کورونا وائرس کا قبول اسلام

معصوم مرادآبادی

کورونا وائرس کی انتہائی خطرناک اور مہلک وبا پڑوسی ملک چین سے شروع ہوئی تھی۔ یہ اٹلی ،اسپین، امریکہ، برطانیہ آور ایران وغیرہ میں ہزاروں انسانوں کی جان لینے کے بعد ہندوستان پہنچی ہے۔ اس کی ممکنہ تباہ کاریوں سے بچنے کےلئے ملک گیر سطح پر لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے۔ انتہائی ہڑبڑی اور عجلت میں اٹھائے گئے اس قدم کے نتیجے میں پورے ملک کے اندر عجیب و غریب صورت حال پیدا ہوگئی ہے اور کمزور طبقات کے لوگوں کا جینا حرام ہوگیا ہے۔ اس لاک ڈاؤن کو ابھی پورا ہفتہ بھی نہیں گذرا ہے کہ خالی دماغوں نے شیطان کی پیروی شروع کر دی ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک جہاں اس وبا کی تباہ کاریوں سے نپٹنے کے لئے جنگی پیمانے پر مصروف عمل ہیں تو وہیں ہمارے ملک میں اس مشکل گھڑی میں بھی فرقہ واریت کا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ میڈیا میں تبلیغی مرکز کے حوالے سے جو بحث جاری ہے اس کا نچوڑ یہ ہے کہ ہندوستان میں اس وبا کو پھیلانے کے واحد ذمہ دارمسلمان ہیں۔ حالانکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ نہ تو کسی بیماری کا کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کا نام پوچھ کر اس پر حملہ آور ہوتی ہے۔

آج کے اخبارات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دہلی کے دلشاد گارڈن علاقے میں عمرہ کرکے واپس آئی خاتون نے جہاں دہلی میں 200 سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا تو وہیں تبلیغی مرکز سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران ملک بھر میں جماعتوں کی شکل میں پھیلنے والے لوگوں نے اس وبا کو خطرناک شکل دے دی ہے۔ اب کورونا وائرس سے لڑنے کی ساری لڑائی مسلمانوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ دہلی میں تمام مسجدوں کی نگرانی کے احکامات دئیے گئے ہیں تاکہ وہاں نمازی جمع نہ ہوسکیں۔

ایک ایسے وقت میں جب ملک کو متحد ہوکر انسانی تاریخ کے سب سے بڑے اور سنگین چیلنج کا مقابلہ کرنا تھا ہم مذہب کی بنیاد پر دست و گریباں ہونے کو تیار ہیں۔ ملک میں کروڑوں لوگ بلا تفریق مذہب وملت بھکمری کی کگار پر ہیں اور ہمارا میڈیا کرونا وائرس کو اسلام قبول کرانے میں لگا ہوا ہے۔ یہ صورتحال ہمارے حکمرانوں کو بھی راس آ تی ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی میں کامیاب ہوجائیں گے۔ چین نے دس دن کے ریکارڈ وقت میں ایک ہزار بستروں کا اسپتال تعمیر کرکے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا اور ہم نفرت کی دیواریں کھڑی کر کے ملک کو مصیبت میں ڈال رہے ہیں۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں