معصوم مرادآبادی
مغربی یوپی کا شہر مرادآباد اپنی پیتل صنعت کے لئے دنیا بھرمیں مشہور ہے۔ اسی مناسبت سے مرادآباد کو پیتل نگری بھی کہا جاتا ہے۔لیکن گذشتہ چند روز سے یہ شہر ان پتھروں کی وجہ سے زیادہ پہچانا جارہا ہے، جو وہاں کچھ لوگوں نے طبی عملہ پر برسائے ہیں۔ قرنطینہ میں بھیجے جانے کے خوف سے محلہ نواب پورہ کے لوگوں نے طبی عملہ کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا ہے، اس کی بازگشت بہت دور تک سنائی دی ہے اور اس نازیبا حرکت کی وجہ سے شہر کی بڑی بدنامی بھی ہوئی ہے۔کیونکہ اس وقت کورونا وائرس کے خلاف عالمی پیمانے پر جو جنگ لڑی جا رہی ہے، اس میں ان ڈاکٹروں اور نرسوں کو اصل ہیروز کے روپ میں جانا جارہا ہے جو اس انتہائی مہلک وباکے مریضوں کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔ ایسے میں سبھی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ طبی عملہ کے ساتھ بھرپور تعاون کریں اور اس جنگ میں ان کے دست و بازوبنیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دوران گودی میڈیا کی شر انگیزیوں کے نتیجہ میں ہندوستانی مسلمان اس وبا کو پھیلانے کے اصل ذمہ دار قرار دے دئیے گئے ہیں اور وہ ایک سراسر جھوٹے پروپیگنڈے کے نتیجہ میں خود کو الگ تھلگ محسوس کررہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے تاخیر سے ہی سہی اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے جو اس وبا کو پھیلانے کے سلسلہ میں مذہب اور ذات پات کی بنیادوں پر پیدا کی گئی ہے۔مرادآباد کے نواب پورہ محلہ میں گذشتہ 15 اپریل کو جو کچھ ہوا اس کے اسباب کیا تھے، اس پر ہم آگے چل کر روشنی ڈالیں گے، آئیے پہلے ایک نظر اس مظلوم شہر مرادآباد پر ڈالتے ہیں،جوکانپور کے بعد اتر پردیش کا دوسرا بڑا صنعتی شہر ہے۔
مرادآباد کو اب سے لگ بھگ400برس پہلے 1625میں مغلیہ عہد میں بسایا گیا تھا۔ سنبھل کے گورنر رستم خاں نے اس شہر کو بسانے کے بعد اس کا نام رستم نگر رکھا تھا، لیکن بعد کو اس شہر کا نام شاہجہاں اور ممتازمحل کے سب سے چھوٹے بیٹے شہزادہ مراد بخش کے نام پر مرادآباد رکھا گیا اور تب سے یہ شہر اسی نام سے جانا جاتا ہے۔یوں توآج کل پوری دنیا میں اس شہر کی پہچان ظروف سازی کی وجہ سے ہے لیکن شعروادب کی دنیا میں اسے شہرہ آفاق بنانے کا سہرا حضرت جگر مرادآبادی(متوفی1960)کے سر ہے۔ اس سے قبل 1857کی جنگ آزادی میں مرادآبادنے اس وقت شہرت حاصل کی تھی جب یہاں آزادی کے 16000 متوالوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ان میں ایک نام نواب مجو خاں کا بھی تھا جنھیں آزادی کا پرچم بلند کرنے کی پاداش میں اتنی سخت سزا دی گئی تھی کہ اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ 1857کی جنگ آزادی کی یادگار یہاں کے دومحلے گل شہید اور کٹار شہید بھی ہیں جہاں آزادی کے متوالوں کو چونے میں گلاکر اور کٹاروں سے شہید کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ سرسید احمدخاں نے مسلم یونیورسٹی کا خاکہ اسی شہر میں بنایا تھا اور وہ یہیں اسے قایم بھی کرناچاہتے تھے، لیکن مقامی باشندوں کے عدم تعاون کے سبب ان کا یہ خواب پورا نہیں ہوا۔ سرسیدکی اہلیہ کی آخری آرام گاہ اسی شہر کے محلہ شوکت باغ میں موجودہے۔ اس شہر کی ایک اور نابغہ روزگار شخصیت منشی عبدالقیوم خاں (متوفی1974) کی تھی جو مولانا ابوالکلام آزاد کے خاص رفیق کار تھے۔میرا مقصد یہاں مرادآباد کی تاریخ بیان کرنا نہیں ہے مگر جب کبھی مرادآباد کا ذکر آتا ہے تو میں غیر شعوری طور پر جذباتی ہوجاتا ہوں، کیونکہ خود میں نے بھی اسی شہر میں آنکھ کھولی اور میرا بچپن اور لڑکپن اسی شہر میں گذرا، لیکن اب کوئی چالیس برس سے میں دہلی کا باشندہ ہوں۔مجھے اس بات کا قلق ضرور ہے کہ میرے آباء واجداد کا یہ شہر جو ایک بھرپور تاریخی اور تہذیبی پس منظر رکھتا ہے، اسے تاریخ میں بہت نظر انداز کیا گیا ہے اور آج اس شہر کی ساری رونقیں پیتل، تانبے اور المونیم سے زندہ ہیں۔ ورنہ ایک زمانے میں یہ شہر اپنے علمی، ادبی اور شعری منظر نامے کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا اور یہاں بڑی ذی علم شخصیات قیام کرتی تھیں، جن کا ذکر پھر کسی اور موقع پر کروں گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ظروف سازی کی صنعت نے اس شہر کے لوگوں کو روزگاردیا ہے اور مزدوروں کو دووقت کی روٹی فراہم کی ہے۔لیکن برتن صنعت کے عروج نے یہاں زبردست سماجی ناہمواری بھی پیدا کی ہے۔یہاں کی برتن صنعت پوری طرح دست کاروں پر منحصرہے اور یہاں کے لوگ اپنی ہنر مندی سے اس صنعت کو اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے تنگ وتاریک گلی کوچوں میں گھر گھر کارخانے اورآلودگی پھیلانے والی بھٹیاں لگی ہوئی ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس شہر میں کانپور کے بعد سب سے زیادہ ٹی بی کے مریض پائے جاتے ہیں۔ اربوں روپے کا ایکسپورٹ کرکے کروڑوں روپے سالانہ زرمبادلہ کماکر دینے والا یہ شہر حکومت کی لاپروائی کی زندہ جاوید مثال ہے۔ لگ بھگ پچاس لاکھ آبادی کے اس ضلع میں بنیادی سہولتوں کازبردست فقدان ہے۔صحت کا شعبہ ان میں سب سے زیادہ متاثر ہے۔
اب آئیے ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، جس نے اس وقت مرادآباد کو سرخیوں میں پہنچادیا ہے۔ ہوایوں کہ گذشتہ 15 اپریل کو یہاں کے محلہ نواب پورہ میں ایک ہی گھر کے دولوگوں کی کورونا وائرس سے دردناک موت ہوگئی۔پورا کنبہ غم والم میں ڈوبا ہواتھا کہ اسی دوران میڈیکل ٹیم اور پولیس ان کے گھر والوں کو قرنطینہ میں بھیجنے کے لئے آپہنچی۔ایک ہی گھر کی دو خواتین اپنے شوہروں کی ناگہانی موت کی وجہ سے جہاں ایک طرف غم واندوہ کی تصویر بنی ہوئی تھیں، وہیں ان کے ساتھ یہ مذہبی بندش بھی تھی کہ وہ عدت میں گھر سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔گھر کے دیگر لوگ محلہ کے بزرگوں اور دین دار لوگوں سے صلاح مشورہ کرنا چاہتے تھے، لیکن پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی اور حسب عادت سخت رویہ بھی اختیار کیا۔ادھر شہر میں یہ افواہ بھی اڑی ہوئی تھی کہ جن سینکڑوں لوگوں کو قرنطینہ میں بھیجا گیا ہے، وہ اچھی حالت میں نہیں ہیں۔ محلہ والوں کو یہ خوف بھی ستارہا تھا کہ کہیں آس پڑوس کے لوگوں کو بھی قرنطینہ میں نہ بھیج دیا جائے۔ ان حالات نے مل کر وہ صورت پیدا کردی کہ محلہ والوں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر طبی عملہ اور پولیس پر پتھراؤ شروع کردیا اور کئی لوگ زخمی ہوگئے۔زخمیوں میں طبی ٹیم کا ایک ڈاکٹر بھی شامل تھا۔ یہ خبر نیوزچینلوں کی مدد سے پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ پولیس اور مقامی انتظامیہ نے اس واقعہ پر سخت کارروائی کی۔ سات خواتین سمیت 17 لوگوں کوگرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔200دیگر لوگوں کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ جو لوگ گرفتار ہوئے ہیں، انھیں تعزیرات ہند کی بیس دفعات کے تحت ماخوذ کیا گیا ہے جن میں اقدام قتل کی دفعہ بھی شامل ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طبی عملہ اور پولیس پر پتھراؤ کرکے یہاں کے لوگوں نے ایک بڑی مصیبت مول لے لی ہے۔اب ان میں سے کئی لوگوں کی باقی زندگی عدالتوں کا چکر کاٹنے میں گذرے گی اور انھیں بڑی کٹھنائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے حکم کی تعمیل میں ان پر این ایس اے کے تحت کارروائی کی گئی تو ان کی مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں جبکہ حاکمان وقت نے زرخرید میڈیا کی مدد سے اس ملک میں مسلمانوں کو پوری طرح اچھوت بنادیا ہے تو کیا مسلمانوں کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ وقت اور حالات کی نزاکتوں کو محسوس کرتے ہوئے زیادہ محتاط رویہ اختیار کریں اور ایسا کوئی کام ہرگز نہ کریں جس سے ان کے ازلی دشمنوں کو ان کے خلاف محاذ آرائی کا موقع نہ ملے۔ مرادآباد کا واقعہ ایسا ہے کہ جس کی نہ تو کوئی تاویل پیش کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔ اتنے سخت حالات میں بھی اگر مسلمانوں نے سوجھ بوجھ سے کام نہیں لیا اور نری جذباتیت اور کوتاہ اندیشی کو ہی اپنا شعار بنائے رکھا توآنے والا وقت ان کے لئے ایسی مصیبتوں کا پہاڑ لے کر آئے گا،جس کا وہ مقابلہ نہیں کرپائیں گے۔کیونکہ اب ان کے حق میں اٹھنے والی آوازیں بھی کمزور پڑنے لگی ہیں اور ان کے سیکولر خیر خواہوں نے بھی ان سے کنی کاٹنی شروع کردی ہے۔ ہندوستانی مسلمان اس وقت تاریخ کے سب سے نازک دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس لئے وہ جتنی جلد آنے والے خطرات سے آگاہ ہوجائیں اتنا ہی ان کے حق میں بہتر ہوگا۔






