حفظ الرحمن قاسمی
سی اے اے کے ساتھ این آر سی کا خطرناک متوقع نتیجہ سب کو معلوم ہے۔ چنانچہ ملک کی عوام بالخصوص مسلم عورتیں اس کے خلاف مکمل طور پر میدان میں آ چکی ہیں اور روز بروز احتجاج کی لہر پورے ملک میں پھیلتی جا رہی ہے۔ اس پیمانے پرملک گیر احتجاج کا اثر یہ ہونا چاہیے تھا کہ حکومت ڈائیلاگ کے ذریعے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرتی، لیکن اب تک ایسا نہ ہو سکا اور فی الحال اس کی امید بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ چنانچہ ہمیں اس سلسلے میں چند باتیں ذہن میں رکھنا ضروری ہے:
1۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کو کامیابی ملے گی یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن اس کے مثبت آثار مختلف زاویوں سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس احتجاج کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ قوم اپنے روایتی قائدین، خواہ ملی ہوں یا سیاسی، سے بے نیاز ہو کر اپنی لڑائی خود لڑنے کا فیصلہ کر چکی ہے، اور جس قوم میں بھی اس طرح کی بیداری آجائے اس کو دنیا کی کوئی طاقت پسپا نہیں کر سکتی، گرچہ منزل تک پہنچنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
2۔ سی اے اے اور متوقع این آرسی کی کرونولوجی نے یقینا بھارت میں مسلمانوں اور دیگر پس ماندہ ذاتوں کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ چنانچہ ہمارے لیے اب سوائے اس لڑائی پر جمے رہنے کے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ معاملہ بالکل صاف ہے۔ ہمارے لیے صرف دو راستے ہیں: یا تو اس لڑائی کو کامیابی کی منزل چھونے تک جاری رکھتے ہوئے بھارت میں اپنے وجود کو ثابت کر دیں، یا پھر پیچھے ہٹ کر اپنی آنے والی نسلوں کے لیے آنے والے کم سے کم سو سالوں تک کے لیے غلامی کی زنجیر تیار کر لیں۔
3۔ یہ بات بھی بالکل صاف ہو گئی ہے کہ بی جے پی کا انتخابی منشور صرف الیکشن جیتنے کا حربہ نہیں، بلکہ اس کا نظریاتی ایجنڈا ہے جس کووہ ہر حال میں نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اپنے ایجنڈے کے لیے آر ایس ایس نے پچھلے سو برسوں سے انتھک محنت کی ہے اور اب جا کر اسے کامیابی کی منزل قریب نظر آرہی ہے۔ لیکن حالیہ احتجاج نے ان کے ہوش اڑا دیے ہیں، کیونکہ یہ ان کی توقع کے بالکل خلاف ہے۔ چنانچہ وہ اپنی سو برسوں کی محنت کو اتنی آسانی سے ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ چنانچہ قوم کو بھی ان تمام حالات کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا، کیونکہ یہ ان کے وجود کا مسئلہ ہے۔ یا تو ابھی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین کی حد میں رہ کر فاشست طاقتوں کے ناپاک عزائم کر ناکام کر دے، ورنہ وقتی پریشانی سے منہ پھیر کر ہمیشہ کے لیے بھارت کو اپنی وناش بھومی بنا لے۔
