احمد شہزاد قاسمی
آر ایس ایس اور اس کی معاون تنظیموں کا “ہندوتو” کا نظریہ کوئی آج کا نہیں ہے بلکہ برسوں کی طے کردہ پالیسی کا حصہ ہے حالیہ دنوں میں مسلمانوں کو ” گھر واپسی مہم “کے نام پر تبدیلئ مذہب کے ذریعہ ” ہندو ازم ” میں داخل کر نے کی جو باتیں کی گئی ہیں اس کی شروعات ” شدھی تحریک” (پاک کر کے ہندو بنانے اور ہندو مذہب میں داخل کر نے کی تحریک) کے نام سے ” آریہ سماج “نامی تنظیم نے 1920میں کی تھی جس کے بانی ” سوامی دیانند سرسوتی ” تھے اس تحریک کے تحت غیر ہندو بالخصوص مسلمانوں کو جبری طورپر اپنا مذہب تبدیل کر کے ہندو مت میں داخل کرنا تھا ۔
اس تحریک کا بنیادی مقصد غیر ہندؤں کو ” ویدک دھرم ” قبول کر نے کی دعوت دینا اور ہندؤں میں خودی اور خود اعتمادی کی روح پھونکنا تھا اس تحریک کے بانی یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے موروثی مذ ہب سے بھٹکے ہوئے ہیں لہذا ان کو کسی بھی قیمت پر اپنے موروثی مذہب کو قبول کروانا ہے،
یہی سوچ اور نظریہ انہوں نے اکثریتی سماج میں پیدا کیا جس کے نتیجہ میں “ہندو قوم پرستی میں انتہا پسندی کی حد تک جانے والی “راشٹریہ سیوک سنگھ” وشو ہندو پریشد”ہندومہاسبھا”اور”ہندوسینا”جیسی متشدد ہندو تنظیمیں وجود میں آئیں ۔
یہ ” تنظیمیں ” سوامی دیانند سرسوتی ” کے مشن کو بھرپور اور منظم طریقے سے لےکر آگے بڑھیں زمانے سے ہم آہنگ ہور انہوں نے ” ہندو قومیت ” کی بالا دستی کے جذبہ کو فروغ دیا ۔
انہیں محسوس ہوا کہ”ہندوتو”کے غلبہ کے لئے حکومت وسیاست صنعت وتجارت تعلیم وصحافت کے شعبوں میں ایسے لوگوں کی بالادستی ضروری ہے جو ” ہندو ازم ” کی ” احیاء پرستی ” کے جذ بہ سے سرشارہوں ان لوگوں نے ان میدانوں میں کام کیا چنانچہ ” بی جے پی ” (سیاست) ” اکھل بھارتیہ ادھکتا پریشد ” (عدالت و وکالت) ” بھارتیہ اتہاس سنگٹھن یوجنا ” (تاریخ نگاری) ” وگیان بھارتی ” (سائنس وٹیکنالوجی) ” اکھل بھارتیہ راشٹریہ شکسک مہا سنگھ ” (تعلیم وتعلم) ” بھارتیہ کسان سنگھ ” (زراعت) کے ذریعہ آج سیاست وحکومت عدالت و وکالت، طب و صحت، تعلیم و صحافت وغیرہ کے شعبوں میں ایسے لوگوں کی بالادستی ہے جو ملک کو ایک مخصوص رنگ میں رنگنے کی آئینی اور غیر آئینی ہر طرح کی کوشش کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے تئیں نفرت اور خوف کا ماحول پیدا کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ لگارہے ہیں ۔
نریندر مودی سرکار کے قیام کے بعد سے ” ہندوتو وادی عناصر ” کا جذبہء ” ہندو راشٹر ” کچھ زیادہ ہی جوش مار رہا ہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں گویا اب وقت آگیا ہے کہ دوسرے کے قابلِ شناخت وجود کو ختم کر کے اپنے میں ضم کر لیا جائے ۔
حکومت کے نمائندے اور وزرا اس ایجنڈے کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان کسی بھی طریقہ سے اپنا مذہب تبدیل کر کے “ہندومت ” میں داخل ہوجائیں اس کے لئے وہ دھونس دباؤ لالچ تشدد اور خوف کا ماحول پیدا کر رہے ہیں یہاں تک کہ ہندوستانیت اور وطن پرستی کو بھی ” ہندو مت ” سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں اپنی تقریروں سے اس بات کا صاف پیغام دے رہے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان محبِ وطن نہیں ہوسکتے جب تک وہ ہندو کمیونٹی کا حصہ نہیں بن جاتے ۔
ان دنوں ملک میں ” این آر سی ” (نیشنل رجسٹریشن آف سیٹیزن شپ/ہندوستانی شہریوں کی فہرست)کا جو ہوّا ہے وہ بھی بھی ” ہندوتو یلغار ” کا ایک حصہ ہے جس کے سبب ملک کے مسلمانوں میں عجیب خوف و بے چینی پائی جارہی ہے ۔
یکم اکتوبر کو ” کلکتہ ” میں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے وزیر داخلہ ” امت شاہ ” نے این آر سی کے نفاذ کی بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ این آرسی نافذ کر نے سے پہلے شہریت ترمیمی بل کو پارلیمینٹ سے پاس کرایا جائےگا ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ سی – اے – بی کے تحت ہندوستان میں آنے والے ہر پناہ گزین کو شہریت دی جائے گی کسی بھی ہندو سکھ جین بدھسٹ اور عیسائی پناہ گزین کو ملک چھوڑنے کی نوبت نہیں آئےگی لیکن کسی بھی “گھُس پیٹھئے ” کو ہندوستان میں رہنے نہیں دیا جائےگا ایک ایک کو چن چن کر نکالا جائے گا ۔
