آبیناز جان علی (موریشس)
موہن داس کرم چند گاندھی بیسویں صدی کی تاریخ میں اہم ترین نام ہے۔ آزادی کے لئے ان کی جدوجہد نے دنیا بھر کے لئے مثال قائم کی اور 1940سے1970 کی دہائی میں کئی ممالک نے اہنسا کا راستہ اپناتے ہوئے اپنے اپنے ملک کو انگریزوں کی حکمرانی سے آزاد کیا۔ 1834سے ہندوستان سے گرمٹیا مزدور، ایک معائدے کے تحت موریشس میں ملازمت کی غرض سے آنے لگے۔
ہندوستانی پدرِ ملت موہن داس کرم چند گاندھی کا جزیرۂ موریشس سے مضبوط رشتہ ۹۲ اکتوبر1901میں قائم ہوا جب جنوبی افریقہ کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہتے ہوئے ان کا جہاز ایس۔ایس۔ نوشارا اٹھارہ دنوں کے لئے موریشس کی بندرگاہ پورٹ لوئی میں رکا تھا۔ اس زمانے میں جہاز کے ذریعے موریشس سے شکر ہندوستان پہنچایا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی کستوربا اور چار بچے رام داس، دیو داس، مانی لال اور ہری لال تھے۔ ان دنوں بتیس سال کے جوان وکیل،موہن داس کرم چند گاندھی کو ہندوستان سے باہر انگریزی حکمومت کے تحت کام کرنے والے مزدور، تاجر اور ماہر ملازمین کی سماجی، اقتصادی اور حالاتِ زندگی کی فکرستاتی تھی۔
موریشس میں گاندھی جی کی آمد کی خبر جزیرے کے تمام اخبارات کی سرخیاں بن گئی تھی۔ یہاں مقیم ہندوستانی اور ہندوستانی نژاد نے ان کا تزک و احتشام سے خیرمقدم کیا۔ پورٹ لوئی کے طاہر باغ ہال میں غلام محمود اعجم کے بیٹے نے گاندھی جی کا استقبال کیا۔ گاندھی جی یہاں کے لوگوں کی ذہانت سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے خواہش ظاہرکی کہ یہاں کے لوگ سیاست میں زیادہ دلچسپی دکھائیں تاکہ وہ اپنے حقوق سے آشنا ہوں اور آزاد ماحول میں سانس لے سکیں۔ گاندھی جی نے تعلیم پر بھی زور دیا تاکہ اہلِ موریشس ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکیں۔ اپنی تقریر میں باپو نے ہندوستانی نسل کو اپنی تہذیب و ثقافت کو مضبوطی سے تھامنے کا درس دیا اور ان کو ہدایت کی کہ اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنائیں کیونکہ اس قوم کا مستقبل ہندوستانی مہاجر کے بچوں کے ہاتھ میں ہوگا۔ گاندھی جی نے یہاں کے لوگوں کو موریشس کو اپنا ملک سمجھنے کی سیکھ دی اور انہیں ملک کی سیاست میں دلچسپی لینے کو کہا۔ انہیں یاد دلایا گیاکہ اس جزیرے میں گنے کی کاشتکاری سے جو ترقی ممکن ہو پائی ہے وہ ہندوستانی مزدور کی محنت سے ہوئی ہے۔
گاندھی جی کے سفر نے موریشس کی تاریخ پر اپنی چھاپ چھوڑی۔ ۹۱ نومبر1901میں موریشس سے رخصت ہونے کے بعد بھی گاندھی جی نے اپنی اہم تحریروں اور تقریروں میں موریشس کا ذکر کیا۔
جنوبی افریقہ میں ستیہ گرہ کی تحریک کی بنیاد پڑی۔ گاندھی جی نے دیارِ غیر میں آباد ہندوستانی نسل کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کے لئے صدائے احتجاج بلند کیا۔ اپنی سوانح حیات میں بھی گاندھی جی نے اپنے موریشس کے دورے کا ذکر کیا۔ وہ موریشس میں مزدوروں کی طرزِ زندگی اور ملازمت کے احوال سے بخوبی واقف تھے۔ 1964میں لندن میں منی لال منگل لال ڈاکٹر سے ملاقات کے وقت گاندھی جی نے انہیں موریشس جانے کے لئے کہا۔ 1907میں منی لال ڈاکٹر موریشس آئے اور موریشس کے ہندوستانی نژاد کی سماجی اور سیاسی بہبودی کے لئے عمل پیرا ہوئے۔ 1907 سے1911تک منی لال ڈاکٹر گاندھی جی کو باقائدگی سے موریشس میں اپنے کام کی خبر دیتے رہے۔ 1920 سے 1940کے دوران موہن داس کرم چند گاندھی یہاں کے مجاہدینِ آزادی کے رابطے میں رہے اور گاندھی جی انہیں اہلِ موریشس کی معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی ترقی کے لئے کام کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ مہاتما گاندھی نے موریشس میں آباد چینی تاجروں سے بھی اچھے تعلقات استوار کئے۔
