نجم الہدیٰ ثانی
آپ نے جمعہ کی نماز میں کچھ لوگوں کودیکھا ہوگا کہ وہ مسجد میں سب سے آخر میں آتے ہیں مگرجگہ اگلی صف میں لینا چاہتے ہیں۔ یہ پہلے سے موجود لوگوں کی پرواہ کئے بغیر ان کے کندھوں پرسے گذرتے ہوئے آگے جاتے ہیں۔ آج کل کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے روایتی مذہبی حلقوں کے “حضرات” کی ہے۔ سی اے اے اوراین آرسی کی مخالفت میں ملک گیر احتجاج نے ان لوگوں کوحاشیہ پر ڈال دیا ہے۔پہلے پہل ان مظاہروں اوراحتجاج میں یہ اپنے لئے کوئی جگہ نہیں بنا سکے۔ اب جان توڑکوششں کی جارہی ہے کہ کسی طرح شہ نشیں پرانہیں بھی جگہ مل جائے۔ ویسے بھی ہمارے پیشے ورمذہبی لوگ اپنے جبہ و دستارکے ساتھ سامعین کی صف میں بیٹھنا ہتک عزت سمجھتے ہیں۔ انہیں ہرحال میں اگلی صف میں جگہ چاہئے۔ اس نمازی کی طرح جو سب سے بعد میں مسجد آتا ہے مگرجگہ اگلی صفوں میں چاہتا ہے۔
اس تصویر میں مولانا ولی رحمانی صاحب، جنہیں کچھ لوگ عقیدت میں، کچھ لوگ ڈرکی وجہ سے اورکچھ لوگ صرف اس لئے کہ دوسرے بہت سے لوگ بھی انہیں یہی کہتے ہیں، “امیرِ شریعت” اور اس سے بھی مضحکہ خیزلقب”مفکرِ اسلام” کے نام سے پکارتے ہیں کل بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کے ساتھ چند اورملی تنظیموں کے ذمہ داران اورکشن گنج کے دو ایم ایل اے کے ساتھ پہلی صف میں کھڑے مسکرارہے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات یاد رکھیں کہ ہمارے مذہبی قائدین کو ، جن کی اکثریت دراصل مسلکی /مشربی قائدین کی ہے، ہم مساجد میں تو ایک ساتھ نہیں دیکھ پاتے ہیں کیونکہ مسجدیں دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث، وغیرہ کی ہوتی ہیں۔ ہاں، جب کسی سیاست داں کی ڈیوڑھی پریہ سلامی دینے کے لئے اکٹھا ہوتے ہیں تو بلا تکلف ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ نہیں۔ صرف کھڑے نہیں ہوتے ہیں بلکہ مسکراتے بھی ہیں۔
موصولہ تفصیلات کے مطابق وفد نے وزیرِ اعلیٰ کو دوصفحات پر مشتمل ایک میمورنڈم سونپا جس میں کھل کر احتحاج اور ناراضگی جتاتے ہوئے صاف صاف یہ مطالبہ کیا گیا کہ حکومت بہار اورجدیواس سیاہ قانون پر نظر ثانی کرکے مرکزی حکومت پر اس قانون کو واپس لینے کے لیے دباؤ بنائے۔ اس قانون کے خلاف ریاست گیر پیمانے پر ہورہے پر امن مظاہرے کو اخلاقی طور پر حمایت دےاور مظاہرین کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
کتنی اچھی اچھی باتیں ہیں نا!
