معصوم مرادآبادی
کورونا وائرس پھیلانے کے شبہ میں دہلی کے بوانہ علاقے میں ایک 22 سالہ نوجوان محبوب علی کو انتہائی بربریت کے ساتھ پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ محبوب علی تبلیغی جماعت کے ایک پروگرام میں شرکت کے بعد بھوپال سے سبزی کے ایک ٹرک میں بیٹھ کر دہلی واپس آیا تھا۔ اسے آزاد پور منڈی سے پکڑا گیا تھا لیکن طبی جانچ میں پوری طرح صحت مند پائے جانے کے بعد پولیس نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ مگرجب وہ اپنے گاؤں پہنچا تو یہ افواہ پھیل گئی کہ محبوب دراصل یہاں کورونا پھیلانے کا منصوبہ لے کر آیا ہے۔ لہٰذا اسے مقامی باشندوں نے کھیتوں میں لے جاکربری طرح پیٹا ۔ بعد میں اس نے اسپتال میں دم توڑ دیا۔ اس سے قبل ہماچل پردیش کے اونا ضلع میں دلشاد محمد نام کے ایک نوجوان نے اپنے سوشل بائیکاٹ سے عاجز آکر خود کشی کرلی تھی۔ اس نوجوان کو تبلیغی جماعت کے دو لوگوں کے رابطے میں آنے کی وجہ سے کورونا کامشتبہ مریض سمجھا جارہا تھا ۔ پولیس نے اسے قرنطینہ میں رکھا اور اس کی طبی جانچ بھی کرائی مگر اس میں کورونا کی کوئی علامت نہیں پائی گئی ۔ لیکن اس کے باوجود گاؤں کے غیرمسلم باشندوں نے اس کا سوشل بائیکاٹ جاری رکھا اور اسے ہراساں کیا گیا جس کے نتیجے میں اس نے اپنے گھر کی چھت سے لٹک کر جان دے دی۔
محبوب علی اور دلشاد محمد کی کہانیاں ان دردناک کہانیوں میں شامل ہیں جو گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں رقم کی گئی ہیں۔ ان دونوں کی جانیں کورونا پھیلانے کے جس خوف کے تحت لی گئی ہیں، وہ بلاوجہ نہیں ہے بلکہ تبلیغی جماعت اور عام مسلمانوں کے خلاف اس خوف کی پرورش میڈیا نے بڑی سازش کے تحت کی ہے ۔ 30 مارچ کو دہلی میں عالمی تبلیغی مرکز سے کورونا وائرس سے متاثرہ سینکڑوں لوگوں کی برآمدگی کے بعد میڈیا نے مسلمانوں کے خلاف جو زہر اگلا تھا، اس کی زد میں اب صرف تبلیغی جماعت سے وابستہ مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ اب مسلمانوں کو ’کورونابم‘ کی شکل میں دیکھا جارہا ہے ۔ ہندو بستیوں میں مسلمان وینڈروں کے داخلے پر پابندیاں لگادی گئی ہیں اور ان کے معاشی بائیکاٹ کی اپیلیں کی جارہی ہیں ۔ دہلی یونیورسٹی کے بعض ٹیچروں نے تو مسلمانوں کو گیس چیمبر میں ڈالنے کی وکالت کردی ہے اور مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے انھیں گولی مارنے کے ’ احکامات ‘ جاری کئے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا ہی اثر ہے کہ شمال مغربی دہلی کے علی پور علاقہ میں اکثریتی فرقہ کے کچھ لوگوں نے ایک مسجد پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا ہے کہ جب تک مسجدوں کو نہیں توڑا جائے گا،اس وقت تک کورونا ختم نہیں ہوگا۔ غرض یہ کہ زعفرانی میڈیا کی لگائی ہوئی مسلم دشمنی کی آگ پورے ملک میں سلگ رہی ہے ۔ خود میرے وطن مرادآباد میں سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو ” تبلیغی” قرار دے کر قرنطینہ میں بھیج دیا گیا ہے۔ ان میں میرے کئی غریب رشتے دار بھی شامل ہیں۔ حالانکہ سائینس دانوں کے ایک گروپ آ ئی سی آ ر سی کا کہنا ہے کہ دستیاب اعداد و شمار ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کرتے کہ ملک میں کورونا وائرس پھیلانے کے ذمہ دار تبلیغی جماعت کے لوگ ہیں۔
آپ ذرا یاد کیجئے کہ تبلیغی مرکز سے کورونا کے مریضوں کی برآمدگی سے قبل ملک میں کیا صورتحال تھی۔ لاکھوں یومیہ مزدور سڑکوں پر بے یار و مددگار پھر رہے تھے۔ بھوکے، پیاسے، مجبور اور لاچار مزدوروں کی بے بسی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آرہا تھا ۔ ایک ہی رات میں دہلی کے آنند وہار بس اڈے پر اپنے اپنے گھروں تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو خود میں نے دیواروں سے سر ٹکراتے ہوئے دیکھا۔ بغیر کسی تیاری کے اچانک نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ایک خوفناک انسانی المیہ جنم لے چکا تھا ۔ یہ حکومت کی بہت بڑی ناکامی تھی اور میڈیا ان مناظر کو پوری شدت کے ساتھ دکھا رہا تھا کہ اچانک اس کے ہاتھوں میں اس کا مرغوب موضوع دے دیا گیا۔ یہ موضوع تھا تبلیغی مرکز میں ’چھپے‘ ہوئے لوگوں کا۔ میڈیا کو اپنی محبوب غذا مل چکی تھی اور اس نے کسی تاخیر کے بغیرمسلمانوں کو ہمیشہ کی طرح نرم چارہ سمجھ کر چبانا شروع کردیا۔ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو ’کورونا بم‘ ، ’ کورونا جہادی ‘ ، ’طالبانی اور دہشت گرد‘ جیسے ان تمام الزامات کے نرغے میں لے لیا گیا،جو مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ اسی گودی میڈیا نے یہی ہتھیار مسلمانوں کی ایک انتہائی پرامن تحریک کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کئے تھے اور اس کا سارا مواد اسے حکمراں طبقے نے فراہم کیا تھا ۔ میڈیا کے مسلم دشمن پروپیگنڈے کا ہی نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کو ملک گیر سطح پر کورونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا – میڈیا نے سوشل میڈیا پر پھیلا ئی گئی افواہوں کو مرچ مسالہ لگاکر پوری بے شرمی کے ساتھ پروسنا شروع کردیا۔ سنگھ پریوار کی پوری بریگیڈ اس معاملہ میں میڈیا کو خام مال فراہم کررہی تھی۔ تبلیغی جماعت کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے سراسر خانہ زاد قسم کی خبریں چینلوں پر چلائی گئیں ۔ یہ خبریں اتنی شرانگیز تھیں کہ خود پولیس کو ان کی تردید کے لئے سامنے آنا پڑا ۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے بھی پارٹی کیڈر کو یہ ہدایت دی کہ وہ کورونا کے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیں۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے اور کرناٹک کے وزیر اعلیٰ یدی یروپا نے بھی کورونا کی آڑ میں فرقہ واریت پھیلانے والوں کو سخت ایکشن کی وارننگ دی ۔ اس معاملے میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کو بھی دخل دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ تنظیم کے ڈیزاسٹر پروگرام کے ڈائریکٹر مائیکل ریان نے کہا کہ ” اگر کوئی کورونا سے متاثر ہوجاتا ہے تو اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ کورونا کے مریضوں کی درجہ بندی ان کی نسل، مذہب یا عقیدوں کی بنیاد پر نہیں کی جانی چاہئے ۔“ حالات کی ستم ظریفی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی حکومت کے محکمہ صحت کی طرف سے جو یومیہ پریس ریلیز جاری کی جارہی تھی اس میں بھی روزانہ تبلیغی جماعت سے وابستہ مریضوں کی علیحدہ خانے میں تفصیلات فراہم کی جارہی تھیں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر اس ملک میں ایسی کون سی طاقتیں ہیں جو ہر معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر اس کی تباہ کاریوں کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑدیتی ہیں۔ہم اس کی مثال حالیہ واقعات سے دینا چاہیں گے۔پچھلے دنوں جب انتہائی متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مسلم خواتین نے انتہائی منظم اور پرامن تحریک شروع کی اور شاہین باغ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا تو صاحبان اقتدار نے اس تحریک کو بدنام کرنے کے لئے اسے ملک دشمن تحریک قرار دینا شروع کردیا۔ اس میں شامل لوگوں کوغدار وطن قرار دے کر انھیں گولیاں مارنے کی اپیلیں کی جانے لگیں۔ اس انتہائی فاسد پروپیگنڈے اور مسلم دشمنی کا نتیجہ شمال مشرقی دہلی کے مسلم کش فسادکی صورت میں برآمد ہوا اور پچاس سے زیادہ بے گناہوں کو بربریت کے ساتھ قتل کردیا گیا ۔ ہزاروں غریب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے اجاڑ دیا گیا اور ان کا سب کچھ لوٹ لیا گیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے مسلمانوں کو مختلف عنوانات کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اب سے پانچ برس پہلے گائے کشی کی آڑ میں شروع کی گئی موب لنچنگ اب کورونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کی جانیں لے رہی ہے۔ یہ دراصل سنگھ پریوار کے اس ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے۔ ایک ایسا ہندو راشٹر جس میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ فسطائی تنظیمیں ہر موقع پر مسلمانوں کو شکار کرنے اور انھیں خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ ایک ایسے وقت میں بھی جب پوری دنیا کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے لڑنے میں مصروف ہے اور اس خطرناک وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے سماج کے ہر فرد کا تعاون ضروری ہے ہمارے ملک میں موجود فسطائی عناصر انتشار پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ان عناصر کا جب سے زرخرید نیوز چینلوں کے ساتھ اشتراک ہوا ہے تب سے صورت حال خاصی دھماکہ خیز ہو گئی ہے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اس مرتبہ جمعیت علماء اور بعض دیگر لوگوں کی طرف سے ان چینلوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز ہوچکا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان میں سے بعض چینلوں نے خود اپنی ہی خبروں کی تردید کی ہے۔ ان چینلوں کی کھلی مسلم دشمنی کا معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا ہے اور اس بات کی امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید یہ راہ راست پر آجائیں اور اپنی مسلم دشمن روش ترک کردیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسلم مخالف مہم کے خلاف مسلمان پوری ہمت وحوصلے کے ساتھ آگے بڑھیں اور فسطائیت و ضمیر فروش میڈیا کے گٹھ جوڑ کو ناکام بنادیں۔






