مودی حکومت کے شہری ترمیمی بل کا مقصد’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ‘ ہے

مولانا محمد برہان الدین قاسمی

انگریزی سے اردو ترجمہ محمد راشد قاسمی

شہری ترمیمی بل (کیب) 2019 ، بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کا ایک ایسا تیار کردہ پھندا ہے جو”پھٹ دالو اور حکومت کرو” کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے لایا گیا ہے۔ یہ بل نہ صرف ہندوستان کی سالمیت اور مفاد کے خلاف ہےبلکہ یہ سراسر فرقہ وارانہ عصبیت پر مبنی اورہندوستانی سیکولر جمہوری دستورکی روح کے مخالف بھی ہے ۔

دستور ہندکے مقدمہ سے ہی یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان کی بنیاد اس بات پر ہے کہ تما م اہل وطن کو مذہب سے قطع نظر مساوی حقوق حاصل ہیں۔ جیساکہ ملاحظہ فرمائیں:

“ہم بھارت کی عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ ہم بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی سیکولر عوامی جمہوریہ بنائیں گے اور اس کے تمام شہریوں کے لئے سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف؛ اظہارِ خیال، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی ؛ باعتبارِ حیثیت اور مواقع مساوات حاصل کریں گے۔اور اُن سب میں اُخوت کو ترقی دیں گے جس سے فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد و سالمیت کا تیقن ہو۔”

واضح رہے کہ حالیہ شہریت ترمیمی بل آئین ہند کی دفعہ 14 اور 15 سے کھلم کھلا متصادم ہے: 

دفعہ نمبر 14۔ قانون کی نظر میں مساوات:

  “مملکت کسی شخص کو بھارت کے علاقہ میں قانونی مساوات اور تحفظ سے محروم نہیں کر ے گی۔”

دفعہ نمبر 15 – مذہب ، نسل ،ذات ، جنس اور جائے پیدائش کی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت:

1- “مملکت محض مذہب ، نسل ،ذات ، جنس اور جائے پیدائش یا ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر کسی شہری کے خلاف امتیاز نہیں برتے گی۔

2-“کوئی شہری مذہب ،نسل، ذات،جنس یا جائے پیدائش یا ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی نا اہلیت مواخذہ، یا پابندی کا نشانہ نہیں بنے گا۔۔۔”

کیب کیا ہے؟

کیب یا شہری ترمیمی بل ایک نیا قانون ہے جس کو بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے شہریت ایکٹ 1955 میں ترمیم کرتے ہوئے 19 جولائی 2016 کولوک سبھا میں پیش کیا تھا۔ سابق وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کے ذریعہ اس بل کو متعارف کرانے کے بعد 8 جنوری 2019 کو یہ بل لوک سبھا میں پاس ہوگیاتھا ۔ لیکن قانون میں شامل ہونے کے لیے اس بل کو راجیہ سبھا سےبھی پاس ہونا تھاجو اس وقت نہیں ہو سکا۔ بعد میں3 جون 2019 کو سولہویں لوک سبھا کے اختتام پر یہ بل ناکام ہوگیا تھا کیونکہ بی جے پی حکومت کے پاس اس وقت پارلیمینٹ کے ایوان بالا میں اس کو پیش کرنے کے لئے ممبران کی مطلوبہ تعدادنہیں تھی ۔ بہر حال 23 مئی 2019 کو جنرل الیکشن کے نتیجہ کےبعد 17 ویں لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی ایک بار پھر اقتدار میں آگئی ۔

 اب جبکہ راج ناتھ سنگھ کی جگہ امت شاہ وزیر داخلہ کے عہدہ پر فائز ہیں، بی جے پی کابینہ نے ایک بار پھر 4 دسمبر 2019 کو شہریت ترمیمی بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری دے دی اور9 دسمبر 2019 کو اس بل پر لوک سبھا میں دوسری بار بحث کی گئی اور بالآخر لوک سبھاسے باآسانی منظوری مل گئی کیونکہ زیر اقتدار پارٹی کے ممبران کی تعداد اس بل کو پاس کرانے کے لئے کافی تھی۔ اس بل کو پہلی بار راجیہ سبھا میں 11 دسمبر 2019 کو پیش کیا گیا اور ہندوستان بھر میں ہزاروں مخالفت بالخصوص پورے شمال مشرقی میں پر تشدد احتجاج کے باوجود ابالآخرہنگامہ آرائی کے درمیان یہ بل ہندوستانی پارلیمینٹ کے ایوان بالا سے بھی پاس کرانے میں موجودہ حکومت کامیاب ہو گئی۔

