خاکی وردی میں سنگھی بربریت، طلباء کی جرأت، قیادت میں چھُپی منافقت ! 

احساس نایاب

پولس جس کو محافظ نگہبان کہا جاتا تھا آج وہ خاکی وردی کے پیچھے چھپ کر بربریت کا ننگا ناچ کھیل رہی ہے ….

قانون کی آڑ میں بار بار قانوں کی دھجیاں اُڑا رہی ہے.

دراصل اب ہندوستانی پولس پوری طرح سے بی جے پی سرکار کے قبضے میں ہے اور گجرات 2002 میں جس طرح سے مودی کے اشاروں پہ فساد برپہ کرکے مسلمانوں کا نرسنگھار کیا گیا تھا، باکل اُسی طرح اب کی بار اس سنگھی پولس کے نشانہ پر یونیورسٹی, مدارس و دیگر تعلیمی اداروں کے طلباء ہیں، جنہیں ملک کا مستقبل مانا جاتا ہے اور اس مستقبل کو سنگھی بھاجپائیوں نے مذہب کے نام پہ گمراہ کرنے کی جی توڑ کوشش کی لیکن جب یہ اپنے گندے مقاصد میں کامیاب نہ ہوپائے تو انہیں پولس کے ذریعہ دبانے, ان کے جوش و حوصلوں کو کچل کر ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور آج ایک مرتبہ پھر سے دہلی پولس کے اندر 17 سال قبل گجرات کے دنگائیوں کا رنگ نظر آرہا ہے۔ جب اسی مودی کے اشاروں پہ تشدد کی آگ بھرکائی گئی تھی کئی مسلم گھروں کو نظر آتش کردیا گیا، جوان لڑکیوں کو خود پولس نے اپنی ہوس کا شکار بنایا، جان بوجھ کر فسادیوں کو کھُلی چھوٹ دی گئی اور خود تماشبین بن کر اُن کا ساتھ دیتے رہے یہاں تک کہ اپنی آنکھوں کے آگے ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری کے بعد اُس کا پیٹ چیر کر نوزاد بچے کو بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا گیا تھا …..

اُس وقت گجرات میں تعصب کا زہر اس قدر گھولا جاچکا تھا کہ انسان کے اندر حیوانیت کا راج تھا اور افسوس گجرات کے بعد یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ کبھی کاس گنج تو کبھی مظفر نگر کی طرح کئی علاقوں میں پولیس کے ذریعہ دہرایا گیا اور گذرتے وقت کے ساتھ پولس, جلاد کی شکل میں سامنے آتی رہی, ہر دن کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طریقے سے انسانی جانوں کے ساتھ کھیلتی رہی …

اور اب بھاجپائی اقتدار کے 6 سالوں میں اسی پولس کو کچھ بھی کرنے کی کھُلی چھوٹ مل چکی ہے کہ اب وہ پالتو کتوں کی طرح اپنے آقاؤں کے اشاروں پہ کسی کو بھی کاٹنے کے لئے دوڑنے لگتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج کئی علاقوں میں پولس کھُلے عام بربریت کا تانڈاؤ کررہی ہے …. غنڈوں میں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہا, قانون کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی کے بھی خلاف درجنوں جھوٹے کیسس درج کردینا، بےگناہ ملزماں کے اہل خانہ کو ہراسان کرنا، کبھی جھوٹے انکاؤنٹر کرکے بےگناہوں کو موت کے گھات اُتار دینا، تو کبھی پولس کسٹڈی میں پوچھ تاچھ کے نام پہ اذیتیں دینا، یہاں تک کہ کسٹڈی میں کئی عورتوں کی عصمت پامال کی گئی ہے اور جگہ جگہ دکانداروں چھوٹے موٹے تاجروں سے ہفتہ وصول کرنا آج ان کا معمول بن چکا ہے اور آج خاکی وردی میں اکثر ایسے ہی درندے، جلاد و بلیک میلرس موجود ہیں، جن کی وجہ سے عوام کو قانون پر سے مکمل بھروسہ اٹھ چکا ہے کیونکہ جہاں قانوں کے رکھوالے خود قانوں توڑنے لگ جائیں وہاں عوام کا بغاوت پہ اتر آنا کوئی حیرت کی بات نہیں ….

” ایسے میں آج ہمیں یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ کشمیری بچے کتابیں اٹھانے کی عمر میں پتھر اٹھانے پہ کیوں مجبور ہوئے ” …

اگر جامعہ ملیہ اسلامیہ و علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے موجودہ حالات کا جائزہ لیں گے تو ہر بات آئنہ کی طرح صاف نظر آئے گی ….

کیونکہ آج جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی میں وہی سب کچھ دہرایا جارہا ہے لیکن اس مرتبہ کھُلے عام اور زیادہ خطرناک انداز میں. یہاں تک کہ امتحانات کے موقعہ پر وہاں کے طلباء کو پتھر اٹھانے کے لئے خود پولس کی جانب سے مجبور کیا گیا، انہیں اکسایا گیا …

جب این آر سی و کیب جیسی ملک مخالف، انسانیت مخالف بل کے خلاف جامعہ ملیہ کے بچوں نے دستور ہند میں دئے گئے اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے پرامن طریقے سے احتجاج کررہے تھے، لیکن انسانیت دشمن بھاجپائیوں کو اس احتجاج میں وہ تحریک و انقلاب نظر آیا جو کبھی بھی ملک سے ان کی جڑیں اکھاڑ کر پھینک سکتا ہے، دراصل نوجوان نسلیں ہی ہر ملک میں انقلاب لاتی ہیں انہیں کے کارناموں سے تاریخ لکھی جاتی ہے لیکن یہ تاریخ سنگھی بھاجپائیوں کو ہرگز منظور نہ تھی اس وجہ سے بوکھلائی ہوئی بھاجپا نے خاکی وردی میں چھپے اپنے پالتو جانوروں کا استعمال کیا اور بڑی ہی سنگ دلی سے معصوم بچوں پہ حملہ کروادیا، احتجاج کررہے بچوں پہ بےرحمی سے لاٹھیاں برسائی گئی، آنسو گیس کے گولے داغے گئے یہاں تک کے فائرنگ بھی کی گئی، جس میں کئی طلباء زخمی ہوگئے، کئیوں نے اپنی جانیں گنوادی اور اسی دوران اپنا بچاؤ کرتے ہوئے چند بچوں نے مجبوراً اپنے ہاتھوں میں پتھر اٹھالئے جس کو بہانہ بناکر پولس نے ان نوجوان بچوں پہ بربریت کا ایسا ننگا ناچ کیا کہ جامعہ ملیہ اور علی گڑھ کی درودیوار دہل گئی, وہاں کی سرزمین معصوم طلباء کے خون سے سرخ ہوگئی … پولس نے اس بربریت کے لئے کئی سنگھیوں کی بھی مدد لی اور یہ خود یونیورسٹی کے بچوں کا کہنا ہے کہ کیسے لائیبریری میں پڑھائی کررہے بچوں کو پولس کے بھیس میں چھپے غنڈے لائبریری کا دروازہ توڑ کر گھُس گئے وہاں پہ کیا سی سی ٹی وی کیمرہ توڑ دیا اور بچوں کو بےرحمی سے مارتے پیٹتے رہے، لڑکیوں کے ہاسٹل میں جبرا گھس کر ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اُن کے حجاب کھینچے گئے، ان کے ساتھ دھکا مکی کی جس میں کئی بچیوں کے ہاتھ پیر بھی توٹے ہیں اور کئی بچیاں خود کو بچانے کے خاطر باتھ رومس میں جاکر چھُپ گئیں لیکن سیول ڈریس میں ہیلمٹ کے پیچھے اپنا منہ چھپائے سنگھی پولس باتھ رومس میں بھی داخل ہوکر ایکسپائر ہوئے آنسو گیس کے گولے داغے، جس سے کئی بچوں کی طبیعت بگڑنے لگی لیکن ان بدحال، زخمی بچوں کو ہاسپٹل تک بھی لے جانے نہیں دیا گیا …..

 دہلی پولس نے ان دنوں جس طرح کا کردار ادا کیا ہے اُس کو دیکھتے ہوئے شیطان بھی شرمسار ہورہا ہوگا …. خود بسوں کو آگ لگاکر، عوامی ملکیت کو برباد کرکے بچوں پہ جھوٹا الزام لگایا گیا ہے ……

لیکن الحمدللہ اس قدر ظلم و تشدد سہنے کے باوجود جامعہ ملیہ و علی گڑھ کے جانبازوں نے ہار نہیں مانی، نہ ہی اپنے احتجاج کو روکا بلکہ ان نوجوانوں نے پولس، انتظامیہ، سرکار کو ناکو چنے چبوادئے اور ایسی تاریخ رقم کردی جو رہتی دنیا تک فخر سے یاد کی جائے گی .

سلام ہے ان جانبازوں پہ, سلام ہے ان شہزادے و شہزادیوں پہ جنہونے بنا تفریق، بنا تعصب کے پورے ہندوستان کو ایک دھاگے میں موتیوں کی مانند پرو کر مالا بنادی، انہیں کا جذبہ، انہیں کی قربانیاں ہیں جو احتجاج کی شکل میں ایک دو یونیورسٹی سے شروع ہوکر آج ہندوستان بھر میں تحریک بن چکی ہے, ایک کے بعد دیگر یونیورسٹیز کالجس، مدارس، این جی اوز اور کئی عام و خواص شخصیات اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں, ہرسو انقلابی گونج سنائی دے رہی …

جس کا ثبوت اخباروں اور سوشیل میڈیا پہ موصول ہورہی خبروں سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں جامعہ ملیہ کی بچیوں کی آنکھیں نم کردینے والی آب بیتی بھی موجود ہیں جس کو جاننے کے بعد فخر سے ہر مسلمان کا سینہ چوڑا ہوجائے گا، ایمان میں تازگی آجائے گی اور ہر غیرت مند انسان اپنی بزدلی کو کوسنے لگے گا کیونکہ ان نوجوانوں کی قربانیاں مردہ ضمیروں کو زندہ کرنے ہماری غیرت کو للکارنے کے لئے کافی ہیں۔

ویسے یہاں پہ درجنوں بچیوں کے کارنامے ہیں جن میں ہر کردار بےلوث, غائبانہ ہمت و جذبہ کا حامل ہے …. جس میں کئی باحجاب بچیوں نے پولس کو للکارا ہے، کبھی شمشیر بن کے پولس کے آگے گرجی ہیں تو کبھی مصلے بچھا کر شکرانہ ادا کرتی نظر آئی ہیں تو کبھی اپنے ساتھیوں کی مدد کرتے اُن کی جانیں بچاتے ہوئے دکھائی دی ہیں …..

کئیوں نے تو شہادت کو خود پہ واجب کرلیا اور والدین کے بلانے پہ کہنے لگی میں اپنے ساتھیوں کو اکیلا چھوڑ کر نہیں آؤں گی، یہاں رُکے رہنے سے شہادت کا مرتبہ تو ملے گا ….

اسی طرح ایک اور اسلام کی شہزادی اپنے گھروالوں سے اجازت لے کر احتجاج میں ساتھیوں کی مدد کے لئے نکلتی ہے اس دوران فکرمند والد جب اپنی لخت جگر کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو کہتی ہے ابو مجھے نہ روکیں کل جو بچے زخمی ہوئے ہیں اللہ کو پیارے ہوئے ہیں وہ بھی اپنے ماں باپ کے لاڈلے تھے اور گھٹ گھٹ کے مرنے سے بہتر ہے مقابلہ کرتے ہوئے جان قربان کی جائے …..

 آج ان بچیوں میں اسلام کی وہ زندہ جاوید شخصیات جھلک رہی ہیں جنہونے اسلام کے خاطر اپنی آل و اولاد کو قربان کردیا اور خود جامے شہادت نوش کیا …..

اسی درمیان بیحد افسوسناک، شرمسار کردینے والا کردار ہمارے قائدین و نام نہاد علماؤں کا رہا ہے، ایک وقت محمود مودی میڈیا کے آگے دئے گئے اپنے بیانات میں مسلم مخالف بل کی حمایت کرتے ہوئے پوری قوم کو ڈیٹنشن کیمپ پہنچانے کے لئے تیار ہوچکے تھے تو دوسری طرف چچا مدنی جی بھاگوت کے نام پہ قصیدے پڑھ رہے تھے تو کہیں کوئی ندوی شری شری نامی خبیث کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کے گھر کا سودا کرنے کے لئے تیار ہوگئے تھے تو کہیں شریعت کی دفا کرنے کا دعوی کرنے والے، اسلامی آئین کے رکھوالے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے ذمہ داراں مسلمانوں سے اپنا پلہ جھاڑتے ہوئے نظر آئے، انہیں کی طرح دیگر کئی اسلام کے ٹھیکیدار مسلک مسلک کا کھیل کھیلتے ہوئے مسلمانوں میں تفریق ڈالنے میں مصروف رہے اور جب این آر سی کے خلاف ملک بھر میں آوازیں گونجنے لگیں، اپنا تخت ڈگمگانے لگا اور مسلمانوں کے اندر روز بروز بڑھتی بےچینی کی وجہ سے خطرے کی تلوار خود اپنی گردنوں پہ لٹکتی محسوس ہونے لگی تو مخالفت کے نام پہ محض مذمتی بیانات، اور لیٹرپیڈ کا سلسلہ جاری ہوگیا, اس بیچ ایک , دو نے ہمت جٹاکر احتجاج کی جرأت کرد کھائی، مگر یہاں پہ بھی افسوس کہ یہ احتجاج محض رسمی رہا، کہیں سے بھی اس احتجاج کا مقصد این آر سی کی مخالفت نہیں لگا بلکہ یہ تو مسلمانوں میں دم توڑتی اپنی ساکھ کو دوبارہ زندگی بخشنے, دیگر قائدین کے آگے اپنا دبدبہ دکھانے اور ” ایل ٹی سی” گھوٹالہ میں ملی راحت کا جشن منانے جیسا لگا …. پھر جب اس سے بھی بات بنتی نظر نہیں آئی تو محمود مودی جی سیدھے دہلی پہنچ گئے طلباء کے ساتھ ہمدردی جتاتے ہوئے جہاں نوجوان اپنا خون بہارہے تھے وہاں پہ یہ میاں چائے, ناشتے کے انتظام میں مصروف رہے ….. ناجانے اس چائے ناشتہ کے نام پہ کتنا چندہ اکٹھا کیا ہوگا … اور ابھی ابھی چچا مدنی جی مسلمانوں کو بند کمروں میں احتجاج کرنے کی تلقین دے رہے ہیں جو کسی کی بھی سمجھ سے پرے ہے۔

خیر اس دوران قسم ہے اگر ان سبھی میں کسی نے بھی سرکار کے خلاف اُس کی غلط پالیسیوں کے خلاف, دہلی پولس کی بربریت کے خلاف دوٹوک لہجے، سخت انداز میں روکنے یا دھمکانے کی کوشش بھی کی ہو … میاں دھمکانے کی بات تو بہت دور کی ہے ان ٹھیکیداروں نے اپنی زبانوں کو جنبش تک نہیں دی، بس اپنے اپنے خان خاہوں میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے اپنے مریدوں کی قطاریں بڑھانے، سرکار سے اپنی گردنیں چھڑانے میں مصروف ہیں … اور آج انہیں مسلمانوں کی جانوں, ان کے وجود کی اتنی پرواہ نہیں ہے جتنی اپنی ملکیت، عہدوں و رتبوں کی ہے …….

بہرحال جو جدوجہد، قربانیاں ان حضرات کو دینی چاہئیے تھی وہ جامعہ ملیہ، علی گڑھ، دیوبند و ندوۃ کے شاہینوں نے دی ہیں، یہ اور بات ہے کہ دیوبند و ندوۃ کے دلیر نوجوانوں کے پیروں میں حکمت و احترام کے نام پہ بیڑیاں ڈالنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے مگر ان شاء اللہ یہ اس دور کے ابابیلوں کا لشکر ہے جو اب رُکے گا یا تھمے گا نہیں بلکہ تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوگا اور ان کی اس جرأت کو دنیا صدیوں سلام کرے گی …..

کیونکہ ان بےباک جانباز نوجوانون نے جس جراتمندی سے آگے بڑھتے ہوئے ملک بھر میں انقلاب برپہ کیا ہے وہ مذہب کے نام پہ تفریق کرنے والوں، حکمت و مصلحت کے نام پہ سیاستدانوں کے تلوے چاٹنے والوں کے منہ پہ کرارا طماچہ ہے , اس طماچہ کی گونج صدیوں تک گونجے گی، آنے والی نسلین ان حضرات کی بےحسی، بزدلی، دنیا پرستی کو پڑھ کر ان کی بزدلی پہ لعنت بھیجے گی ….. ساتھ ہی ان کی جانب سے پیدا کردہ تعصبی نظریات کو بدلنے میں کار آمد ثابت ہوگی …. کہ کس طرح ان میں سے کئی نام نہاد عالموں نے اسلام کو محدود نظریہ بناکر پیش کیا تھا، اسلام کے ٹھیکیدار بن کر لباس, پہناوے کے بنا پر مسلمانوں کو تقسیم کررہے تھے، جنس، شرٹ اور جھبہ پہننے والوں میں تفریق کرتے ہوئے نیک و بدکار کا تصور جوڑ دیا تھا , ماڈرن لباس پہننے والے نوجوانوں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھا کرتے آج انہیں نوجوانوں نے ان دقیانوسی روایات و نظریات کو جھٹلادیا ہے اور امت مسلمہ کو اس شعر کا مفہوم سمجھادیا ہے ……

” نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری “

 ابھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے نئی نوجوان قیادت کو منتخب کریں کیونکہ اگر اب بھی ہم پرانی دم توڑتی ہوئی قیادت کے بھروسے رہے تو وہ دن دور نہیں جب فسادات, سیلاب، زلزلوں کی طرح ڈیٹنشن کیمپ میں موجود مسلمانوں کے نام پہ بھی چندہ وصولہ جائے گا ……