ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
2001 کے اواخر میں ، جب امریکہ نے افغانستان پر بم باری کرکے طالبان کو حکم رانی سے بے دخل کردیا تھا اور وہ آبادی کو چھوڑ کر پہاڑوں میں روپوش ہوگئے تھے ، ہر شخص کی زبان پر طالبان کی شکست کا چرچا تھا۔ انہی دنوں شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں ایک سمینار تھا، اس سمینار میں یونی ورسٹی کے شعبۂ قانون کے استاذ ڈاکٹر شکیل احمد صمدانی نے ‘طالبان کی فتح’ کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا، ان دنوں ، جب ہر شخص اپنی آنکھوں سے طالبان کی شکست دیکھ رہا تھا اور یہ ایسی بات تھی جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی، طالبان کو فاتح قرار دینا عجیب تھا، میرے ذہن کے پردے پر وہ منظر اب تک گردش کررہا ہے، جب فاضل خطیب نے پُرجوش لیکن مدلّل انداز میں طالبان کو فاتح قرار دیا اور ان کی فتح کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی، انھوں نے بتایا کہ جب امریکہ نے نیویارک کے جڑواں ٹاور پر حملے کو القاعدہ کی کارروائی قرار دے کر طالبان سے مطالبہ کیا کہ اس کے سربراہ کو ہمارے حوالے کردو تو طالبان نے کہا تھا کہ وہ ہمارے مہمان ہیں اور ہم اپنے مہمان کو یوں رسوا نہیں کرتے کہ بلاثبوت کسی کے حوالے کردیں ، چنانچہ انھوں نے اپنی حکومت گنوادی ، لیکن آدابِ ضیافت کی رسوائی گوارا نہ کی۔ انھوں نے کہا کہ اس حملے کے ثبوت دیئے جائیں اور ثابت کیا جائے کہ اس مجرمانہ عمل کی منصوبہ بندی افغانستان کی سرزمین سے ہوئی ہے تو ہم مجرموں کے خلاف کارروائی کریں گے، لیکن ان کے سامنے ثبوت نہیں پیش کیے گئے اور تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ، داداگیری کے ساتھ ، افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ فاضل خطیب نے اور بھی دلائل دے کر ثابت کیا تھا کہ اگرچہ طالبان حکومت سے بے دخل کردیے گئے ہیں ، لیکن انہیں اخلاقی فتح حاصل ہوئی ہے۔
بابری مسجد قضیہ پر ہندوستانی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر بے شمار تبصرے سامنے آرہے ہیں۔ ان میں سے ایک تبصرہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہی کے ایک اولڈ بوائے اور وہاں کے شعبۂ قانون کے سابق استاد ڈاکٹر فیضان مصطفیٰ کا ہے ، جو ان دنوں نلسار یونی ورسٹی آف لا حیدرآباد کے وائس چانسلر ہیں۔ انھوں نے بتایا ہے کہ اگرچہ عدلیہ نے اپنے فیصلے میں متنازع زمین ہندوؤں کے حوالے کردی ہے اور اس پر مندر بنانے کی اجازت دے دی ہے ، لیکن فیصلے کے متعدد نکات مسلمانوں کے حق میں جاتے ہیں ، جس سے ان کی اخلاقی فتح عیاں ہوتی ہے مثلاً :
ہندو فریق کا دعویٰ تھا کہ بابری مسجد توڑ کر بنائی گئی ہے ۔ عدالت نے اس دعویٰ کو خارج کردیا ۔
عدالت نے یہ بات مان لی کہ 1949 میں مسجد میں مورتیاں رکھنا غیر قانونی تھا ۔
عدالت نے یہ بات بھی کہی کہ 6 دسمبر 1992 کو مسجد گرانا خلافِ قانون تھا ۔ یہ قانون کی حکم رانی پر حملہ تھا ۔
عدالت نے جب مسجد کا وجود تسلیم کیا تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں نماز ہوتی تھی _ نماز ہونے کا ثبوت مسلم فریق سے مانگنا درست نہیں _ نماز نہیں ہوتی تھی ، اس کا ثبوت فراہم کرنا دوسرے فریق کی ذمے داری تھی ۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی تھی ، لیکن مسجد توڑ کر اب وہاں مندر بنایا جائے گا ، اسے دنیا جانتی ہے ، تاریخ میں یہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا ہے ۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعے اگرچہ زمین کا ایک ٹکڑا ہندوؤں کے حوالے کردیا ہے ، لیکن اس فیصلے کے متعدد نکات صراحت سے مسلمانوں کے موقف کو درست قرار دیتے اور ان کی فتح پر دلالت کرتے ہیں۔