1947میں ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے مذہبی انتشار کو لے کردہلی میں اپنی صبح کی پوجا کے بعد گاندھی جی نے موریشس کو مثال کے طور پر لیا کہ موریشس میں کئی دہائیوں سے ہندوستانی ہندو اور مسلم امن و اتحاد سے جی رہے ہیں اور ان کے یہاں سماجی ہم آہنگی ہے۔ موریشس ایک آزاد معاشرہ ہے جہاں احترامِ انسانیت کو افضلیت دی جاتی ہے۔
موریشس کے بابائے قوم سرسیو ساگر رام غلام نے ایک بار کہا تھا کہ گاندھی جی نے جنوبی افریقہ میں ہندوستانی مہاجر کے حق میں جس کام کی داغ بیل ڈالی تھی وہ کام ان باقی ممالک میں جاری و ساری رہا جہاں ہندوستانیوں نے ظلم برداشت کئے۔
گاندھی جی کا پیغام صداقت، اخوت اور عدم تشددکا تھا۔ ان کے فلسفے کو یاد رکھنے کے لئے موریشس میں کئی اداروں، محتاج خانوں، سڑکوں، اور چوک کو ان کا نام دیا گیا۔ ان کا مجسمہ کئی جگہوں پر موجود ہے۔ ان کی زندگی اور ان کا فلسفہ اسکول کے نصاب میں شامل ہے۔
1969 میں سرسیوساگر رام غلام نے ہندوستانی وزیرِ اعظم محترمہ اندرا گاندھی سے ملاقات کی۔ اس دوران یہ طے ہوا کہ موریشس میں مہاتما گاندھی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک ایسے تعلیمی مرکز کا قیام کیا جائے جہاں ہندوستانی تہذیب کا فروغ ہو۔ اس طرح مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ وجود میں آیا۔ 3جون1970میں پہلا پتھر رکھنے کی رسم ہوئی او23 دسمبر1970کو پالیامنٹ میں ایم۔ جی۔ آئی ایکٹ کومنظوری ملی۔
ہر سال12اکتوبر کو ایم۔ جی۔ آئی کے تمام اسکولوں میں گاندھی جینتی منایا جاتا ہے۔ اس موقعے پر بچوں میں مہاتما گاندھی کے سکھائے گئے اخلاق جیسے سچائی، عاجزی اور اہنسا اسکول کے طلبا طالبات کو یاد کرائے جاتے ہیں۔مہاتما گاندھی نے صحت مند ذہن، جسم اور روح پر زور دیا۔ گاندھی جینتی مہاتما گاندھی اسکولوں کا اہم سرمایہ ہے۔ اس دن تمام اسکولوں کے ملازمین کھانا تیار کرنے میں مدد کرتے ہیں اور اسکول کے تمام بچوں اور ملازم ساتھ مل کر ظہرانہ لیتے ہیں۔
مہاتما گاندھی سیکنڈری اسکول فلاک کے ریکٹر رام غلام صاحب نے 12کتوبر2019 کو بطور مہمانِ خصوصی گولارام صاحب کا استقبال کیا جو فلاک کے کیر ڈے ویل (Coeur de ville) شاپنگ مال کے سینٹر منیجر ہیں۔ اس کے ہمراہ اشونت صاحب، نائب سینٹرمنیجر بھی موجود تھے۔ رام غلام صاحب نے بچوں کو بتایا کہ آج کے دن گاندھی جی کے کام کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے اور ان کے اصولوں اور فلسفے پر تدبر کرنے کا بھی دن ہے۔ انہوں نے صدرِ پی۔ٹی۔اے بادل صاحب اور اساتذہ کا شکریہ ادا کیا جن کے اشتراک سے آج کا پروگرام کامیاب ہو پایا۔
اسی دن وزیرِ تعلیم، انسانی وسائل اور سائنسی تحقیق لیلیٰ دیوی دوکھن لچھمن صاحبہ نے اسکولوں میں اپنا پیغام بھیجاجسے فلاک کے اسکول میں طلبا اوگوست، چھتو اور تونم نے باری باری پڑھا۔ مہاتما گاندھی کی یاد میں ۲ اکتوبر کو یومِ اہنسا قرار دیا گیا ہے۔ آج کے دن اس عظیم شخصیت کے ڈیڑھ سو سالہ یومِ پیدائش ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے تاکہ دنیا میں امن و احترام کے جذبات عام ہوں۔ گاندھی جی کے ہمت مردانہ سے متاثر ہو کر دنیا کا ماحول زیادہ سازگار بن سکتا ہے۔ وزیرِ تعلیم نے اپنے پیغام میں نوجوانوں کو ذمے دار بننے کو کہا۔ انہیں ظلم و تشدد سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہے اور اپنے اقوال و اعمال پر غور کرنا ہے۔ سوشل میڈیا ہمیں ایک طرف جرائم کی طرف اکسارہا ہے۔ نئے نظامِ تعلیم میں اقدار پر زور دیا گیا ہے تاکہ آج کے طلبا و طالبات ذمے دارر شہری بن کے مشکلات کا حل تلاش کریں اور اپنے چاروں طرف امن و اتحاد کو فروغ دیں۔ وزارتِ تعلیم مقامی سطح پر امن کے لئے ایک مہم چلائے گا جس کے نتیجے میں لوگ ایک دوسرے کو زیادہ سمجھ سکیں اور ان کے بیچ فرق کی عزت ہو۔ اس کے لئے وزیرِ تعلیم نے نوجوانوں کو دعوت دی۔
تقریر کے بعد اسکول کے اساتذہ، طلبا و طالبات اور شعبہ موسیقی نے گاندھی کے پسندیدہ بھجن ویشن بھجن،رام بھجن اور رگھو پتی راگھو کا جاپ کر کے چاروں طرف پاکیزگی کی لہر دوڑائی۔ بعد از آں گاندھی جی کے مجسمے پر ہار چڑھائے گئے۔ مہمانِ خصوصی کو ایک مصوری عنایت کی گئی۔ اس دن اسکول کے مرکزی ہال کی دیواروں کو گاندھی جی کی تصویروں اور ان کے فلسفے پر پوسٹڑوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔ تقریب کے بعد بچوں اور اساتذہ کو اسکول میں ظہرانہ تقسیم کیا گیا۔
تقریباََ ساڑھے دس بجے چند طلبا و طالبات اپنے اساتذہ کے ہمراہ لاوانتیوئرگاؤں میں معذور بچوں کے ٹیکنیکل اسکول گئے جہاں اسکول کے ڈائریکٹر ڈاکٹرہنسراج نے ان کا پر خلوص استقبال کیا۔ اسکول کے معذور بچے پوری نظم و ضبط سے قطار میں بیٹھے تھے۔ مہاتما گاندھی سیکنڈری اسکول فلاک نے ان بچوں کی دلجوئی کے لئے پرکشش رقص کا انعقاد کیا۔ تمام بچوں کو بلّا پہنایا گیا جس میں مہاتما گاندھی کی تصویر تھی۔ اس چھوٹے سے تحفے کو پاکر بچے خوشی سے جھوم اٹھے۔ یہ ننھے فرشتے ہم کو یہی سمجھاتے ہیں کہ زندگی میں خوشی پانے کے لئے زیادہ چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اسٹیج پر مہاتما گاندھی کی تصویر رکھی گئی تھی اور اسٹیج کو پھولوں سے مزین کیا گیا تھا۔ ٹیکنیکل اسکول کے بچوں نے بھی ایک رقص پیش کیا۔ مہاتما گاندھی اسکول نے ٹیکنیکل اسکول کو کتابیں رکھنے کے لئے ایک الماری نذر کی۔ اس کے بعد ٹیکنیکل اسکول کے کمپیوٹر لیب، مصوری کا کمرہ، ورکشاپ، تالاب اور بچوں کے کھیلنے کا میدان دیکھنے کا موقعہ ملا۔ اس جدید اسکول میں معذور بچوں کے ذہنی اور جسمانی نشونماکے لئے تمام سہولتیں مہیا کئے گئے تھے۔ حال میں اسکول نے ایک ایسی بس خریدی جس میں ویل چیئر میں بیٹھے طلبا و طالبات کو لفٹ کے ذریعے نہایت آرام سے بس کے اندر پہنچایا جاتا ہے۔
آخرکار مہاتما گاندھی اسکول کے طلبا و طالبات نے اپنے ہاتھوں سے بچوں کو بریانی اور مٹھائی تقسیم کی۔ مشروب میں پانی کی بوتل اور جوس دئے گئے۔ کھانے کے بعد ان کو تحائف بھی دئے گئے۔ تمام بچے بارہ بجے کے قریب اپنے گھر لوٹے۔ مہاتما گاندھی نے کیا خوب فرمایا کہ دوسروں کی خدمت میں کھو کر انسان خود کو پاتا ہے۔