ہمارےمذہبی حلقےیہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے مسائل میں اگر یہ نہیں بولیں گے تو کوئی مسئلہ کبھی حل ہی نہیں ہوگا۔ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان گاندھی جی کے ان تین اندھے ، بہرے اورگونگے بندروں کی طرح ہیں جو نہ دیکھتا ہے، نہ سنتا ہے اورنہ کچھ بولتا ہے۔ جب شہریت ترمیمی بل زیرِ بحث تھا اس وقت مفکرینِ اسلام خانقاہوں میں “عظیم الشان” جلسوں کی صدارت فرماکر”پرمغز” صدارتی خطاب فرمارہے تھے۔ جب بل پاس ہوچکا ،قانون بن چکا، ہندوستانی عوام نے سڑکوں پرنکل کراس کے خلاف تاریخی احتجاج درج کرایا ہے اورطالبات و طلبہ نے پولیس کے لاٹھی ڈنڈے، آنسوگیس اورواٹر کینن کی مار برداشت کرکے عزم و ہمت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے تو یہ لوگ اپنی خانقاہوں، آفسوں، اورمیٹنگوں سے باہرآکر انگلی کٹا کر شہیدوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔
مولانا رحمانی دراصل موجودہ میکیاولی سیاست کے آدمی ہیں۔ سیاسی جوڑتوڑ میں ماہرہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ ہو یا امارتِ شرعیہ ہرجگہ انہوں نے ایک ایسا نظام قائم کررکھا ہے جسے ‘یک شخصی’ یا ‘یک قطبی’ کہا جاسکتا ہے۔ اس نظام میں باہمی مشوروں اوراختلاف رائے کی جگہ نہیں ہے۔ جو لوگ ان کے مزاج یا نظام کی مضبوطی کا باعث بن سکتے ہیں وہ ترقی پاتے ہیں اورجو اس نظام کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں وہ راندہء درگاہ کردئے جاتے ہیں۔ وقت اورحالات کے لحاظ سے سیاسی پارٹیوں سے قربت اوردوری بنائے رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے ان کی ‘سیاسی بصیرت’ پرمحمول کرتے ہیں جب کہ کچھ دوسرے لوگ اسے کچھ اورنام دیتے ہیں۔
بات سیاسی بصیرت کی آگئی ہے تو ایک بات اورسنتے جائیے۔ تین طلاق کے مسئلے پربورڈ کا جو موقف تھا اس سے سب واقف ہیں۔ شریعت میں موجود توسع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے شریعت میں مداخلت کا جو راستہ بورڈ نے ایک ہی رائے پراصرار کرکے حکومت کو دکھایا ہے وہ ابھی رکنے والا نہیں ہے۔ تین طلاق کے بعد اب مسجدوں میں مسلم خواتین کےداخلے کی بات بھی اٹھےگی۔ سیاسی بصیرت تو یہ کہتی ہے کہ کسی ایک فقہی رائے پراصرار کے بجائے حالات اورشریعت کے مزاج کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ پہلے ہی کرلیا جائے۔ حکومت کو کیوں موقع دیا جائےکہ وہ ہمیں ایک پھر ذہنی خلجان اورنفسیاتی ہیجان میں مبتلاکرے۔ لیکن شخصی استبداد اورمسلکی تعصب اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب شوریٰ رسم اورشریعت مسلک میں تبدیل ہوجائے تو یہ کام آسان نہیں ہوتا۔ اورہاں، اسے سیاسی بصیرت کا نام دیں یا کچھ اورکہ راجد کے بہار بندسے صرف ایک دن پہلے وزیرِ اعلیٰ سے اس ملاقات کا کیا مقصد ہے؟ ظاہرہے ہمیں بظاہر جتنا نظرآرہا ہے حقیقت اس سے زیادہ ہے۔
بے مثال عوامی احتجاج اورطلبہ و طالبات کی بے نظیر استقامت کے نتیجے میں، ان شاء اللہ، نفرت کی جو سیاسی بساط مودی اورشاہ کی جوڑی نے بچھائی ہے وہ لپیٹ دی جائے گی۔ سوا ارب ہندوستانیوں کو ان کا دیس واپس ملے گا۔ بے اعتمادی اورشک و شبہ کو محبت اوررواداری کے لئے جگہ خالی کرنی پڑے گی۔اس مرحلے میں ہندوستانی مسلمانوں کی ذمہ داریاں دوچند ہوجاتی ہیں۔ انہیں صرف آرایس ایس کی نفرت کا تریاق نہیں ڈھونڈنا ہے بلکہ اپنے نام نہادملی قائدین کا احتساب بھی کرنا ہے اوراس غیرمعمولی صورتحال سے نکل کرآنے والی نئی اورتازہ دم قیادت کو، جس میں مردبھی ہوں اورعورتیں بھی، اپنا اعتماد بخشنا ہے۔ یہ راستہ سی اے اے اوراین آرسی کے مسائل سے بھی دشوارگذاراورصبرآزما ہے۔یہ راہ عقیدتوں اورذاتی مفادات کی قربانی مانگتی ہے۔ پرانے تعصبات ، تنگ نظری اور شخصیت پرستی کا خراج مانگتی ہے۔ لیکن، یہی وہ واحد راستہ ہے جس پرچل کرہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ آئندہ کوئی سی اے اے اوراین آر سی کی تلوار ہمارے سروں پر نہ لٹکاسکے اورہم ایک مہذب، تعلیم یافتہ، خوشحال اوربا اعتماد جماعت بن کر وسیع تر ہندوستانی قوم کی ترقی اورخوشحالی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اس کے علاوہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے اورکوئی راستہ نہیں ہے۔
راستے بند ہیں سب کوچہء قاتل کے سوا






