مصر میں ہندوستانی فلموں کی مقبولیت

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی
عالمی سطح پر اس بات سے انکار نہیں كيا سکتا کہ ہندوستانی فلمیں ایک اعلی  مقام کی حامل ہوا کرتی ہے، ہندوستانی ثقافت کی جھلکیاں ان فلموں میں بخوبی محسوس کی جا سکتی ہے، ان میں واقعات اور مقامات پیش کئے جاتے ہیں۔ ہندوستانی فلم دس سال کے اندر اندر بہت سے ممالک تک پہنچ چکی ہے اور اب اس کی نمائش دنیا بھر میں 92 سے زیادہ ملکوں میں ہو رہی ہے۔
جب ہم عالم عرب کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں ہندوستانی فلمیں بہت ہی اہم حیثیت رکھتی ہیں، اور ان کا چرچا مسلسل ہوتا رہتا ہے، ان فلموں کے گانے بھی کافی مقبول ہیں_ بہت سے خلیجی ممالک میں عام طور پر ہندوستانی فلموں کی شوٹنگ كى جاتى ہے مثال کے طور پر ہندوستانی فلم ” Happy new year ” جس کی شوٹنگ دبئی میں ہوئى تھی۔
مصر میں ہندوستانی سنيما کا ذکر کئے بغیر ہم ہندوستان کو نہیں سمجھ سكتے اور اس کے بارے میں بات کرنا مکمل نہیں سمجھا جاتا، بچپن سے ہی میرے اندر ہندوستانی فلموں کو دیکھنے کی چاہت رہى  ہے، اُس وقت مصر میں یہ فلمیں صرف عید کے دنوں میں ٹی وی کے پردے پر دکھائی جاتی تھی، اور ہم سب ایک ساتھ انھیں دیکھا کرتے تھے، تاہم اب جب بھی مجھے ٹی وی دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو میں صرف یہ فلمیں دیکھتی ہوں، حالات حاضرہ اس قدر دردناک ہیں کہ میں اکثر ہندوستانی فلموں میں امید کی کرنیں دیکھتی ہوں، کبھی کبھار فلم کا پیغام بہت متاثر کن ہوتا ہے اور میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
آجكل مصر میں بہت سے لوگ خاص طور پر عورتوں کو یہ فلمیں اور سلسلہ وار ڈرامے دیکھنے کی عادت پڑ گئی ہے، نئی فلموں کا  انتظار کرتے ہیں اور بڑے شوق سے انہیں دیکھا جاتا ہے۔ فیس بُک پر کبھی کبھی نوجوانوں کے پوسٹ پر بھارتی فلمی ستاروں کی تصویروں کو دیکھتی ہوں، جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مصر ميں ہندوستانی فلمی اداکار کتنے مقبول ہیں۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ اکثر رومانٹک ہندوستانی فلموں کو دیکھ کر مصری  لڑکیوں کے دلوں کی دھڑکنے بڑھ جاتی ہیں، یہ بھی ایک  حقیقت ہے کہ ہندوستانی فلمیں ایک ملک کی نہیں بلکہ ایک تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے جس میں کوئی دو رائے نہیں ہے، اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس ملک کے کسی علاقے کے بسنے والے یا کسی بھی زبان کے بولنے والے کے خیالات و تصورات واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے، یہ فلمیں ہندوستانی سماج کی عکاسی ہوتی ہے، اگر آپ اس سے واقف نہ ہوں توان  فلموں کو دیکھنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے _ ان فلموں ميں جن پہاڑوں، ندیوں، مقامات اور کرداروں کو پیش کیا جاتا ہے، ان سب کا تعلق اسی سر زمین سے ہے، گنگا اور جمنا، کرشن اور لکشمی اور ہندوستانى تہذيب بھی ہمارے لئے مانوس بن گئے۔
سچ تو یہ ہے کہ مصر میں بیشتر لوگوں کے پاس اردو زبان کے بارے میں کوئی سابقہ پس منظر نہیں تھا، اس کے بر عکس ايك مثال ہندی زبان ہے، کیونکہ اردو زبان دوسری زبانوں کی طرح کسی خطے کی طرف منسوب نہیں ہے اس لئے بہت کم لوگ  اس کو جانتے ہیں _ لیکن آج مجھے لگتا ہے کہ ہمارے یہاں میڈیا کی وجہ سے اس کا وجود ہے اور بے شمار لوگوں کو اب پتہ چلا ہے کہ اردو اور ہندی ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں، ان دونوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، فرق صرف رسم الخط ہے ۔ اس لئے بیشتر ہندوستانی فلموں کے شیدائی ہى یونیورسٹیوں میں اردو ڈپارٹمنٹ میں زبان سيكھنے كے لئے داخلہ لیتے ہیں ۔
