینی بنائی اور پھر جب کام کرنے کی نوبت آئی تو اس سطح پر نہیں کرسکے جس سطح پر وعدہ تھا یا خواب دکھایا گیا تھا اور یوں وہ نگاہوں سے گر گئے ۔ اپنی ساکھ کھودی۔ دوسرے نام نہاد مذہبی قائدین تھے ، جنہوں نے جوشیلی تقریروں سے عوام پر اپنی گرفت بنائی پھر سیاسی سطح پر ابھرنے کی کوشش کی اور کسی نہ کسی پارٹی سے منسلک ہوگئے ۔ یوں تقریری جوش اور عوامی مقبولیت دونوں ہاتھ سے نکل گئی۔ نتیجہ بالعموم سامنے یہ آيا کہ مسلمانوں کو مسلمان نامی سیاسی قائدین پر اعتماد نہیں رہا اور زيادہ تر انہوں نے غیر مسلم سیاسی قائدین کو ترجیح دینے ہی میں اپنی بھلائی محسوس کی۔ اس پورے مرحلے میں سب سے افسوسناک بات یہ رہی کہ ملت نے کبھی سنجیدگی سے اپنی سیاسی قیادت بنانے کی باضابطہ کوشش کی ہی نہیں ۔

مذکورہ بالا سیاسی قیادت کے علاوہ ایک اور قیادت کام کرتی رہی جسے ہم مذہبی قیادت یا نیم سیاسی قیادت کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔ لگ بھگ تمام مسلک کے مسلمانوں کی کوئی نہ کوئی سرگرم تنظیم ہندوستان میں کام کرتی ہے ۔ ان تنظیموں نے سماجی سطح پر ملت کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے طور پر کام کیا اور زيادہ تر خود کو سیاست سےالگ ہی رکھا البتہ مختلف انتخابات کے مواقع سے کبھی کوئی اپیل تو کبھی کسی سیاسی پارٹی کی حمایت کا اعلان وغیرہ ضرور کیا لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ ان تمام کے باوجود اصلاً ان کا کوئی باضابطہ سیاسی اثر نہیں رہا ۔مختلف حکومتوں کو بھی یہ بات معلوم رہی اس لیے بالعموم انہیں گھاس بھی نہيں ڈالا گیا ، زیادہ سے زيادہ کسی انتخاب کے موقع سے انہیں تھوڑا بہت کچھ دے دیا گیا تو الگ بات ورنہ یہ بے چارے خالی ہاتھ ہی رہے ۔

 نریندر مودی کی حکومت کے آنے کے بعد جب حزب اختلاف تاش کے پتوں کی مانند بکھرگیا ۔ سیکولر سیاست کی بساط لپیٹ دی گئی ، سیکولر شبیہ کے لیڈروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈکھیل دیا گیا ، بڑے بڑے سورماؤں کے منہ بند ہوگئے اور ڈر کے مارے لوگ حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے لگے تو ایسے وقت میں مسلمانوں کی سیاسی قیادت کے لیے کوئی جگہ بچ نہیں گئی اور اس خلا کو مذہبی قیادت کو پر کرنا پڑا ۔ جمعیت علما ہند کے مولانا ارشد مدنی نے فرنٹ پر آگر مسلمانوں کی قیادت کا فريضہ انجام دیا ۔ انہوں نے چومکھی لڑائی لڑی ۔ قدم قدم پر مسلم مسائل کو اٹھایا ، بے قصور مسلم نوجوانوں کے لیے عدالت میں اپنے وکلاء متعین کیے اور تمام سیاسی مسائل کو بھی اپنی اولین ترجیح میں شامل کیا اور یوں دیکھتے دیکھتے وہ مسلمانوں کے لیے ایک امید کی کرن بن گئے ۔ ان کی شخصیت اور خاندانی تعلق نے بھی اچھا کردار ادا کیا اور ایسا لگا کہ جمعیت علما ہند آزاد ہندوستان میں پہلی بار اپنا صحیح مقام پہچان رہی ہے ۔

