وراثت میں ملنے والی قیادت کیا چاہتی ہے ؟

ثناء اللہ صادق تیمی 

جب اصولوں کے تحت قربانیاں دے کر قیادت حاصل ہوتی ہے اور ظلم و جبر کے خلاف لڑ کر کوئی مقام حاصل کیا جاتا ہے تو اس قیادت کی حفاظت یا ان اصولوں کی قیمت کا اندازہ اس نسل کو رہتا ہے لیکن اگر یہی قیادت وراثت میں منتقل ہوجاتی ہے تو وراثت میں قیادت پانے والی نسل حصول قیادت کے لیے دی گئی قربانیوں کو بالعموم فراموش کردیتی ہے اور زیادہ تر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے اندر عیش پسندی کے ساتھ لے دے کر اس بات کی کوشش بچی رہ جاتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح قیادت سے لطف اندوز ہوتی رہے اور جب کبھی کوشش اس حد تک گر جاتی ہے تو بالآخر اقتدار ہاتھ سے نکل ہی جاتا ہے ۔ ابن خلدون نے اسی کو ریاست کی عمر سے تعبیر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ریاستوں کی عمر بھی انسانوں کی مانند ہوتی ہے اور بچپن ، جوانی اور بڑھاپے سے گزر کر ختم ہوجاتی ہے۔ انہوں نے سوسال کی مدت کی تحدید کی ہے ، عام طور سے ماہرین نے ان کے اس اصول کو قبول کیا ہے البتہ سو سال کی تحدید کو حقائق کی روشنی میں نکارا ہے یعنی یہ عمر کم یا زیادہ ہوسکتی ہے ۔ قیادت و ریاست کا یہ اصول بادشاہت میں دیکھنے کو ملتا ہی ہے لیکن کسی نہ کسی صورت اور دوسری قیادتوں میں بھی کارفرما نظر آتا ہے ۔ 

جن جن ملکوں میں جمہوریت رائج ہے وہاں بھی بالعموم کوئی نہ کوئی خاندان ایسا ضرور ہے جو وراثت میں اقتدار پاتا رہا ہے ۔ ایسے لوگوں کو جب جب کسی طاقتور منظم متبادل سیاست سے سامنا ہوا ہے، انہیں اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں ۔ ہندوستان میں نہرو گاندھی خاندان کو تو پاکستان میں بھٹو خاندان کو دیکھا جاسکتا ہے۔ موجود ہ صورت حال یہ ہے کہ کانگریس اپنی اسی ڈائنسٹی کو بچانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مختلف ریاستوں میں قیادت کے وارثین کو یہ لگنے لگا ہے کہ ان کے ہاتھ سے اقتدار جارہا ہے اور کانگریس انہیں قیادت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اب یہ موجودہ قیادت کا حصہ بن کر کسی طرح اپنی سیادت بچانے کا جتن کرنا چاہ رہے ہیں لیکن تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ان کے ہاتھ سے سیادت بھی جائے گی اور ذلت بھی مقدر ہوگی۔ جن لوگوں پر آپ نے حکومت کی ہے اگر انہیں آپ پر حکومت کرنے کا موقع مل جائے تو وہ آپ کو پھر سے حکومت کا تاج یوں ہی کیوں پیش کریں گے ؟

وراثت میں ملنے والی قیادت کے اس پورے اصول کو ہم مختلف تنظیموں یا دینی قیادت کے تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ آپ اگر چشم بینا سے دیکھیں گے تو آپ کو سمجھ میں آئے گا کہ بہت سی تنظیموں کے سربراہان اس لیے سربراہ ہیں کہ ان کے آباء و اجداد نے بڑی محنت سے وہ تنظیم بنائی تھی اور اس راستے سے قوم و ملت کی خدمت انجام دی تھی ۔ موجودہ وارثین کو نہ تو وہ اسٹرگل کرنا پڑا ہے اور نہ ان کے ذہن میں وہ قربانیاں ہیں انہیں تو اقتدار کے لطف سے مطلب ہے ، آپ دیکھیں گے کہ یہ بے چارے اپنے اس اقتدار کو بچانے کے لیے ہوا کے ساتھ چلتے ہیں ، جدھر حکومت ہوتی ہے ادھر ہوجاتے ہیں ۔ وراثت والی مذہبی قیادت کا حال بھی اس سے جدا نہیں لیکن چوں کہ مذہبی قیادت کو اپنی ساکھ کی حفاظت بھی مقصود رہتی ہے اس لیے بالعموم حالات کے مطابق نصوص کی تفسیر و تاویل کا راستہ اختیار کرلیا جاتا ہے ۔ بڑی بڑی جمہوری حکومتوں کا طریقہ یہ ہوتا آیا ہے کہ وہ انہیں تنظیموں اور مذہبی قیادتوں سے سودے بازی کرتی ہیں کیوں کہ انہيں پتہ ہوتا ہے کہ اس راستے سے سودے بازی آسان بھی ہے اور کارگر بھی ۔ یہ قیادتیں عوام کو پوری طرح باشعور ہونے نہیں دیتیں اور حکومتیں ان کے سہارے عوامی انقلاب سے بہ آسانی بچ جاتی ہیں ۔ بڑے اقتدار کو بچانے کے لیے اگر کسی کو کوئی وزارت یا چيئر مین شپ یا کسی ادارے کا سربراہ بنانا پڑے تو یہ کون سی بڑی با ت ہے !۔

اس کے باوجود سوال تو باقی رہ جاتا ہے کہ پھر ملتوں کو اپنی سیاست کا کیا طریقہ اپنانا چاہیے ۔ اس سوال کے جواب کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ ہم اس حقیقت کو سمجھیں کہ سیاست روزمرہ زندگی کا حصہ ہے ۔ ہم سیاست سے آنکھیں موند کر نہیں جی سکتے ۔ جب ساری پالیسیاں سیاست داں طے کرتے ہیں ، جب قانون وہی بناتے ہیں ، جب سارے وسائل پر انہی کا کنٹرول رہتا ہے تو ایسے میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلینا عقلمندی نہیں ہوسکتی ۔ یہیں سے ایک اور حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ پھر ہماری سیاست کو ہمارے ہی اندر سے اٹھنا چاہیے ، ہماری قیادت وہ ہو جسے ہم نے قیادت بنایا ہو ، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی پارٹی کسی کو یکایک سامنے کھڑا کردے اور ہماری مجبوری یہ ہو کہ ہم ہر صورت میں اسے اپنا قائد مان لیں ، اگر کیفیت یہ ہوگی تو ہم کبھی اپنے مسائل حل نہیں کرپائیں گے ۔ اس کا یہ قطعا مطلب نہیں کہ ہم الگ سے اپنی کوئی پارٹی بنائیں اور قیادت کا شور کریں ، نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہمارا نمائندہ واقعی ہمارا نمائندہ ہو اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم تنظیمی سطح پر کام کرنے کی خو ڈالیں ، اپنی سیاست کو سمجھیں ، اپنی نسل کی سیاسی تربیت کریں ، انہیں لائق بنائیں اور ایک ویژن کے ساتھ انہيں میدان سیاست میں اتاریں ۔ اگر ایسا ہوپایا تو ہماری آواز بھی ہوگی اور اس کی وقعت بھی ورنہ ہر بڑی پارٹی ہمیں اپنے حساب سے الو بناتی رہے گی ۔

ملکی یا ملی سطح پر جنہيں اقتدار وراثت میں ملا ہے ان کی خامیاں گنانا آسان ہے لیکن متبادل سیاست پیدا کرکے قابل قیادت پیدا کرنے کے لیے خلوص، محنت، منصوبہ ، قربانی اور ایثار کی ضرورت ہے اور ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ ہم ان اوصاف کے آئینے میں کہاں کھڑے ہیں، وہیں سے ہمیں ہماری بننے والی سیاسی حیثيت کا جواب بھی مل جائے گا ۔