طلاق کے اسباب اور حل 

 رفیعہ نوشین، حیدرآباد دکن 

آج پورا ہندوستان بلا تفریق مذہب و ملت طلاق ثلاثہ کے درد سے کراہ رہا ہے، طلاق کا حاصل کرنا یعنی نکاح کے معاملے اور معاہدے کو ختم کرنا ہے۔ اس کے لئے اسلام نے ایک حکیمانہ قانون بنایا ہے اور قدم قدم پر قرآن و سنت نے اس کے لئے ہدایتیں دی ہیں تاکہ حتی الامکان یہ رشتہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا جائے – باوجود موافقت و مصالحت کے ساتھ رہنا اگر عذاب بن جائے، تو اس صورت میں شریعت اسلام نے مرد کو طلاق کی اجاذت دی ہے۔ اور عورت کو خلع لینے کا حق بھی فراہم کیا ہے، لیکن طلاق کے بھی اختیار کا استعمال اللہ کے نزدیک بہت ہی مبغوض و مکروہ ہے۔ اللہ تعالی نے اسے حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا ہے جس سے عرش اعظم تک ہل جاتا ہے۔ نکاح کے مقدس بندھن کے ساتھ میاں بیوی، کی بے شمار مصلحتیں اور فوائد منسلک ہیں چنانچہ اس ازدواجی زندگی کو طلاق سے بر خاست کرنا گویا تمام مصلحتوں و فوائد کو رائیگاں کرنا ہے۔ بہت سے لوگوں نے طلاق کو معمولی سمجھ لیا ہے – جس کی وجہ سے وہ خود تو اس سنگین امور میں مبتلا ہو رہے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس میں گھسیٹ رہے ہیں۔

طلاق ان بہت کم موضوعات میں سے ایک ہےجس کے بارے میں تمام ہی لوگوں کا اتفاق ہےکہ یہ ہرگز نہیں ہونی چاہئے، لیکن بد قسمتی سے ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں، جس طرح تالی کسی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی بالکل اسی طرح طلاق بھی کسی ایک کی غلطی سے نہیں ہوتی – اسکی معتدد وجوہات ہیں، جس کا جائزہ لینا اور ان عناصر کو روکنے کی کوشش کرنا ہی اس برائی کو روکنےکا واحد ذریعہ ہے۔ طلاق کے بہت سی وجوہات میں سے چند اہم وجوہات پر روشنی ڈالنا چاہوں گی! طلاق کی سب سے بڑی وجہ:

1) عدم برداشت اور تشدد : خاندان اور معاشرہ کی عمارت اخلاقیات ،برداشت، رواداری،اور محبت کےستونوں پرکھڑی ہوتی ہے۔ اور جب یہی خصوصیات سماج سے رخصت ہو جائیں تو سماج تیزی سے تباہی کی طرف گامزن ہوجاتا ہے – ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا رجحان اس سرعت سے فروغ پا رہا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں، اور اسی وجہ سے تشددپسند سرگرمیاں بھی وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر چھوٹی موٹی غطیاں جیسے سالن میں نمک کی زیادتی، روٹی کا گول نہ ہونا ، کپڑے پریس کئے ہوئے نہ ملنا وغیرہ وغیرہ پر شوہر بیوی کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے ظلم و تشدد کرتا ہے اور بعض اوقات یہی وجوہات طلاق کا بھی ذریعہ بن جاتی ہیں۔ مذکورہ واقعات ہمارے رویوں میں در آئی عدم برداشت اور تشدد کی روش کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں میں قوت برداشت کیوں ختم ہوتی جا رہی ہے ؟ کیونکہ اکثریت آج کل گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔ دن بدن مصائب بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ چاہے وہ ملازمت کے ہوں مہنگائی کے ہوں یا پھر صحت سے متعلق ہوں – ان پریشانیوں نے لوگوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں، جس کی وجہ سے تنک مزاجی ان کا خاصہ بن چکی ہے – عوام نفسیاتی عوارض سے دو چار ہو رہے ہیں. جس کی وجہ سے ان میں عدم برداشت کی روش انتہائی خطرناک انداز میں تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ اور عوام تشدد پر اتر رہے ہیں – یہ سنگین مسلہ ہے، لیکن بلا شبہ تمام مسائل کا حل ہوتا ہے، اس لحاظ سے عدم برداشت کے رجحان پر بھی قابو پانا ممکن ہے، لیکن اس کے لئے بیوی اور گھر کے دیگر افراد کی اجتماعی کوشش بہت ضروری ہے۔ ہر فرد اگر اپنے اندر برداشت کامادہ پیدا کرلے تو صورتحال خاصی بہتر ہوسکتی ہے، اور گھر کا امن و چین قائم رہ سکتا ہے۔ انسان ہو نے کے ناطے کسی پر بھی تشددکرنا کسی طور مناسب نہیں؛ یہ ہر لحاظ سے قابل مذمت امر ہے۔ اس سے جان چھڑانا اعلی اخلاقی اقدار کو فروغ دینا ایک دوسرے کا احترام کرنا اور انسانیت کی مثال قائم کرنا بے حد ضروری ہے۔

