فرحان اختر
1947ء سے لے کر آج تک سلگ رہا ہے۔کشمیر کے معصوم انسانوں کا خون مسلسل بہہ رہا ہے اور ساری دُنیا کی آنکھیں بند ہیں یا سیاہ عینکیں لگا رکھی ہیں۔حکومت کے تازہ فیصلہ سے ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کشمیریوں کو نکال کر وہاںنسل کشی کرنا چاہتی ۔کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ کسی انسانی جسم سے روح نکالنے کے مترادف ہے ۔ کچھ لوگ اس روح کو ۔ ’کشمیری ‘کا نام بھی دیتے ہیں ۔ ہندوستانی خفیہ ایجنسی ’ را ‘ کے سابق سربراہ اے ایس دُلت کے مطابق مرکز کی نریندر مودی سرکار کے اس عمل نے ’کشمیری سائیکی کو اس شدید طور پر متاثر کیا ہے ، اب ہم کشمیریت کو الوادع کہہ سکتے ہیں ، میں ان لوگوں میں سے ایک تھا جو اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ آج بھی کشمیریت زندہ ہے، آج ہم نے اسے دفن کردیا ہے ۔
پورے کشمیر میں بھائی چارہ کا بول بالا تھا سبھی لوگ ایک دوسرے سے مل کر سکھ دکھ کی گھڑی میں ایک ساتھ رہتے تھے پورے کشمیر میں ایسا ہی تھا ۔ اور یہی وہ عمل ہے یا وہ عمل تھا جسے ’ کشمیریت‘ کہا جاتا ہے ۔۔۔ کسی زمانے میں کشمیر میں اگر مسجدوں سے اذانیں گونجتی تھیں تو مندروں سے شنکھ اور گھنٹیوں کی آوازیں بھی آتی تھیں ، اگر کوئی ہندو میلہ لگتا تھا تو مسلمان اس میلے میں اگر جاتے تھے تو سبزی کھاکر ، گوشت کھاکر نہیں ، یہی وہ عمل ہے یا وہ عمل تھا جسے’ کشمیریت‘ کہا جاتا ہے ۔۔۔ اور یہ ’کشمیریت‘ ابتک نہ صرف کہ زندہ تھی بلکہ ایک امید بندھائے ہوئے تھی کہ کسی نہ کسی دن پنڈت واپس کشمیر لوٹیں گے اور کشمیرکے ہندو اور مسلمان مل کر کشمیرکو پرانی ڈگر پر لے آئیں گے ۔ لیکن بقول اے ایس دلت آرٹیکل ۳۷۰ ہٹاکر آج ہم نے اسے دفن کردیا ہے ۔
کشمیر کی ملی جلی تہذیب وثقافت کی بنیادی وجہ وہاں ڈوگرا خاندان کا راج رہا ہے ۔ راجہ ہری سنگھ کا ہندوستان سے الحاق ‘ مشروط تھا۔ یہ سب ہی جانتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں ملنے والی آزادی اور تقسیم کے المیے سے گذرنے کے بعد شاہی ریاستوں کو یہ اختیار تھا کہ وہ چاہیں تو ہندوستان سے الحاق کرلیں یا پاکستان سے ، راجہ ہری سنگھ نے چند ‘ شرائط پر ہندوستان سے الحاق کیا تھا۔
آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد حالانکہ وزیراعظم مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کشمیریوں کو یہ یقین دلایا ہیکہ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمہ سے ریاست میں ، جسے کہ اب دوحصوں لداخ اور جموںوکشمیر میں تقسیم کرکے مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقوں ، یعنی یونین ٹیریٹریز میں تبدیل کردیا گیا ہے ، ‘ امن کی فاختہ اڑتی پھرے گی ۔۔ ان کے بقول آرٹیکل ۳۷۰ اور آرٹیکل ۳۵(الف) جموں وکشمیر میں ساری خرابیوں کی جڑ تھے ، ان ہی کی وجہ سے دہشت گردی تھی ، کرپشن تھا، بھائی بھتیجہ ہ واد تھا اور علیحدگی پسندی تھی مگر اب مرکز کے زیرانتظام جموں وکشمیر میں ترقی ہوگی، لوگ آگے بڑھ سکیں گے اور نوجوان قیادت ابھر کر سامنے آئے گی یہاں تک کہ جموں وکشمیر کو پھر سے ریاست کا درجہ دے دیا جائے گا ۔۔۔ سینئر صحافی نلنجن مکھوپادھیائے کے مطابق یہ ‘ سیاسی تقریر تھی۔۔ اور سیاسی تقریرکیوں نہ ہو، ملک کے وزیرداخلہ امیت بھائی شاہ کا پارلیمنٹ میں آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کا اعلان بی جے پی کے انتخابی منشور کے ایک وعدے کی تکمیل ہی تو ہے ! بلکہ ایک ‘ سیاسی وعدے کی تکمیل ۔۔۔ اور یہ ‘ سیاسی وعدہ کہیں اور سے نہیں آر ایس ایس کے فکری مواد سے ہی نکلا ہے ۔ آر ایس ایس نے کبھی نہیں چاہا کہ جموں وکشمیر کو کوئی خصوصی درجہ حاصل ہو ۔۔۔ اور اس کی یہ خواہش اب جاکر پوری ہوئی ہے ۔ حالانکہ اس خواہش کی تکمیل کی سمت قدم کانگریس کے دور میں اٹھ چکے تھے کہ کانگریس کے دور ِ حکومت میں پارلیمنٹ کے اندر مختلف قوانین میں کی جانے والی ترمیمات کا جموں وکشمیر کی منظوری سے وہاں نفاذ ہوتا رہا ۔جموں وکشمیر کی خودمختار ی کے جو ۹۷ شعبے ہیں ان میں سے ۹۴ شعبوں میں مرکزی حکومت کے قوانین نافذ تھے ، پر کانگریس نے کبھی بغلیں نہیں بجائیں ، جبکہ آج بھلے ہی مودی بغلیں نہ بجارہے ہوں، بی جے پی بغلیں بجارہی ہے ۔۔۔ اٹل بہاری واجپئی نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے ‘ انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کا نعرہ دیا تھا، انسانیت تو کشمیر میں گذشتہ پانچ برسوں میں بری طرح سے دم توڑ چکی ہے اس کا ثبوت نوجوانوں کے چھروّں کی ما ر سے چھلنی چہرے اور بے نور آنکھیں ہیں ، جمہوریت دھیرے دھیرے دم توڑتی رہی اور اب کشمیریت بھی دفن کردی گئی ہے ۔۔۔
مودی نے قوم کے نام خطاب کرتے ہوئے امن کی بات کی ہے پر وہاں احتجاج ابھرآیا ہے اور لوگ شدیدتشدد کے اندیشے کا اظہار کررہے ہیں ۔ کیا کبھی کسی کو تشدد سے دبایا جاسکا ہے؟ مودی نے اپنےخطاب میں بی جے پی کے ان عناصر کی سرزنش نہیں کی جو یوں باتیں کررہے ہیں جیسے کہ اب کشمیر ان کی جائیداد بن گیا ہے اور وہ کشمیریوں کو بے دخل کرکے وہاں زمینیں خریدیں اور صنعتیں لگائیں گے اور ‘کشمیری لڑکیوں’ کو ‘لائیں’ گے ، ان عناصر میں ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹّر بھی ہیں ۔ نہ ہی مودی کی زبان پریہ تھا کہ جموں وکشمیر سے فوجوں کو کب ہٹائیں گے اور کب اسے ریاست میں تبدیل کریں اور وہاں کے مقبول عام قائدین کو آزاد کریں گے ۔ یہ وہ باتیں ہیں جو کشمیر اور کشمیریوں کی ‘ شناخت ‘ پر راست حملہ ہیں ۔ یہ ‘ کشمیریت پر بھی حملہ ہیں ۔ اور یہ کشمیر کے خوبصورت وجود کے لئے بھی خطرے کی علامت ہیں ۔ مجھےیاد آرہا ہے کہ لال چوک میں مختلف اخباروں کے دفاتر میں لوگوں سے ملاقات کے دوران ایک صحافی نے کہا تھا کہ اب کشمیر بھی آلودہ ہورہا ہے ، افواج نے جگہ جگہ قبضے کرلئے ہیں، یہاں کے قیمتی درختوں کو کاٹ کاٹ کر پیسے کمارہے اور ماحولیات کو خراب کررہے ہیں ، یہ کہیں بھی بول وبراز کردیتے ہیں جس سے یہاں کا شکر سے بھی میٹھا پانی گدلا ہورہا ہے ۔ ۔۔۔ اب تو کشمیر سب کے لئے کھل گیا ہے ، تو کیا اب کشمیر وہ جنت نظر کشمیر نہیں رہے گا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے
اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمین است و ہمین است وہمین است