امت شاہ کے اس بیان سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ این آر سی کو محض انتخابی وسیاسی جملہ نہیں کہا جاسکتا ۔
این آر سی کا خلاصہ یہ سمجھ لیجئے کہ ملک کے ہر شہری سے اپنی شہریت ثابت کر نے کے دستاویز مانگے جائیں گے جو غیر مسلم اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائے گا اس کے لئے بل لاکر ہندوستان کا شہری مان لیا جائے گا جبکہ برسوں سے رہنے والا مسلمان دستاویز کی خامی کی وجہ سے اگر اپنی شہریت ثابت نہیں کرپایا تو اسے ملک بدر کردیا جائےگا یا جیل میں ڈال دیا جائے گا ۔
اس ظالمانہ این آرسی کے پیچھے انتخابی فوائد ہوں یا نہ ہوں لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اس کے پیچھے ایک خاص قسم کی ذہنیت اور احساسِ اذیت کے ساتھ ساتھ اسلام دشنی کے عوامل کار فرماہیں ۔
سنگھی لیڈران کو اس بات سے اس بات سے اذیت ہوتی ہے کہ دلت اور پسماندہ طبقات کے لوگ اسلام قبول کرکے ان کی ماتحتی اور محکومی سے نکل جاتے ہیں اس لئے وہ مسلمانوں اور اسلام کے تعلق سے نفرت اور خوف کا ماحول پیدا کر رہے ہیں ۔
این آرسی کے خوف سے ایک تو پسماندہ طبقات کے لوگ اسلام کی طرف مائل نہیں ہونگے دوسرے کچھ کمزور بے بس اور لاچار مسلمان دباؤ اور ظلم وتشدد کے خوف سے اسلام کے دامن سے نکل جائیں گے اس طرح سنگھ کی حاکمیت باقی رہے گی ۔
اس موقع پر مسلم اقلیت کے نمائندوں اور قائدین کو مسلمانوں میں حوصلہ پیدا کرنا چاہئے اور شہریت ثابت کرنے کے لئے ضروری دستاویز کی تیاری میں ہر ممکن طریقہ سے تعاون کرنے کی سبیل پیدا کرنی چاہئے لیکن اس سے زیادہ ان میں ایمانی غیرت جذبۂ شہادت اور ایمان پر ثابت قدمی کے عزائم پیدا کرنے کی ضرورت ہے یہ کام مساجد کے ائمی وخطبا زیادہ بہتر طریقہ سے انجام دے سکتے ہیں ۔
حق کی خاطر انبیاء کرام علیہم الصلات والسلام کی تکالیف اور صبر و استقامت کے واقعات اسی طرح ایمان لانے کی پاداش میں صحابہء کرام رضی اللہ عنہم کی قربانیوں اور جد وجہد کے تذکروں سے آج بھی مومنین کے دلوں کو ایمانی حرارت سے لبریز کیا جاسکتا ہے، حضرت بلال، حضرت خبیب، حضرت صہیب، حضرت عمار اور حضرت سمیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر قریشِ مکہ نے اس قدر ظلم ڈھائے کہ ان کی داستانیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
کس قدر دشوار تھا اسلام قبول کرنا اور کس قدر دشوار ترین تھا اسلام پر جمے رہنا جب لوگ اسلام لاتے تو انہیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ان کو رسیوں سے باندھ کر مارا جاتا ان کو بھوکا پیاسا رکھا جاتا لیکن صبر و استقامت نے ان کا حوصلہ بلند رکھا اور وہ ایمان پہ ثابت قم رہیں، صبر و ہمت کی ان داستانوں میں آج بھی اہلِ ایمان کے لئے وہی تازگی وہی حرارت ہے جو پہلے تھی۔
آج ہمیں محض اس لئے خوف زدہ کیا جارہا ہے کہ صاحبِ ایمان ہیں ہمیں صحابہء کرام کے واقعات سے حوصلہ پکڑنا چاہئیے اوراپنے جذبوں کو جوان رکھنا چاہئیے اگر ہم نے ہمت نہیں ہاری اور کسی تکلیف و مصیبت کی پرواہ کئے بغیر ایمان پر ثابت قدم رہیں تو ہمارے لئے قرآن میں یہ خوشخبری موجود ہے ۔
” بلا شبہ جن لوگو نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے ان پر ملائکہ نازل ہو کر یہ خوشخبری دیں گے کہ وہ نہ ڈریں اور نہ غم میں مبتلا ہوں اور اس جنت کی خوشخبری پائیں جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا “
ہر مومن کے اندر یہ جذبہ ہو نا چاہیئے کہ ہماری عزت صرف اسلام کی وجہ سے ہے ہم اس سے سرِمو انحراف نہیں کر سکتے خواہ ہماری جان ہی کیوں نہ لے لی جائے ۔ ؎
عزت سے جئے تو جی لیں گے
یا جامِ شہادت پی لیں گے