دوسری بڑی وجہ ہے! 

2) سوشل میڈیا: آج کل گھروں میں اور خاص طور پر شادی شدہ زندگیوں میں سب سے بڑی تباہی واٹس اپ اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا نے مچائی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے نہ صرف شہر بلکہ گاؤں اور سلم علاقوں میں رہنے والی لڑکیوں تک کےدل میں شاہ رخ خان اور سلمان خان جیسے آئیڈیل پیدا کر دیئے

ہیں اور لڑکیاں بغیر سوچے سمجھے لڑکوں کی محبت میں گرفتار ہو رہی ہیں، اور محبت کی شادیاں عام طور پر چند ” ڈیٹس ” اور تھوڑے بہت تحفے تحائف کا نتیجہ ہوتی ہیں، جس کی بنیاد پر لڑکے اور لڑکیاں سمجھتے ہیں کہ ان کی باقی زندگی بھی ویسے ہی گزرے گی جیسا فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ اکثر رومانٹک فلموں میں شادی کے بعد کہانی اس جملے کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے کہ 

And they live happily ever after.

لیکن شادی کے بعد کی کہانی

دکھائی ہی نہیں جاتی ہے، کیونکہ اس سے فلمیں فلاپ ہونے کا ڈر رہتا ہے۔ اکثر شادی کے بعد بیوی کو شکایت ہوتی ہے کہ شوہر اسے پوری توجہ نہیں دیتا، اس عدم توجہ کی سب سے بڑی وجہ بھی سوشل میڈیا ہے، جس کے عام ہونے کے بعد سے کئی لوگوں کی زندگی اس قدر مصروف ہو گئی ہے کہ وہ اپنی شریکِ حیات کی طرف توجہ دینا ہی ترک کر چکے ہیں، اکثر لوگ گھر میں رہ کر بھی ہر وقت فون یا ٹی وی سے چمٹے رہتے ہیں – اور انہیں یہ احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ کوئی ان کے قرب کا منتظر ہے۔

اور ان کی بے توجہی اسے ان سے دور کر سکتی ہے۔ خیر اس کے علاوہ بھی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان کسی نہ کسی بات کو لے کر چھوٹا موٹا لڑائی جھگڑا تو ہوتا رہتا ہے جس کے بغیر شادی شدہ زندگی کا تصور ہی نہیں کر سکتے – پہلے زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ کسی بات پر لڑکیوں کو غصہ آتا یا وہ اپنے شوہر سے ناراض ہوتیں تھیں تو ان کے پاس امی ابا یا مائکے کے دیگر افراد تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا – دن بھر شوہر سے روٹھی رہتیں شام کو شوہر نامدار جب گھر تشریف لاتے اور بیوی کا ہاتھ تھام کر محبت کے دوچار جملے کہتے یا پھر کبھی آئسکریم کھلانے باہر لے جاتے، یا پھر کسی پارک میں کچھ دیر ساتھ وقت گزارتے تو دن بھر کا غصہ، ناراضگی اور شکایتیں سب رفع دفع ہو جاتیں تھیں، لیکن آج کا ماحول یکسر بدل گیا ہے- آج ادھر میڈم کو غصہ آیا نہیں اور ادھر واٹس اپ پر سارے افراد خاندان تک پہنچا نہیں، یہاں میڈم کا موڈ آف ہوا اور ادھر فیس بک اسٹیٹس اپ لوڈ ہوگیا، اس کے بعد سوشل میڈیا کا جادو وہ گل کھلاتا ہے کہ پورے کا پورا خاندان تباہ و برباد ہوجاتا ہے، یا پھر نتیجہ طلاق یا خود کشی کی صورت میں نکلتا ہے، اس لئے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کارآمد چیزوں اور معلومات کے حصول کے لئے ہی مفید ثابت ہوتا ہے، بےکار کی خرافات سے زندگی کا کھلواڑ ہی ہو رہا ہے۔ تیسری اہم وجہ 