واضح رہے کہ اس غیر قانونی اور متعصبانہ بل کو پاس کرانے میں نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹیڈ اور مرحومہ جئے للیتا کی اے ائی اے ڈی ایم کے جیسی نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ 

کیب کی رو سےپاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مسلمانوں کے علاوہ ہندو، جین، بدھ، سکھ ، پارسی اور عیسائی جیسے نام نہاد پناہ گزیں کو شہریت ملے گی۔ نیزاس بل میں ہندوستان میں ان پناہ گزیں کے لئے سکونت کی شرائط 11 سال سے گھٹاکر 5 سال کردی گئی ہے۔ لیکن یہ بل6 شیڈول میں آنے والے علاقہ اور ملک کی اندرسرحدی لائن رکھنے والے صوبوں پر نافذ نہیں ہو گا۔

بی جے پی حکومت کی طرف سے اِس اقدام کو مبنی بر انصاف قرار دینے کے لئے یہ بات کہی گئی ہےکہ اس بل کے ذریعے صرف پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے اقلیتی پناہ گزین کو حفاظت حاصل ہوگی جہاں اُن پر طلم ہورہا ہے اور تعجب اس بات پر ہے کہ میانمار جیسے اکثریتی بدھسٹ ملک کےپناہ گزین جن میں سے اکثر مسلمان ہیں جنہیں اقوام متحدہ کی طرف سے بھی پناہ گزیں قرار دیا گیا ہے ؛اس بل میں ان کے تحفظ کی کوئی بات مذکورنہیں ہیں اگرچہ ملک میانمار سے آنے والےمہاجرین میں ہندو مذہب کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیں۔ سری نکا اور چین بھی ہندوستان کے پڑوسی ممالک ہیں ؛ لیکن یہ بل سری لنکا سے آنے والے تمل ہندو پناہ گزین یا کمیونسٹ چین کے کسی بھی مذہب کے مظلوم پناہ گزین کے بارے میں خاموش ہے۔اسی طرح اس بل میں ہمارے کسی بھی پڑوسی ملک سے آنے والے لامذہب لوگوں کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے؛ جبکہ یہ لوگ بھی مظلوم انسان ہو سکتے ہیں۔ 

بی جے پی کی ” پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ” سیاست 

منفی تنقید سے بچنے اور مغربی دنیا میں ا پنے فرقہ وارانہ اور متعصبانہ نظریہ کو چھپانے کے لیے موجودہ ہندوستانی حکومت نے شہری ترمیمی بل میں بدھ اور عیسائیوں کو بل میں شامل کرکے شعبدہ بازی سے کام لیا ہے۔ جبکہ پارٹی کا موقف عیسائیت اور بدھ مذہب کے تئیں ایام گذشتہ کے کارکردگی سےپوری دنیا کے سامنے عیاں ہے۔اور یہ بالکل عام فہم بات ہے کہ “مذہبی تشدد” جو “کیب” میں لفظاً مذکور نہیں ہے لیکن سیاق و سباق سے ظاہر ہے،کی بنیاد پر افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے کوئی عیسائی یا بدھ مت رکھنے والا ہندوستان میں شہریت کے مطالبے کے لیے نہیں آئے گا کیوں کہ مسلمانوں کی طرح عیسائی اور بدھ بھی یہاں پریشان ہیں ۔

کسی بھی مذہب کےپیروکاروں کے لئےان تینوں ملکوں میں “مذہبی تشدد” کو ملکی پالیسی کے طور پر پیش کرنا صرف ایک شعبدہ بازی ہےجس کو بی جے پی حکومت نے ہندوستان میں سیاسی مفاد کے حصول لئے گھڑ رکھا ہے۔ جہاں تک فرقہ وارانہ نفرت، تشدد،حتی کہ اکثریتی فرقوں کی طرف سے اقلیت کو گاہ بگاہ ہراساں کرنے کے واقعات کا تعلق ہے تو وہ صرف بنگلہ دیش پاکستان اور افغانستان کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ پوری دنیا میں رونما ہوتے ہیں۔ہندوستان تواس حوالے سے انتہائی بد ترین مقام پر کھڑا ہے کیونکہ یہاں اقلیتی فرقے کے افراد اور دلت کے ساتھ ہجومی تشدد، گئو رکشا کا نا م پر تشدد، جبرا ً جےشری رام کا نعرہ لگوانااور مخصوص اقلیتی فرقہ کے لوگوں کو سر عام رسوا کرناوغیرہ عام بات ہے جو پڑوسی ممالک میں خال خال نظر آتے ہیں ۔

شہری ترمیمی بل میں مسلمان کے علاوہ تمام کمیونیٹی کے لوگوں کوشامل کیا گیا ہے جبکہ صرف مسلمانوں کواس بل سے الگ رکھا گیا ہے ۔ اس بل میں عیسائی ، بدھسٹ، سکھ اور اس جیسی دیگر اقلیتی گروہوں کو لولی پاپ تھمادیا گیا ہےتاکہ یہ لوگ اس کے خلاف اپنی آواز بلند نہ کریں؛اگرچہ یہ ہندوستانی دستور کی روح، جمہوریت اور سیکولرزم کے بالکل مخالف ہے ۔ہوسکتا ہے کہ اگلی بار کسی دوسری کمیونٹی کو کسی بل سے خارج کر دیا جائے اور مسلمانوں کو دیگر گروپوں کے ساتھ الفاظاً ہی سہی لولی پاپ تھمادیا جائیگا تاکہ وہ اس وقت خاموش رہیں۔ علیحدہ کرو اور آسانی سے شکار کرو ہر ” پھوٹ ڈالو پالیسی” کا مرکزی نقطہ ہے۔ بی جے پی واضح طور پر یکے بعد دیگرے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو پالیسی پر ملک میں اپنی مہارت کا مظاہرہ پیش کر رہی ہے۔

 کیب درحقیقت وہ سیاسی جال ہے، جس کا ایک اہم مقصد بنگال میں آنے والے اسمبلی الیکشن میں کامیابی کو اپنی جھولی میں ڈالنا بھی ہے۔آسام میں حالیہ این آرسی کا عمل بی جے پی حکومت کے لئے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔اس کی وجہ سے پارٹی کے ذریعے اپنایا جانے والا”فرقہ وارانہ حربہ” مستقبل کی سیاست کے لئے ختم ہو گئےاور یہ عمل پارٹی کے مفادات کے لئے اس وجہ سے بھی بری طرح نقصان دہ ثابت ہواہے کہ آسام میں این آرسی کی وجہ سے زیادہ متاثر بنگالی ہندو مہاجرین ہوئے ہیں،جنکو بی جے پی وؤٹ بنک کے طور پر استعمال کرتی آئی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگالی مسلمان جنہیں سب سے زیادہ این آرسی کے ذریعے نشانہ پر لانا تھا ؛ وہ بڑے پیمانے پر اس کا شکار ہو نے سے فی الحال بچ گئے۔

بی جے پی اس بل کے ذریعہ آسام، تریپوہ اور اور مغربی بنگال کےبنگالی ہندوؤں کو خوش کر کےتمام شمال مشرقی ریاستوں میں اپنے لئے ایک لمبے عرصے تک وؤٹ بنک محفوظ کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ بی جے پی بنگلہ دیش سے آنے والےقانونی اورغیرقانونی تمام بنگالی ہندوؤں کو مہاجرین کے نام پرہندوستانی شہریت کا تحفہ دے کرملک کے اس حصے میں اپنی تعداد کو یکجا کرنے میں بھی کوشاں ہے۔دیگر دو ممالک یا دیگر مذاہب کے لوگوں کے ناموں کے بل میں شمولیت محض نظروں کو دھوکہ دینے اور بِل کو خوشنما بنانے کے لئے ہے تاکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی مسلمانوں کے خلاف ووٹ کو اکٹھا کیا جاسکے۔

