ہم اسے ہمہ جہت بیداری کا پلیٹ فارم بھی بناسکتے ہیں

ثناء اللہ صادق تیمی
میں پچھلے لگ بھگ دو مہینوں سے لگاتار سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کو لے کر ہورہی بحث پر نظر رکھ رہاہوں ۔ میں نے ہندی ، اردو اور انگریزی میں لکھے گئے مضامین پڑھنے کے علاوہ بہت سے ٹی وی مباحثے بھی دیکھے ہیں اور مختلف پارٹیوں کے رویوں پر بھی میری نظر رہی ہے ۔ میں ان تمام کے پیش نظر چند باتیں ساجھا کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
1 ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کو لے کر اب حکومت جس طرح سے نرم رویے کے ساتھ سامنے آرہی ہے پہلے ایسا کرنا نہ اس کی منشا تھی اور نہ اس قسم کا کوئی اس نے اشارہ دیا تھا ۔ اس کے برعکس وزیر داخلہ باضابطہ طریقے سے کرونولوجی سمجھا رہے تھے اور سیدھے سے مسلمانوں کو ڈرارہے تھے ۔ اس تحریک نے آرایس ایس اور بی جے پی نیتاؤں میں بڑے لوگوں کو مسلمانوں کے تئیں نرم بلکہ محبت آمیز الفاظ استعمال کرنے پرمجبور کیا ہے ۔ اس کی مثال ہمیں مودی جی ، روی شنکر پرساد اور دوسرے نیتاؤں کے بیان میں دیکھنے کو مل سکتی ہے ۔ آرایس ایس ایک بالکل نئے ورژن کے ساتھ سامنے آرہا ہے جو بہت حد تک کانگریس کے نظریہ ہندوستان کے قریب ہے ورنہ اس سے پہلے تک آرایس ایس کے نظریہ بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی شمولیت اس طرح سے نہیں مانی جارہی تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ موہن بھاگوت پر بھروسہ کرنا آسان نہیں لیکن سنگھ جیسا خود کو اب پیش کررہا ہے اس کو ایک دم سے اندیکھا کرنا بھی بہت مناسب نہیں ہوگا ۔
2 ۔ آزادی کے بعد اب تک یہ پہلا ایسا موقع ہے جب مسلمان اپنے وجود کی لڑائی بطور خود لڑ رہا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے سیکولر دیش واسیوں کا انہیں ساتھ ملا ہوا ہے ، بایاں محاذ ، بعض علاقائی پارٹیاں اور کانگریس بھی اس معاملے میں حکومت کے خلاف ہے لیکن یہ تحریک بنیادی طور پر مسلمانوں کے اپنے کندھے پر کھڑی ہے اور وہی اس کو بنائے ہوئے ہیں ۔ یہ اس بات کا بھی اشاریہ ہے کہ یہ ملت مکمل طریقے سے حاشیے پر جانے کو تیار نہیں ہے ۔
3 ۔ایک بہت اچھی بات یہ ہے کہ اس تحریک کے پیچھے معلوم سیاسی یا مذہبی چہرے نہیں ہیں ۔ عام طور سے جب ایسے چہرے قیادت کرتے ہیں تو ان چہروں کو نشانہ بنانا بھی آسان ہوتا ہے اور ان سے ڈیل کرنا بھی مشکل نہیں ہوتا لیکن جب کوئی تحریک معلوم قیادت کےبغیر چلتی ہے تو خود اس تحریک سے ہی قیادت پنپنے لگتی ہے ۔ ویسے بھی جب تک حالات چیلنجنگ نہ ہوں تب تک مضبوط ، باشعور ، جواں ہمت اور سمجھدار قیادت پنپ نہیں پاتی ۔
4 ۔ پہلی مرتبہ مسلم خواتین اس قوت ، صلابت ، بصیرت اور دانائی کے ساتھ ایک تحریک کو آگے بڑھا رہی ہیں ۔ اس پوری تحریک سے ہماری خواتین کی صلاحیتیں بھی اجاگر ہو کر سامنے آئی ہیں اور یہ اپنے آپ میں یقینا بڑی اچھی پیش رفت ہے ۔ ماؤں نے آنچلو ں کو پرچم بنانے کا کام کرکے اپنی بصارت و بصیرت کا لوہا منوالیا ہے ۔پوری دنیا میں اس تحریک کو آوازیں مل رہی ہیں اور اگر یوروپین یونین ، یواین او اور امریکہ سے لے کر مختلف دوسرے ملکوں میں اس کی گونج سنائی دے رہی ہے تو یقینا اس کا سہرا ہماری متحدہ کوششوں کو جاتا ہے ۔اگر یہ تحریک نہیں ہوتی تو یہ مثبت رویے اور عالمی فیور کبھی نظر نہیں آتا ۔
5 ۔ ابھی جس قسم کی بیداری ہر سطح پر دیکھنے کو مل رہی ہے ، اگر ہم سمجھداری کا مظاہرہ کریں تو اسے ملت کی ہمہ جہت ترقی اور بیداری کا پلیٹ فارم بھی بنا سکتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ لوگوں کو یہ پوری بحث بھی سمجھ میں آگئی ہے اور ان کے اندر سے خوف و سراسیمگی بھی ختم ہوئی ہے ۔ہر طبقے میں ایک سطح پر قربانی کا جذبہ بھی ہے ۔ لوگ اپنی اپنی سطح پر تعاون بھی دے رہے ہیں اور اس سب کے پیچھے یہ اندیشہ کام کررہا ہے کہ کہیں ہم سے ہماری شہریت نہ چھین لی جائے ۔ ایسے میں اگر یہی اسپرٹ باقی رہ جائے اور اسے مثبت رخ دے دیا جائے تو پوری ملت کی کایہ پلٹ ہو سکتی ہے ۔ میرے ذاتی خیال میں ایسے تمام پلیٹ فارم سے آئین کے ساتھ ہی ہندوستانی تاریخ اور نظام حکومت پر اچھے لکچرز اور تقاریر کا بھی سلسلہ وار اہتمام ہونا چاہیے ۔ اس طرح یہ پلیٹ فارم وقتی فائدے کے ساتھ ساتھ دائمی منفعت کے بھی پلیٹ فارم بن جائیں گے ۔
6۔ ایک اور چيز سمجھنے کی ہے کہ بڑی افتاد سے بڑے مثبت نتائج بھی رونما ہوتے ہیں ۔ جس قسم کا اتحاد ، آپسی مودت اور باہمی تعاون کا جذبہ بیدار ہوا ہے اور جس طرح سے لوگ مسلکی حد بندیوں سے نکلے ہیں وہ اپنے آپ میں بہت اچھی چيز ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ اسے آگے بڑھانے کا کام کریں ۔
7 ۔ اب تک بھڑکاؤ بھاشنوں سے ان تمام پلیٹ فارمز کو بچا کر رکھا گيا ہے اور یہ بہت سمجھداری کی با ت ہے ، آئندہ بھی اسے اسی طرح بچاکر رکھنا ہوگا اور جتنا ممکن ہو کوشش کرکے سیکولر برادران وطن کا ساتھ لینا ہوگا ۔یہ کوششیں رنگ لارہی ہیں اور حکومت بہت حد تک تنہا پڑتی جارہی ہے ۔ جن لوگوں کی بنیاد ہی مذہبی منافرت ہے ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ ہندو مسلم نہیں کریں گے ، ہماری خوش فہمی ہوسکتی ہے ۔ ہم کوئی تحریک چلائیں نہ چلائیں وہ ہندو مسلم کرہی لیتے ہیں ، اس لیے کسی بھی موہوم نقصان کے پیش نظر اس تحریک کو کمزور کرنے کا عندیہ دانشمندانہ اقدام نہیں ہوگا ۔
8 ۔ ایک چیز اور بھی ہے اور وہ ہے اپنے بیچ پڑھے لکھے اسکالروں کو اہمیت دے کر انہیں پلیٹ فارم دینا اور ان سے استفادہ کرنا ۔ اب تک ہماری ملت نے صرف مولویوں کے وعظ سنے ہیں یا نیتاؤں کے بھاشن ۔ وقت آگیا ہے کہ ہم علمی ، سماجی ، سیاسی اور تاریخی مباحث پر پروگرامز کا سلسلہ شروع کریں اور اپنی نئی نسل سمیت پوری عوام کو بھی شعور و آگہی کے سلسلے سے مربوط کریں ۔ سمجھنے والی بات یہ بھی ہے کہ یہ صرف ہمارا وہم ہے کہ عوام علمی مباحث میں دلچسپی نہیں لیتے ، اگر ان کی سطح پر اترکر اس سلیقے سےانہیں سمجھایا جاسکے تو وہ دلچسپی بھی لیتے ہیں اور بھڑکاؤ باتیں کرنے والے مولویوں او رنیتاؤں کی جوتیوں سے خبر بھی لینے لگتے ہیں ۔
رہے نام اللہ کا