4۔ شاہین باغ کی بہادر عورتوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ پردے میں رہ کر ملک کے حفاظت کے لیے سوچتی ہیں اور وقت پڑنے میدان میں بھی آ سکتی ہیں۔ چنانچہ ان کی تحریک کی آواز پوری دنیا میں پہنچ چکی ہے اور ان کی گونج سے حکومت کی نیند اڑ چکی ہے۔ لیکن دہلی میں صوبائی انتخابات کے پیش نظر حکومت کوئی سخت فیصلہ نہیں لے پا رہی ہے۔ یہ بھی تقریبا واضح ہے کہ الیکشن تک پولیس کوئی بھی جبری کارروائی نہیں کرے گی۔ چنانچہ انھوں نے دوسرا راستہ ایمان و ضمیر کی سودے بازی کا شروع کیا ہے۔ احتجاج میں بہت سے اپنے لوگ ہی خبری بن کر گھومتے رہتے ہیں اور موقع بہ موقع ماحول کو خراب کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ایسے لوگ کئی دفعہ افواہ بھی پھیلاتے ہیں تاکہ اس تحریک کو کمزور کیا جا سکے۔ لیکن ہمیں افواہ پر دھیان نہ دیتے ہوئے صحیح صورتحال سے ہمہ وقت آگاہ رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔مظاہرین نے اب تک بڑی ہوشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے حالات خراب نہیں ہونے دیا۔ ہمارے لیے اس بات کو ذہن میں رکھنا نہایت ضروری ہے کہ تشدد کی راہ سے کبھی بھی منزل تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ عدم تشدد ہی ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔ چنانچہ مخالفین ہمیں مشتعل کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے، لیکن ہمیں صبر کے ساتھ اپنی لڑائی جاری رکھنی ہوگی اور لاء اینڈ آرڈر کو باقی رکھنے کی بھر پور کوشش کرنی ہوگی۔
5۔ چونکہ شاہین باغ حالیہ احتجاج کا علامتی نام بن چکا ہے۔ اس لیے گودی میڈیا اس کو بدنام کرنے کے لیے کمر بستہ ہو چکی ہے۔ چورسیا اور سدھیر چودھری کی شاہین باغ آمد بھی اسی ناپاک عزم کا ایک حصہ تھی۔ چنانچہ مظاہرین کو بڑی حکمت عملی کے ساتھ اپنا سفر طے کرنا ہوگا جیسا کہ وہ اب تک کر رہے ہیں۔ نیز شاہین باغ کے علاوہ دیگر مقامات پر جو احتجاج ہو رہے ہیں ان لوگوں کو ہمیشہ محتاط رہتے ہوئے شاہین باغ پر نظر رکھنی ہوگی اور کوئی بھی ناگہانی صورتحال پیش آنے کے وقت شاہین باغ کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس لڑائی کو آگے جاری رکھنے کی بھی کوشش کرنی ہوگی۔
6۔ یہ قانون صرف مسلمانوں کے لیے نقصان دہ نہیں، بلکہ سیدھے سادھے لفظوں میں کہا جائے تو یہ ملک اور ملک کے مفاد کے خلاف ہے۔گاندھی نے جس بھارت کا خواب دیکھا تھا وہ باقی نہیں رہے گا۔ اس قانون سے صرف یہ کہ بھارت کے باشندوں کی ایک خاصی تعداد زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم ہوجائے گی، بلکہ ملک کے معاشی ، سیاسی، داخلی اور خارجی معاملات بھی نا گفتہ بہ حد تک متاثر ہوں گے۔ اس لیے بھارت کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اپنے ملک اور سمویدھان کی حفاظت میں حصہ لیں۔غیر مسلم حضرات جن کو اب تک اس قانون کی سنگینی معلوم نہیں ہے ان سے نجی ملاقاتوں، تحریروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے گفت شنید کرنی چاہیے اور انہیں اس قانون کے منفی نتائج سے آگاہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ بھی اس کی مخالفت کر کے دیش اور سمویدھان کی حفاظت کے لیے آگے آئیں۔ ائمہ حضرات اپنے علاقے کی عوام کو بیدار کریں اور بیدار رکھیں۔
7۔ آخر میں ہمیں پورے شرح صدراور یقین کے ساتھ اس بات پر جمے رہنا ہوگا کہ چاہے جتنا وقت لگے ملک کو ہم برباد ہونے نہیں دیں گے، فاشست طاقتوں کو ختم کر کے رہیں گے، گاندھی کے ہندوستان اور امبیڈکر کے سمویدھان کی حفاظت کریں گے، اور ایسے بھارت کی تعمیر کریں گے جہاں سماج کے ہر طبقے اور ہر مذہب و نظریہ کے ماننے والوں کے لیے امن ہو، شانتی، ترقی اور خوشحالی ہو۔