یہاں بی جے پی نےاپنی پوزیشن کا اندازہ لگا کر جان بوجھ کر خطرہ مول لیا ہے کیونکہ وہ اس بات سے واقف ہے کہ جہاں ایک طرف آئندہ الیکشن میں کیب کی وجہ سے اسے آسام میں شکست سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے؛وہیں دوسری طرف اس کا خیال ہے کہ وہ آسام میں آسامیوں اوربنگالیوں کے درمیان زبانی منافرت پیدا کر کے مغربی بنگال جیسے بڑے اور مضبوط صوبہ کو فتح کر سکتی ہیں ۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ آسامی نسل بنگالی نسل کے مقابلے میں ہندوستان اور عالمی سطح پر کافی کمزور ہیں اس وجہ سے بی جے پی کے لئے 2021 میں بنگال میں ہونے والے اسمبلی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنےاور بنگالیوں کو اچک لینے کی یہ شاطرانہ چال ہے۔ 

کیب سےآسامیوں کا بڑا خسارہ 

بی جے پی نے شمال مشرق کے کچھ صوبوں اور کچھ قبائلی علاقوں کو اس شہری ترمیمی بل سے خارج کر کے وہاں کے لوگوں کو کامیابی کے ساتھ تقسیم کر دیا ہے۔ آسام ، تریپورہ اور میگھالیہ کے وہ قبائلی علاقےجو 6 شیڈول میں آنے والے علاقے ہیں اور ملک کے اندرسرحدی لائن رکھنے والے صوبے جیسے میزورم اور ارونا چل پردیش وغیرہ اِس بل کے حالیہ مسودے میں مکمل طریقے سے خارج کر دیئےگئے ہیں۔ظاہر ہے کہ اس بنیاد پر ان کے پاس پریشان ہونے یا بل کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لئے کوئی سبب نہیں ہے کہ وہ اُس طرح احتجاج کریں جیسا کہ انہوں نے جنوری سے پہلے کیا تھا۔آسام کے خودمختار ضلعے جیسےباڈو لینڈ اور دماہسا و غیرہ بھی اس سے خارج کردیئے گئے ہیں۔ نتیجتاًآسام کے اندر بل کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی پُر تشدد آواز کو حکومت نے چالاکی سے پہلے ہی دبا دیا ہے۔

راجیہ سبھا میں بھی اس بل کے پاس ہوجا نے کی وجہ سے سب سے بڑے خسارے میں شمال مشرق کے اندر آسام کے اصل باشندے ہونگے۔انہیں حا لیہ سخت آزمائشوں ، ناقابل بیان تکلیفوں اور بے شمار قربانیوں کے بعد ہونے والی این آر سی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا مزید برآں وہ ہمیشہ کے لئے آسام تحریک اورآسام معاہدہ 1985کے فوائد سے محروم ہوجائیں گے۔ آبادی و سماجی لحاظ سے بھی کیب کا سب سے بڑا اثرصوبہ آسام پر پڑے گا،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہزاروں بنگلہ دیشی بنگالی ہندو پناہ گزیں کے آسام میں داخلے کے بعد آسامی زبان کی فوقیت کو سخت چلینج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس بل کے خلاف صوبہ آسام میں بڑے احتجاجات ہورہے ہیں لیکن وہ سب کے سب غیر متحدہ پلیٹ فارم سے ہو رہے ہیں اسی وجہ سے میرے خیال میں بل پراس کا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آل آسام اسٹوڈنٹس یونین(آسو) آسام میں ایک مضبوط طاقت ہےلیکن اب اکیلے یہ صرف زبان کی بنیاد پر اس بل کے خلاف نہیں لڑ سکتی ہے ۔ آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے سابق لیڈر ان آج بی جے پی کے بڑے لیڈر بنکرآسام میں حکومت کر رہے ہیں۔ حالات 1985 کے بنسبت بالکل بدل گئے ہیں یہ ایک حقیقت ہے آسو لیڈرشپ کو یہ بات سمجھنے اوراس پرتوجہ دینےکی ضرورت ہے۔

  آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ( اے آئی یو ڈی ایف) آج آسام میں تیسری سب سے بڑی سیاسی طاقت ہےاور یہی صرف ایک سیاسی جماعت ہے جو آسام اسمبلی اور دہلی پارلیمنٹ میں دستوری بنیاد پر بل کی مخالفت کر رہی ہے۔ بہر حال اس پارٹی ( اے آئی یو ڈی ایف) کا تنہا پنجہ آزمائی کرنا بھی بے سود ہے ؛ بلکہ کسی مسلم قیادت والی سیاسی پارٹی کی طرف سے بل کی سخت مخالفت بی جے پی کو اپنے ووٹ بینک کو محفوظ کرنے اور مزید بڑھانے کے لیے راستہ ہموار کرنے میں اور زیادہ مواقع فراہم کرے گی۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر اے آئی یو ڈی ایف کے لیڈرشپ کو بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔اگریہ دونو(آسو اور اے آئی یو ڈی ایف) اور دیگر تمام چھوٹی چھوٹی جماعتیں متحد ہو جائیں تو یہ بل کی مخالفت میں شمال مشرق میں ایک بڑا محاذ قائم کر سکتے ہیں اور آسام کو بی جے پی کی منفی سیاست سے بچا سکتے ہیں۔ 

ہندوستان پرکیب کا ممکنہ اثر 

ہندوستان کے میٹرو سیٹی ممبئی، دہلی اور بنگلورو غیرہ بالخصوص کلکتہ پر کیب کا بڑا اثر پڑے گا کیونکہ پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے مہاجرین اس سے فائدہ اٹھا کر شہریت اختیار کریں گے۔ نیزیہ بل ہندوستان کی سیکورٹی کے لئے بھی ایک بڑے خطرہ کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ دشمن ممالک سے جاسوس پناہ گزینوں کے بھیس میں یہاں شہریت حاصل کرکے ملک کے اہم عہدوں پر فائز بھی ہو سکتے ہیں۔

ایک ایسا ملک جہاں 1.37 بلین باشندے ہوں،جہاں جی ڈی پی کی شرح پڑوسی غریب ملک بنگلہ دیش سے بھی نیچے سطح پر پہونچ گئی ہو،جہاں لاکھوں لوگ نوکریوں اور رزق کی تلاش میں در در کی ٹھوکرے کھارہے ہوں، وہاں صرف فرقہ بندی کی بنیاد پر دوسرے ممالک کے شہریوں کو شہریت کی دعوت دی جارہی ہے۔ یہ وہ احمقانہ اقدام ہے جس کو ایک سادہ لوح انسان بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے۔

تعجب کی بات ہے کہ آخر بی جے پی کے علاوہ این ڈی اے میں شامل دیگر پارٹیوں نے اس بل کی مخالفت کیوں نہیں کی جو ہندوستان کی سا لمیت اور اس کے جمہوری اور دستوری اقدار کے سراسر خلاف ہے۔

 قابل غور بات یہ کہ اِس بل کی وجہ سے زمینی سطح پر ہندوستانی مسلمانوں کوفی الحال بہت زیادہ نقصان پہونچنے والا نہیں ہے البتہ کچھ بنگالی مسلمان جو حالیہ آسام این آرسی سے خارج کر دئے گئے ہیں انہیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بہرحال اس بل کا پاس ہونا 200 ملین وطن سے محبت کر نے والےہندوستانی مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ،کھلم کھلا نا زیبا سلوک اوربہت تکلیف دہ ہے؛ بلکہ یہ ان کےاس وقار اور سالمیت پر حملہ ہے جس کا دستور ہند خود ضامن تھا۔

 خلاصہ یہ ہے کہ اس بل کے پاس ہوجانے سے دنیا کے نقشے پر موجود عظیم سیکولر جمہوری ملک ہندوستان کی ساکھ کو بڑا نقصان پہونچا ہے اور یہیں سے ہندوستان ہمیشہ ہمیش کے لئے بدل گیا ‘ چاہے آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔

٭ مضمون نگار آسامی باشندہ اور ایسٹرن کریسینٹ،ممبئی کے ایڈیٹر ہیں۔