کلیم الحفیظ
دہلی میں اسمبلی الیکشن کا اعلان ہوچکا ہے۔ چناوی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ مرکزی حکومت جس فسطائی نظریات کی حامل ہے اور جس طرح فسطائی ایجنڈے پر عمل کررہی ہے اس سے مستقبل میں یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ الیکشن، انتخابات اور چناؤ جیسے الفاظ داستان نہ بن جائیں۔ خیر اب دہلی کا الیکشن سامنے ہے۔بی جے پی 2019 کے جنرل الیکشن میں شاندار فتح کے بعد ریاستی الیکشن میں جس طرح یک بعد دیگرے شکست کھارہی ہے، اس نے اس کی نیند حرام کردی ہے۔ مہاراشٹر میں جیتنے کے بعد بھی اس کی ہار ہوگئی ِلیکن جھارکھنڈ میں کھلی شکست نے اس کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔ بی جے پی کی زعفرانی پالیسیاں اور آئین مخالف اقدامات سے ہر باشعور شہری واقف ہوگیا ہے ۔اس لےے میں سمجھتا ہوں کہ کوئی سچا ہندوستانی اس کوپسند نہیں کرے گا۔
دہلی میں پانچ سال سے عام آدمی پارٹی کی حکومت رہی ہے۔ ہمیں اس کے کاموں کا جائزہ لینا چاہئے ،اس سے پچھلی سرکاروں اور دیگر ریاستوں میں مختلف پارٹیوں کی سرکاروں سے موازنہ بھی کرنا چاہئے۔ اس کے بعد ہی کسی نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے۔ میں جہاں تک سمجھتا ہوں اروند کیجریوال کی سرکار پچھلی سرکاروں کے مقابلے غنیمت تھی، ایک مکمل ریاست اور بااختیار حکومت نہ ہونے کے باوجود غریبوں کے لےے بہت سے ایسے کام کےے گئے جواس سے پہلے کسی سرکار نے نہیں کےے۔سب سے نمایاں کام تعلیم کے میدان میں کیا گیا، سرکاری اسکولوں کو مہنگے پرائیویٹ اسکولوں کے برابر لاکھڑا کرنا قابل ستائش اور قابل اتباع کام ہے۔صحت کے میدان میں بھی کچھ بہتر کام ہوئے، بجلی کی شرح کم ہوئیں اور دوسو یونٹ تک مفت بجلی فراہم کی گئی، پینے کا پانی ملا، بسوں میں خواتین کو مفت سفر کی سہولیات میسر ہوئیں۔ یہ سب کام اچھے ہیں جن کی ستائش کی جانی چاہئے۔ ایک فلاحی ریاست کا تصور ہی یہی ہے کہ وہ خاص طور پرغریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے۔
مگر جب ہم مسلمانوں کی حالت پر غور کرتے ہیں تو صورت حال میں بڑی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی، مسلم اکثریتی علاقوں مثلاً اوکھلا،شاہین باغ،ابوالفضل،بٹلہ ہاؤس، ذاکر نگر، جمنا پار، پرانی دہلی وغیرہ میں جو حالات پہلے تھے تقریباً وہی ہیں۔ دہلی حکومت کی تعلیمی سرگرمیوں کا اثر یہاں بہت کم اس لیے ہے کہ یہاں حکومت کے اسکول بہت کم ہیں۔محلہ کلینک سے ضرور کچھ لوگ فائدہ اٹھا رہے، بجلی پانی کی سہولیات سب کو یکساں حاصل ہیں۔ صفائی کا سسٹم بہت خراب ہے، کوڑے کے ڈھیر جوں کے توں ہیں، بڑی تعداد میں سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ MCD پر بی جے پی کا اقتدار ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ صفائی کا شعبہ براہ راست MCD سے متعلق ہے۔
ایک اہم مسئلہ اردو زبان کا ہے۔ اردو زبان اور دہلی لازم و ملزوم ہیں ۔اردو کے فروغ کے لےے دراصل اردو کی تعلیم ضروری ہے۔لیکن اردو کی تعلیم کی جانب دہلی حکومت نے کیا کام کےے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔اس وقت دہلی کے اسکولوں میں سینکڑوں اردو اساتذہ کی جگہیں خالی ہیں۔اردو میڈیم اسکولوں کی حالت زار سے کون واقف نہیں ہے ۔اول تو اسکول نہیں ، اسکول ہیں تو اساتذہ نہیں، اساتذہ ہیں تو کتابیں نہیں، جب اساتذہ نہیں ہوں گے تو تعلیم نہ ہوگی۔ تعلیم نہیں ہوگی تو رفتہ رفتہ بچے بھی دوسرے مضامین کا انتخاب کرلیتے ہیں۔ اس طرح اردو ختم ہوتی جاتی ہے۔ حالانکہ گزشتہ دنوں حکومت نے اس ضمن میں ایک سرکلر بھی جاری کیا تھا اور کچھ پیش قدمی کے آثار بھی دکھائی دئیے مگر اس کے بعد کی سرگرمیاں کیا رہیں ؟ یہ جاننا ضروری ہے۔ ہمیں امید ہے کہ موجودہ حکومت اپنے دوسرے ٹرم میں اردو اساتذہ کے تقرر کو یقینی بنائے گی۔