لیکن جیسا کہ پہلے ذکر کیا گيا کہ عملی سیاست اور نظریاتی جوش میں بہت فرق ہے۔ عملی سیاست انسان کو بہت سے حقائق سے روشناس کرتی ہے جب کہ نظریاتی جوش انسان کو حقائق کی بجائے خوابوں کی دنیا میں اڑاتا ہے۔ عملی سیاست کا حصہ بنتے ہی بہت سی چيزوں کو سمجھنا پڑتا ہے اور وہ فیصلے بھی لینے پڑتے ہیں جو نظریاتی جوش کے مالک لوگوں کی سمجھ میں کبھی نہیں آسکتے۔ مولانا ارشد مدنی نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی ، ان سے گفتگو کی اور کھل کر بہت سے مسائل پر چرچا کیا جن میں ہندو راشٹر ، مسلم شناخت ، ماب لنچنگ اور دوسرے مسائل بھی تھے ۔ انہوں نے آر ایس ایس چیف سے جائز طور پر مطالبہ کیا کہ انہيں ہندو راشٹر کے اپنے نظریے پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ دونوں سربراہوں نے مانا کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ 

نام نہاد مسلم میڈیا یا مسلم شناخت کے حامل بہت سے صحافی در اصل مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کی روٹی کھاتے ہیں، اس سے پہلے جب بعض مسلم قائدین نے وزیر اعظم نریند ر مودی سے ملاقات کی تو اس پر ہنگامہ کیا گیا اور اب جب ارشد مدنی صاحب نے موہن بھاگوت سے ملاقات کی ہے تو کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہورہا ۔ ہمیں تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ لوگ چاہتے کیا ہیں ؟ بھائی ! ہم جس ملک میں جی رہے ہیں اس ملک کی قیادت سے گفتگو کیے بغیر اپنے مسائل کیسے حل کرسکتے ہیں ؟ عوام تو قیادت سے بات کرنہيں سکتی آخر یہ کام تو قائدین کو ہی انجام دینا پڑے گا اور جب وہ دے رہیں اور بہتر نتیجہ کی توقع بھی ہے تو یہ ہنگامہ کیوں ہے ؟ٹھیک ہے کہ موہن بھاگوت آرایس ایس کے سربراہ ہیں لیکن کیا یہ بتانے کی بات ہے کہ آج سارے قومی سربراہ بھی آرایس ایس کے ہی پردردہ ہیں وہ چاہے وزير اعظم ہوں یا وزیر خارجہ داخلہ یا کوئی اور ؟ ہمارا کوئی ایسا قائد جس کے ایمان ، دیانتداری او رجرات پر ہمیں کوئی کلام نہیں اگر وہ گفتگو کرکے ایک ایسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس میں ماب لنچنگ ختم ہوسکے ، ہندومسلم کے بیچ کی دور ی ختم ہوسکے ، اپنی شناخت اور ایمان و یقین کے استحکام کےساتھ ہم دیش کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں تو اس میں کیا برائی ہے ؟ 

اس پورے معاملے میں مولانا محمود مدنی کے بعض بیانات افسوسناک ضرور ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ انہیں اس قسم کے بیانات سے گریز کرنا چاہیے ۔ وہ ایک منجھے ہوئے اور سمجھدار لیڈر ہیں ، انہیں حالات کی نزاکت کا پتہ ہے اور عام طور سے ان کی زبان نہیں پھسلتی لیکن اورنگ زيب سے متعلق ان کا بیان افسوسناک رہا ہے ، کشمیر سے متعلق بھی گفتگو کرتے ہوئے انہيں دانشمندانہ توازان برقرار رکھنا چاہیے تھا لیکن ان تمام کے باوجود ہم جس طرح شخصیت کو مجروح کرنے میں لگ جاتے ہیں وہ بھی مناسب رویہ نہیں ہے۔ محمود مدنی یا ان جیسے لوگ کئی سطحوں پر ہماری آواز کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان سے اگر غلطی ہوتی ہے تو ہمیں بہت سمجھدار رویہ اپنا کر انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ کیا کہنا چاہیے اور کیا نہیں ۔ 

جب سیاسی قائدین کی کوئی حیثيت نہ رہ گئی ہو اور مذہبی قائدین کو بصورت مجبوری ہی سہی سیاسی قیادت کا فريضہ انجام دینا پڑرہا ہو اور وہ بڑی سمجھداری ، دیانت داری اور ہوش مندی سے یہ کام کربھی رہے ہوں تو ایسے لوگوں کا اعتبار گھٹانا یا ناجائز طور پر ان کے وقار کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کرنا کبھی ملت کے حق میں نہیں ہو سکتا ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں