معصوم مرادآبادی
یہ نومبر 2018 کا واقعہ ہے۔ میں ریاض میں منعقد ہ ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے بعد عمرہ ادا کرتے ہوئے جدہ سے دہلی واپس آ رہا تھا۔ سعودی ایئر لائنز کے بوئنگ 707 طیارے کے بزنس کلاس میں میری اگلی نشستوں پر کچھ علمائے کرام تشریف فرما تھے۔ طیارے نے رن وے پر رینگنا تو شروع کیا لیکن وہ اچانک اڑان بھرنے سے پہلے ہی رک گیا اور واپس ائیرپورٹ کے اسی مقام پر آ گیا جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا۔ پائلٹ نے اعلان کیا کہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے طیارہ اڑان بھرنے کے قابل نہیں ہے۔ کچھ ہی دیر میں انجنیئروں کی ایک ہنگامی ٹیم طیارے میں داخل ہوئی اور مسافروں کو اپنی اپنی نشستوں پر ہی بیٹھے رہنےکے لئے کہا گیا۔ مگر اچانک لاک پیٹ کے پاس بیٹھے ہوئے علمائے کرام اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے درمیانی راستے میں ظہر کی نماز کے لئے نیت باندھ لی۔ جس سے تکنیکی عملے کو اپنا کام کرنے میں دشواری ہونے لگی کیونکہ آمد و رفت کا راستہ بند ہوچکا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا تو امامت کرنے والی شخصیت تبلیغی جماعت کے امیر مولانا محمد سعد کاندھلوی صاحب کی تھی۔ جماعت ختم ہونے کے بعد جہاز کے عملے نے راستہ بند ہونے کی صورت میں پیش آ مدہ پریشانیوں کا تذکرہ کیا۔ اس پر مولانا سعد صاحب یہ کہتے ہوئے خاصے ناراض ہو گئے کہ وہ نماز کے معاملے میں صرف اللّہ کے پابند ہیں، ائیرلائن اور جہاز کے عملے کے پابند نہیں ہیں۔ اس موقع پر کافی گرما گرم بحث ہوئی۔ عملے کے لوگ تکنیکی خرابی دور کرنے کے لئے جدوجہد کرتے رہے، لیکن انھیں کامیابی نہیں ملی۔ آ خرکار فلائٹ کینسل ہوگئی اور ہم لوگ آدھی رات کے بعد دوسری فلائٹ سے دہلی پہنچے۔
اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد نہ تو کسی پر تنقید کرنا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی پرخاش نکالنا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب ہی احکامات الٰہی کے معاملے میں بلاشبہ صرف اور صرف اپنے اللّہ کے ہی پابند ہیں لیکن دنیاوی معاملات میں کچھ ایسے مواقع بھی آ تے ہیں کہ ہمیں دنیاوی نظم و ضبط کا پابند بھی بننا پڑتا ہے۔ اس میں مذہب کہیں آ ڑے نہیں آ تا۔
کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے سماجی دوریوں کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس کے تحت مکی اور مدنی دونوں ہی حرم مقفل کردئیے گئے ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ تبلیغی جماعت سے وابستہ حضرات تمام قانونی پابندیوں کے باوجود مساجد میں نماز پر آ ج بھی اصرار کررہے ہیں جو کہ مصلحت اور طبی دونوں لحاظ سے نقصان دہ ہے۔ اس دوران حضرت نظام الدین میں واقع بنگلے والی مسجد کے واقعہ نے صورتحال کو مزید سنگین بنادیا ہے۔ حالانکہ لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے کے بعد یہاں موجود ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کے پاس اپنے گھروں تک جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ حکومت نے ہر شخص کو جہاں ہے وہیں ٹھہرنے کی ہدایت دی تھی۔ لیکن اس واقعے کے بعد میڈیا نے اپنی توپوں کا رخ تبلیغی جماعت کی طرف موڑ دیا ہے اور ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرائی جارہی ہے۔ تبلیغی مرکز کو سیل کردیا گیا ہے۔ مرکز میں موجود لوگوں کے بارے میں پولیس کو پیشگی اطلاع تھی اور ذمہ داران پولیس کمشنر کے رابطے میں تھے جنہوں نے انھیں طفل تسلیوں پر زندہ رکھا۔ مرکز سے متصل پولیس اسٹیشن مرکز کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتا ہے ایسے میں پولیس وہاں سینکڑوں ملکی اور غیر ملکی باشندوں کی موجودگی کے بارے میں کیسے لاعلم رہ سکتی تھی؟ سلسلہ واقعات کے بارے میں مرکز کی طرف سے جو پریس نوٹ جاری کیا گیا ہے اس سے واضح ہے کہ مرکز کے ذمہ داروں نے حالات سے نپٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور کسی بھی پریشانی سے بچنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے۔ لیکن اس کے باوجود میڈیا یک طرفہ رپورٹنگ کررہا ہے اور سارا قصور تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں پر ڈال رہا ہے۔ اس معاملے میں ہمیں بہرحال تمام اختلافات کو درکنار کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کی تائید کرنی چاہیے۔