اس الیکشن میں جو انتخابی منظر نامہ ہمارے سامنے رہے گا اس میں بی جے پی، کانگریس اور عآپ کے امیدوار ہر جگہ رہیں گے۔ دیگر چھوٹی پارٹیاں بھی میدان میں اتریں گی۔بی جے پی کو ایک مخصوص طبقہ ضرور ووٹ کرے گا،کانگریس کی بات ابھی دہلی میں نہیں بنی ہے ۔ اس لےے کانگریس کے لےے دہلی کے انگور کھٹے ہی رہیں گے۔ البتہ عآپ کا نام ہر تیسرے آدمی کی زبان پر ہے۔ سروے بھی عآپ کی واپسی کی بات کررہے ہیں۔ اس لےے عآپ کی واپسی زیادہ مشکل معاملہ نہیں ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم خرگوش کی نیند سوجائیں، اور کچھوا آگے نکل جائے۔ہماری چند ذمہ دایاں ہیں جنھیں ہمیں اد اکرنا چاہئے۔
٭ ہر شخص جس کی عمر اٹھارہ سال ہوگئی ہے اسے اپنا ووٹ بنوانا چاہئے، ووٹر لسٹ میں اپنا نام دیکھنا چاہئے، اور ووٹنگ کے دن ووٹ ڈالنا چاہئے۔
٭ محلہ کے ذمہ دار افراد پر مشتمل ایک گروپ کو اپنے محلہ کے مسائل کی فہرست تیار کرنا چاہئے ،ان مسائل پر سیاسی نمائندوں سے بات کرنا چاہئے ،کوشش کی جانی چاہئے کہ یہ مسائل انتخابی منشور میں شامل ہوجائیں۔
٭ دہلی حکومت نے مسلم اکثریتی علاقوں میں 250 اسکول بنانے کا اعلان کیا تھا، اس کے لےے وقف بورڈ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی بھی بنی تھی، اسٹاف سلیکشن اور کرائے کی بلڈنگس کے لےے درخواستیں بھی حاصل کی گئیں تھیں ۔مگر وہ پرجیکٹ ابھی ادھورا ہے۔ ذمہ داران حکومت نے نئی حکومت کی تشکیل کے بعد اس پر عمل درآمد کا وعدہ کیا ہے۔ اگر یہ پروجیکٹ زیر عمل آتا ہے تو دہلی کی اقلیتوں کی تعلیمی صورت حال میں انقلابی تبدیلی پیدا ہوگی۔
٭ جذباتی سیاست اور جذباتی نعروں سے گریز کرنا چاہئے اور حکمت کے ساتھ اپنا ووٹ استعمال کرنا چاہئے۔
٭ الیکشن EVMکے ذریعہ ہوں گے۔ اس لیے ووٹ ڈالنے سے پہلے اور ووٹ ڈالنے کے بعد یہ تحقیق کرلی جائے کہ آپ کا ووٹ آپ کی مرضی کے مطابق ہی کاسٹ ہوا ہے۔
٭ اس موقع پر میڈیا اور صحافی حضرات کی بھی بڑی ذمہ داری ہے ۔ ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ زمینی حقیقت پر مبنی رپورٹ پیش کریں گے۔خاص طور وہ صحافی جو اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمیونٹی کے ایشوز کو پیش کریں اور عوام کی خیر خواہ حکومت بننے میں اپنا تعاون کریں۔
حکومت نے بہر حال اچھے کام کےے ہیں۔منفی سیاست سے گریز کیا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ وہ آئندہ مزید اچھے کام کرے گی اور ان علاقوں پر خصوصی توجہ دے گی جو گزرے پانچ سال میں محروم رہے ہیں۔ ملک جس بحران کا شکار ہے اور ملک کی سالمیت، ایکتا ، اکھنڈتا اور جمہوریت کو جوخطرات درپیش ہیں ان سے بچنے اور ملک کو بچانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھوں میں دی جائے جو انسانیت کے خیر خواہ ہوں۔ میں صرف مسلمانوں کے نقصان اور نفع کی بات نہیں کررہا ہوں۔ ان کا نقصان تو 1857سے مسلسل ہورہا ہے۔ میں اس وقت ملک کے مفاد کی بات کررہا ہوں ،ملک کے آئین کو پامال کرکے جس منووادی آئین کو نافذ کرنے کی تیاری ہے وہاں صرف دو فیصد افراد کو فائدہ ہوگا اور ملک کی 98 فیصد آبادی جانوروں سے بھی زیادہ بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگی۔ اس لیے مذہب اور ذات سے اوپر اٹھ کر سوچنے ،سمجھنے اور انتخابی عمل کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ CAA,NRCاورNPRکے خلاف دہلی کے عوام کا احتجاج قابل قدر ہے ۔ مگر اس کا اصل جواب الیکشن کے ذریعہ فرقہ پرستوں کو شکست دینا ہے۔ جس کا موقع آپ کے پاس ہے۔
(٭ مضمون نگار انڈین مسلم انٹیلیکچولس فورم کے کنوینر ہیں)






