سزاکے نفاذ کے بغیر جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں

تحریر : ڈاکٹر حلیمہ سعدیہ
حیدرآبادمیں 26سالہ وٹرنری ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت دری،قتل اور لاش کو جلادینے کے درناک اور وحشتناک واردات نے ایک بار پھر 16 دسمبر2012 میں ہوئے نربھیا سانحہ کی یاد کو تازہ کردیا ہے۔ اس بربریت کے خلاف لوگ ایک بار پھر حیدرآباد سے لے کر دہلی کی سڑکوں تک اپنے غم و غصہ کا اظہارکرتے ہوئے احتجاج اور مظاہرے کررہے ہیں تو اراکین پارلیمان قوانین سخت سے سخت بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔انصاف کب ملے گا،اس کی تاریخ ظاہرہے کہ عدالت کو ہی طے کرنی ہے،لیکن عدالت کو اب مجرموں نے اپنا محفوظ گاہ سمجھ بنالیاہے۔کسی بھی معاملہ میں جب وہ پھنستاہوا نظرآتاہے تو وہ عدالت کا راستہ اپناتاہے ،تاکہ وہ تاریخ پہ تاریخ لیتارہے اوراس درمیان وہ اپنا کام انجام تک پہنچادے۔اس بات سے سب واقف ہے کہ عدالتی فیصلہ میں جتنی تاخیر ہوتی ہے ،متاثرین کی اتنی ہی موت ہوتی ہے۔ 2012میں جب ملک اس معاملے میں ابل رہا تھا ، اس وقت حکومت اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے سمیت سیاسی جماعتوں نے عہدکیا تھا کہ اس کے بعد ، نربھیا جیسا سانحہ برداشت نہیں کیاجائے گا۔ حکومت کے رخ سے اس وقت ایسا لگا جیسے اس طرح کے ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔لیکن دن ،مہینے اور سالہاسال گزرتے گئے۔نربھیا کا اتنا واضح معاملہ اور اسے عدالتوں میں فٹ بال کی طرح کھیلتے کھیلتے 7 برس لگ گئے ،پھر فیصلہ آیا،مجرموں کو پھانسی کی سزا دی گئی ؟لیکن ابھی تک پھانسی نہیں دی گئی ہے۔اس میں حکومت کی مصلحت اور حکمت کیا ہے؟اسے جاننے کی سخت ضرورت ہے۔کیوں کہ ہندوستان کی سیاست جس ڈگر پر چل پڑی ہے ،اس کا انسانیت سے دور کا رشتہ بھی نہیں ہے۔2012کے اندوہناک واقعہ کے حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ سخت سے سخت قانون بنایاجائے گا اور جلد فیصلہ ہوگا۔ قانون تو بن گیا لیکن فیصلہ اسی رفتار سے ہوا جیسی ہماری عدالتوں کی روایتیں رہی ہیں۔ نربھیا کی عدالتی کارروائی پر غور نے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان سمیت پوری دنیا کو لرزادینے والے نربھیا سانحہ پرفاسٹ ٹریک عدالت نے 10 ستمبر 2013 کو چاروں بالغ ملزمین کو قصوروار قرار دیا اور 13 ستمبر 2013 کو انھیں موت کی سزا سنائی۔ ملزمین نے فاسٹ ٹریک عدالت کے فیصلے کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے 3 جنوری 2014 کو فیصلہ محفوظ رکھا اور 13 مارچ 2014 کو ذیلی عدالت کے ذریعہ چاروں بالغ ملزمین کو سنائی گئی موت کی سزا پر مہر لگا دی۔ بعد ازاں ملزمین نے سپریم کورٹ میں موت کی سزا کو چیلنج پیش کیا۔ سپریم کورٹ نے 27 مارچ 2017 کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔ سپریم کورٹ نے 5 مئی کو وہ تاریخی فیصلہ دیا جس کا پورے ملک کو انتظار تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی چاروں بالغ ملزمین کی موت کی سزا کو قائم رکھا۔اب تک ان مجرموں کو پھانسی نہیں دی گئی ہے۔7سال کے طویل عرصہ میں اگر کسی ملک میں مجرم کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایاجاتاہے تویہ جان لینا چاہئے کہ جرائم کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔ معاشرہ کی تطہیر کیلئے ضروری ہے کہ خطرناک جرائم کی سزا وحشتناک اور دہشتناک ہونی چاہئے۔ہندوستان جیسے ملک میں گندی سیاست کی وجہ سے مجرموں کو حوصلے بلند ہورہے ہیں۔ عورتوں کی سلامتی اوران کے احترام کے معاملہ میںہمارے ملک میں اتنے زیادہ شور کے باوجود زمینی سطح پر اگر کوئی بہتری نہیں دکھائی دے رہی تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ سماج کے نظریہ میں عورتوںکے ساتھ مساوات اوران کے احترام میں بہت بڑا فرق ہے۔ اسلام نے عورتوں کو سب سے قیمتی نگینہ قرار دے کر گھر کی روانی قراردیاتھا،آج عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دلانے کا دعویٰ کرنے والوں نے عورتوں کو نیم برہنہ کرکے عوام کے سامنے پیش کیاہے۔سڑک سے لے کر بازار تک،دکان سے لے کر شوروم تک ،ہرجگہ خواتین کو نمائش کے طور پر پیش کیاگیاہے۔یہ مساوات نہیں بلکہ عورتوں کی توہین ہے۔جس کانتیجہ ہے کہ آج معاشرتی برائیاں عام ہوگئی ہیں جس کے انسداد کیلئے تمام لوگوں کو آگے آناہوگا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جب آبروریزی کا کوئی واقعہ تذکرہ بحث بن جاتا ہے تو سرکاریں تمام
طرح کی وعدے کرتی ہیں۔ سماج میں ہلچل پیدا ہوتی ہے لیکن کچھ دنوں کے بعد سب کچھ پہلے جیسا ہونے لگتا ہے۔ مجرم عناصر بے خوف رہتے ہیں اور جرائم کے وقت آس پاس موجود لوگ بھی خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ پولیس انتظامیہ کے رویہ میں کوئی خاص فرق نہیں آتا۔ہندوستان میں پھانسی دی جاتی ہے تو وہ صبح اندھیرے میں ایک ایسی جگہ جہاں کوئی نہ دیکھے۔ جبکہ ضرورت اس کی ہے کہ ایسی جگہ دی جائے جہاں ہر چاہنے والا دیکھے اور یہ دیکھے کہ کیسے تڑپ تڑپ کر جان نکل رہی ہے۔ اس دنیا کے بنانے والے نے جو سزا کا قانون بنایا ہے وہ یہ ہے کہ جان کے بدلے جان آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک ،کان کے بدلے کان۔ مقصد یہ ہے کہ جیسے اس نے مارا ہے اسے بھی ویسے ہی مارا جائے۔حکومت کے اس ڈھیلے قانون اور ریشمی سزا کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ورے ملک میں اب تک سیکڑوں دہشتناک واقعات ہوچکے ہیں اور ہر دن ہورہے ہیں۔کیوں کہ نربھیا معاملہ میں ایک نے اپنے کو نابالغ ثابت کردیا،سوال یہ ہے کہ اگر وہ نابالغ تھا تو ایسی حرکت میں شریک کیسے تھا؟ہندوستان میں جب تک جیسا کرو ویسا بھرو کا طریقہ نہیں اپنایا جائے گا اس وقت تک اس طرح کی وارداتیں کم نہیں ہوسکتیں۔

SHARE