مصری لوگ ہندوستانى فلموں کے بہت شوقین ہیں، ہندوستانی فلمیں بالخصوص تاریخی فلمیں بامقصد ہوتی ہیں، دنیا بھر میں ان فلموں کے پیغام سے ناظرین بہت متاثر ہوتے ہیں اور موسیقی، لباس، ڈیزائن، رہن سہن اور اداکاروں کی کارکردگی وغیرہ میں دلچسپی لیتے ہیں_ مصری لوگوں کے پسند کے مطابق اور ان کی مقبولیت اور شہرت کی وجہ سے بھارت کے معروف فنکار امیتابھ بچن نے قاہرہ فلم فیسٹیول کی دعوت پر 1991ء میں مصر کا دورہ کیا تھا۔
مصر میں ہندوستانی فلموں كے نمائش کو دکھانے کے لئے بھارتی سفارت خانہ نے پروڈکشن کمپنیوں کے ساتھ تعاون کر کے کچھ ایسی ہندوستانی فلمیں بھی دکھايا ہے جن میں مشہور فنکار شامل ہوتے ہیں تاکہ مصری ناظرین یہ فلمیں سینما گھروں میں دیکھ سکیں۔ اور يہ بھى  قابلِ ذکر ہے کہ تمام فلموں كا عربی میں ترجمہ بھى ہوتا ہے۔ مشہور ہندوستانی فلمیں ” چینائی ایکسپریس “، ” کریش 2″  اور ” دھوم 3 ”   كافى مقبول ہوئى ہے- ان فلموں کی نمائش عوامی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور زیادہ مضبوط بناتی ہے۔ میں نے مصری سینيما گھر میں ” چینائی ایکسپریس ” کی فلمی نمائش دیکھی تھى، اس نمائش کے دوران ميں نے كافى تعداد ميں طالب علموں اور یونیورسٹی کے نوجوانوں کو دیکھا جو  بڑے شوق سے فلم كو دیکھ رہے تھے جس سے اس بات كا اندازه ہوتا ہے كہ  ہندوستانی فلميں مصرى نوجوانوں ميں كافى مقبول ہے ۔
ہميں پتہ ہے كہ مصر کے خوش گوار ماحول کے لحاظ سے ہندوستانى فلميں خاص اہمیت رکھتی ہيں اور اس میں آثار قدیمہ، سیر و تفریح اور تاریخی مقامات پائی جاتی ہیں، پہلی بار مصر میں 2014ء ایک ہندوستانی فلم کی بنائى گئى تھى  میں جس کا نام  ” love in Cairo ”  مصری وزارتِ سیاحت کے زیر اہتمام مصری سیاحتی مقامات اور قدرتی مناظر میں اس فلم کی شوٹنگ كى گئى تھى_ مصر كے معروف شہر قاہرہ، اسکندریہ، شمالی ساحل، غردقہ اور لکساور فلم كى شوٹنگ كے لئے كافى مقبول ہيں _میرے خیال میں ايسى باتيں مصر كى سیاحت کو فروغ دينے میں مدد کرتی ہے۔
بہت سے مصری لوگ گرمجوشی سے ہندوستانی فلموں كو دیکھا کرتے ہیں اور ہندوستانى فلموں كى مقبوليت مصر كے ديہى علاقوں ميں بھى پايا جاتا ہے اور جس سے اس بات كا پتہ چلتا ہے کہ مصری لوگ بھارت سے گہری محبت رکھتے ہیں۔
پرانی نسل كے لوگ آج بھی کلاسیکی ہندوستانی فلموں اور اداکاروں کو یاد کرتے ہيں جبکہ نوجوان نسل نئی فلميں ديكھنا پسند كرتى ہے اور يہ لوگ عام طور پر فلميں بڑے شوق سے دیکھتے ہيں۔
غرض عالمی مقبوليت کے لحاظ سے ہندوستانی فلمیں اپنی روایتی حدود سے تجاوز کر گئی ہیں، ہندوستانى فلميں بيشتر ممالک، تہذیب اور زبانوں میں بڑی مقبولیت حاصل كر رہى ہے، اور ان لوگوں کو عالم عرب میں اُردو پڑھنے کا شوق ہے اس لیے ان پر ہندوستانى ڈرامہ اور سنیما کا اثر ہوتا ہے ۔ مصر میں بھی ہندوستانی فلموں کا چرچہ وسیع پیمانے پر ہے اور يہ دن بدن کافی مقبول ہو رہا ہے۔ ان کی مقبولیت کی سب سے بڑی دلیل ان چینل کی دستيابى ہے۔ اگر یہ فلمیں قابل قبول نہ ہوتی تو اتنے چینل  کا پایا جانا بے معنی ہو جاتا۔  يہ سچ ہے کہ ہندوستانى فلمیں تقریباً دنیا کے مسائل سے منسلک ہوتی ہیں جو عام زندگى سے بھى قريب ہوتا ہے اس لئے ان کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جس كى وجہ سے اکثر لوگ ان کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کیونکہ یہ فلمیں ان کی قوت فہم کے بہت قریب ہیں ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں