مہاراشٹر ، ہریانہ انتخابی نتائج پر ۳۷۰ بے اثر

نہال صغیر
مہاراشٹر و ہریانہ انتخابی نتائج کے اکثر رجحان سامنے آ چکے ہیں ۔ گرچہ بی جے پی نے کانگریس سے زیادہ سیٹیں جیتی ہیں مگر وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ بغیر کسی دبائو کے آسانی سے حکومت بناسکے ۔ہریانہ میں اس کی حالت یہ ہے کہ کانگریس نے اسے سخت مقابلہ کے بعد تقریبا برابر پر سمیٹ دیا ہے اس کے اہم لیڈر الیکشن ہار گئے ہیں ۔ اسی طرح مہاراشٹر میں پارلیمانی ضمنی الیکشن میں این سی پی سے بی جے پی میں چھلانگ لگانے والے ادین راجے بھوسلے ہار گئے اور ریاستی اسمبلی میں پنکجا منڈے بھی ہار گئیں ۔ مودی اور امیت شاہ کا گھمنڈ پورے انتخابی دور میں چھایا رہا اور وہ عوامی مسائل کی جانب متوجہ بھی نہیں ہوئے ۔ انہوں نے شاید عوام کو اپنا بندھوا مزدور سمجھ لیا تھا ،اس لئے مہاراشٹر کے عوامی مسائل کی بجائے ۳۷۰ کی گردان کرتے رہے اور یہاں کے عوام خشک سالی اور کسانوں کی خود کشی سے پریشان رہے ۔ شرد پوار نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ دفعہ ۳۷۰ کی بجائے بی جے پی یہ بتائے کہ اس نے پانچ سال میں عوام کیلئے کیا کیا ہے۔ صرف فرنویس نے کہا کہ وہ ترقی کی بنیاد پر عوام سے مینڈیٹ مانگیں گے لیکن وہ ترقی کیا تھی اس کی تفصیل وہ پیش نہیں کرسکے۔ نتائج نے انہیں بتادیا ہوگا کہ عوام کو صرف جذباتی باتوں سے زیادہ دنوں تک بہلایا نہیں جاسکتا ۔موجودہ ہریانہ اور مہاراشٹر انتخابی نتائج نے یہ واضح کردیا ہے کہ بغیر توجہ دلائے اور حزب مخالف کے کمزور رویہ کے باوجود عوام نے بی جے پی کی جعل سازی اور حب الوطنی کے افیم سے مدہوش کردینے کی کوشش کو سمجھ لیا اور انہوںنے معمولی ہی سہی لیکن یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ الیکشن ہمارے مسائل کی بنیاد پر لڑو ،جذباتی اور فرضی مسائل سے ہمیں بہلانے کی کوشش مت کرو۔امید ہے کہ کالی اور سفید داڑھی کو عوام کے حقیقی مسائل کا ادراک ہوگیا ہوگا ۔
موجودہ الیکشن کے نتائج یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ اگر کانگریس سمیت دیگر حزب مخالف نے بی جے پی کے جذباتی اور فرضی مسائل کا پوسٹ مارٹم کیا ہوتا تو آج ریزلٹ اس سے بھی زیادہ مختلف ہوتے ۔ ہم نے دیکھا کہ کانگریس کی جانب سے مہاراشٹر میں انتخابی مہم میں مرکزی قیادت کی کوئی خاص شمولیت نہیں رہی ۔ الیکشن سے قبل ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حزب مخالف نے کالی اور سیاہ داڑھی کے سامنے ہتھیار ڈال دیا ہے ۔ اب انتخابی نتائج دیکھ کر کانگریس کے سچن ساونت کہتے ہیں کہ ہمیں اس سے حوصلہ ملا ہے ۔ یہ تو الیکشن کے حاصل شدہ نتائج کے پیچھے کارفرما عوامل کی بات تھی ۔ اب اس کے بعد کیا ہوگا اس پر ہماری رائے یہ ہے کہ چونکہ بی جے پی کا گھمنڈ ٹوٹ چکا ہے اور تنہا حکومت بنانے کی حالت میں نہیں ہے اور شیو سینا کی حیثیت ان معنوں میں اہم ہے کہ وہ اپنے دیرینہ مقصد ’شیو سینا کا وزیر اعلیٰ بنے ‘ پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے گی ۔ اس کیلئے ادھو ٹھاکرے نے بھی اپنے مطالبہ کو دہرایا ہے اور کہا کہ وزیر اعلیٰ اسی کا ہوگا ۔ اگربی جے پی نے شیو سینا کو گذشتہ اسمبلی کی طرح وزارت اعلیٰ کی کرسی سے دور رکھنے کی کوشش کی تو شیو سینا کیلئے مہاراشٹر کے منفرد شناخت رکھنے والے سیاست داں شرد پوار کی این سی پی حمایت کرسکتی ہے جس کے امکان قوی ہیں ۔اس طرح بی جے پی کو حکومت سے دور کیاجاسکتا ہے اور اندرونی طور پر سبھی سیکولر پارٹیاں شرد پوار کی سیاسی حکمت عملی کو درپردہ سپورٹ کرنے کو مجبور ہوں گی ۔ ان کے سامنے بی جے کی شاطرانہ چالوں کا اس سے بہتر متبادل نہیں ہوسکتا ۔
انتخابی نتائج ہمیں یہ بھی دکھاتے ہیں کہ اگر تمام سیکولر پارٹیاں یوں ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچتی تو شاید بی جے پی کی وہ حالت ہوتی کہ وہ مضبوط اپوزیشن کا کردار بھی ادا نہیں کرپاتی ۔ جیسے کئی سیٹوں پر مجلس اتحادالمسلمین نے کانگریس اور این سی پی کو ہرایا ہے اور وہاں سے بی جے پی یا شیو سینا فاتح ہوئی ہے ۔اسی طرح اگر ونچت بہوجن اگھاڑی اور مجلس کا انتخابی محاذ بن گیا ہوتا تو ان کو دو دو سیٹوں کی بجائے زیادہ اچھی پوزیشن میں ہوتے ۔ونچت و مجلس کا محاذ ہوتا اور اس محاذ کا کانگریس این سی پی کے ساتھ سمجھوتہ ہوگیا ہوتا تو جیسا کہ پہلے لکھا گیا کہ بی جے پی کو ڈھنگ سے اپوزیشن کی حیثیت بھی نہیں مل پاتی ۔مگرایسا محسوس ہوا کہ ونچت اور مجلس انتخابی سیاست کیلئے سنجیدہ نہیں ہیں ۔ مجلس کی کہانی اس کے عین الیکشن سے قبل کئے گئے بعض اقدام کے سبب بھی خراب ہوئی ہے ۔اس میں مقامی لیڈر شپ میں تبدیلی اور برسوں سے محنت کررہے مقامی قیادت کو نظر انداز کرنے اور ٹکٹ کیلئے پہلے سے وعدہ کئے گئے امیدواروں کے برعکس نئے پیراشوٹ امیدوار اتارنے کے سبب بھی اسے کئی سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔سب سے اہم دو چیزیں اس انتخابی نتائج میں سامنے آئی ہیں جس میں ایک شرد پوار کیخلاف ای ڈی کی کارروائی نے بی جے پی اور مودی سے عوام کو برگشتہ کیا اور آخر میں ان کا تیز بارش کے دوران انتخابی ریلی کو خطاب کرنا بھی عوام کو بھاگیا تو وہیں ۳۷۰ کا جادو عوام کے دلوں کو مسخر نہیں کرپایا۔