3) مقابلہ کرنا : مائیں اولاد کی تربیت کی درسگاہیں ہوتی ہیں۔ ایک بہت بڑی ذمہ داری ماْں کے کندھوں پر ہوتی ہے جو لڑکیوں کی کامیاب زندگی کی ضامن بھی ہوتی ہے- تمام ماؤں سے میری پر زور گزارش ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو سمجھائیں کہ خدارا اپنے شوہر کا مقابلہ اپنے والد سے ہرگز نہ کریں؛ ہو سکتا ہے آپ کا شوہر آپ کو وہ سب نہ دے سکے جو آپ کو آپ کے باپ کے گھر میں میسر تھا، لیکن یاد رکھیں! آپ کے والد کی زندگی کے پچاس ساٹھ سال اس دشت میں گزرے ہیں جب کہ آپ کے شوہر نے حال ہی میں اس دشت میں قدم رکھا ہے، آپ کو بھی سب کچھ ملے گا، اور ان شاء اللہ اپنی ماں سے زیادہ بہتر ملے گا۔ کم ملے تو صبر کریں، زیادہ ملے تو شکر کریں؛ کیونکہ اللہ تعالی صابرین و شاکرین کو بہت پسند فرماتا ہے۔ ہر حال میں اپنے شوہر کے بھی شکر گزار رہیں گے تو زندگی سکون اور اطمنان سے گزرے گی۔

4) تعریف اور درگزر : شوہروں اور بیویوں کو اس ہنر سے اچھی طرح واقفیت ہونا چاہئے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ ایک دوسرے کو کیسے درگزر کریں اور کس طرح تعریف کریں ؟ یہ ہنر تلخیوں کو کم کرکے زندگی کو خوشگوار بنانے میں مؤثر رول ادا کر سکتا ہے، خدا کے لئے باہر والوں ،رشتہ داروں سے زیادہ اپنے شوہر کے لئے تیار ہونے اور سجنے سنورنے کی عادت ڈالیں۔ ہم خواتین کی ایک کمزوری یہ ہوتی ہے کہ ہم ساری دنیا کو دکھانے کے لئے تو خوب میک اپ کرکے تیار ہوتے ہیں لیکن شوہر کے لئے ” سر جھاڑ منہ پہاڑ ” ایسا نہ کریں، خدا سے محبت کے اظہار کے لئے پانچ دفعہ توجہ درکار ہے، ہم تو پھر انسان ہیں؛ جتنی دفعہ ممکن ہو محبت کا اظہار کریں، یاد رکھیں! قیامت کے دن میزان میں پہلی چیز جو تولی جائے گی وہ شوہر سے بیوی کا اور بیوی سے شوہر کا سلوک ہوگا۔

یاد رکھیں! ایک مرد کی گھر میں وہی حیثیت ہوتی ہے جو سربراہ حکومت کی ریاست میں ہوتی ہے؛ اگر آپ ریاست کی بہتری کے بجائے ہر وقت سربراہ سے بغاوت پر آمادہ رہیں گے تو ریاست کا قائم رہنا مشکل ہو جائے گا۔

جس کو اللہ نے جو عزت اور مقام دیا ہے اس کو وہی عزت اور مقام دینا سیکھیں؛ چاہے آپ مرد ہوں یا عورت ؛ ایک مثالی خاندان سے ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اور یہی اسلام کا منشاء ہے۔!!! 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں