وبائی صورت حال میں پیش آنے والے چند اہم مسائل (۲)

 شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی 

اعتکاف:

رمضان المبارک کا ایک خصوصی اور اہم عمل اعتکاف ہے، یہ بھی سنت کفایہ ہے، یعنی اگر محلہ میں ایک شخص بھی اعتکاف کر لے تو تمام لوگ ترک سنت کے گناہ سے بچ جائیں گے: ثم اعتکاف العشر الأخیر سنۃ مؤکدۃ علی الکفایۃ (فتح باب العنایہ بشرح النقایہ ۲/ ۲۴۲) بحمد اللہ گزشتہ ۰۲/۵۲/ سالوں سے مسلمانوں میں اعتکاف کا خاص ذوق پیدا ہوا ہے، نوجوان بھی اس میں بہ کثرت شامل ہوتے ہیں، اور بہت سے علماء و مشائخ اس کو اپنے ارادت مندوں کی تربیت کا ذریعہ بناتے ہیں؛ لیکن مسجد میں کئی لوگوں کے معتکف ہونے اور تربیتی اجتماعات منعقد کرنے میں اِس وقت کورونا وائرس کے پھیلنے کا اندیشہ ہے؛ اس لئے یہ بات کافی ہے کہ امام یا مؤذن صاحب یا محلہ کے ایک دو صحت مند لوگ مسجد میں اعتکاف کر لیں اور بقیہ حضرات اپنے گھروں پر رہتے ہوئے تلاوت، استغفار اور دعاء و اذکار کا اہتمام کریں۔

روزہ کا حکم:

اسلام کا ایک اہم رکن روزہ ہے، اور رمضان المبارک کا روزہ فرض ہے، شدید عذر کے بغیر رمضان المبارک میں روزہ چھوڑ دینا جائز نہیں، نیز عذر کا تعلق ہر شخص کے انفرادی حالات سے ہے، چند اشخاص کے معذور ہونے کی وجہ سے پوری آبادی کو معذور قرار نہیں دیا جا سکتا، افسوس کہ اس وقت بعض عرب ممالک کے علماء کی طرف منسوب فتویٰ میڈیا میں گشت کر رہا ہے کہ اس سال رمضان المبارک میں مسلمان روزہ نہ رکھیں؛ کیوں کہ حلق کے خشک ہو جانے کی صورت میں کورونا سے متأثر ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔

اگر واقعی اس طرح کا فتویٰ دیا گیا ہے تو یہ بے حد افسوسناک اور ناقابل قبول ہے، مختلف لوگوں کی قوت مدافعت میں فرق ہوتا ہے، صحت، عمر اور گرمی سے بچنے کے وسائل کی فراہمی کے لحاظ سے لوگوں کے حالات الگ الگ ہوتے ہیں؛ اس لئے عمومی طور پر یہ حکم لگانا درست نہیں ہے، اس سے تو شریعت کا ایک اہم ترین حکم اور دین کا ایک شعار پامال ہو جائے گا؛ اس لئے ایسی باتوں سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے اور روزہ رکھ کر رمضان المبارک کے انوار و برکات سے اپنے دامن کو بھرنا اور تربیت نفس کے اس مؤثر نظام سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔

البتہ دوسری عبادتوں کی طرح روزہ میں یہ رعایت رکھی گئی ہے کہ عذر کی بناء پر روزہ چھوڑ ا جا سکتا ہے، اگر یہ عذر عارضی ہے تو بعد میں روزہ کی قضاء کر لی جائے، اور عذر دائمی ہے تو فدیہ ادا کیا جائے — یہ اعذار کیا ہیں؟ فقہاء نے ان پر تفصیل سے بحث کی ہے، مشہور فقیہ علامہ شامیؒ نے بہ حیثیت مجموعی نو اعذار ذکر کئے ہیں؛ بلکہ آسانی کے لئے ایک شعر میں ان سب کو جمع کر دیا ہے (دیکھئے: ردالمحتار: ۳/۲۰۴، مفصل فی العوارض المبیح) ان اعذار میں ایک بیماری بھی ہے، بیماری کے سلسلہ میں یہ تفصیل ہے کہ:

۰ یا تو پہلے سے بیمار ہواور روزہ رکھنے کی صورت میں بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو: أو مریض خاف الزیادۃ لمرضہ (در مختار:۹۴۱) اور مرض کے بڑھنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ شفایاب ہونے میں تاخیر کا اندیشہ ہو، کسی عضو کے ضائع ہو جانے کا ڈر ہو، یا آنکھ یا سر میں شدید درد کا خطرہ ہو: أوبطاء البرء ……. صداعا أو غیرہ (ردالمحتار: ۴۹)، ظاہر ہے یہی حکم دوسری جسمانی تکلیف کا بھی ہوگا۔

۰ یا پہلے سے تو بیمار نہ ہو، صحت مند ہو؛ لیکن روزہ رکھنے کی صورت میں بیمار پڑ جانے کا خطرہ ہو: وصحیح خاف المرض (ردالمحتار: ۲/۲۲۴)

۰ مریض کا تیماردار یا معالج ہو، روزہ رکھے تو اس ذمہ داری کو ادا نہیں کر سکتا: ومثلہ ما إذا کان یمرض المرضیٰ (ردالمحتار: ۲/۲۲۴)، اس حکم میں وہ ڈاکٹر اور نرس بھی ہوں گے، جن کو روزہ رکھ کر اپنے فرائض انجام دینے میں بیمار پڑ جانے کا اندیشہ ہو۔

۰ مرض بڑھنے کے خوف یا بیمار پڑ جانے کے خوف میں صرف موہوم خطرہ اور اندیشہ ہائے دور دراز کا اعتبار نہیں؛ بلکہ یہ اندیشہ غالب گمان کے درجہ میں ہو، اس طرح کہ یا تو اس کے قرائن و علامات ہوں، یا پہلے کا تجربہ ہو، یا کسی ماہر مسلمان طبیب نے بتایا ہو،: بغلبۃ الظن بأمارۃ أوتجربۃ أو بأخبار طبیب حاذق مسلم مستور (در مختار:۹۴۱) البتہ یہ ضروری نہیں کہ وہ خود ہی اس تجربہ سے گذرا ہو، دوسرے مریض کا تجربہ بھی معتبر ہوگا: ولو کانت من غیر المریض عند اتحاد المرض (در مختار و ردالمحتار: ۳/۴۰۴)

فقہاء کی ان تصریحات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:

الف : اگر کوئی مریض اس حالت میں پہنچ گیا کہ کورونا کا اثر اس پر شروع ہو چکا ہے، جیسے مسلسل خشک کھانسی یا تیز تنفس تو اس کو روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔

ب : اگر کسی شخص میں ابتدائی علامات ہوںاور  ٹیسٹ کرنے پر وہ پازیٹیو نکلا تو اس کا روزہ نہ رکھنا درست ہوگا۔

ج : اگر عمر کی زیادتی یا پہلے سے موجود بیماری کی وجہ سے کسی شخص کی قوت مدافعت بہت کم ہوگئی ہو اور ڈاکٹر کی رائے ہو کہ موجودہ حالات میں روزہ رکھنا اس کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے، تو اس کے لئے بھی روزہ نہ رکھنا درست ہوگا۔

د : ڈاکٹر اور نرس، جن کے متأثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور موجودہ حالات میں ان کو طویل اور مسلسل ڈیوٹی دینی پڑرہی ہے اور وہ بھی کورونا سے متأثر مریضوں کے درمیان، اگر ڈاکٹر مشورہ دے، یا اپنے علم و تجربہ کی بناء پر وہ خود محسوس کریں کہ دن بھر بھوکا پیاسا رہنا ان کے لئے اس مرض سے متأثر ہونے کا سبب بن سکتا ہے تو ان کے لئے بھی فی الحال روزہ چھوڑ دینا جائز ہے۔

لیکن بہر حال لوگوں کے انفرادی حالات کے اعتبار سے ان کے معذور ہونے کا فیصلہ ہوگا، اور عذر کی بناء پر روزہ نہ رکھنا جائز ہوگا، یہ درست نہیں ہے کہ جو لوگ ان تفصیلات کے مطابق معذورکے دائرہ میں نہیں آتے ہیں، وہ بھی بے بنیاد خوف کا سہارا لے کر روزہ نہ رکھیں۔

گھر کی جماعت میں خواتین کی شرکت:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین بھی مسجد کی جماعت میں شریک ہوا کرتی تھیں؛ لیکن آپ نے تلقین کی تھی کہ ان کا گھر میں نماز ادا کرنا بہتر ہے: وبیوتھن خیر لھن (مسند احمد عن ابن عمر: ۲/۸۵۱) کیوں کہ ان کے مسجد جانے میں فتنہ کا اندیشہ ہے، فقہاء نے بعد کو جب لوگوں میں بڑھتا ہوا اخلاقی زوال دیکھا تو منشاء نبوی کو سامنے رکھتے ہوئے عورتوں کے مسجد میں جانے کو مکروہ قرار دے دیا؛ لیکن اس کا تعلق مسجد کی جماعت میں شرکت کرنے سے ہے؛ کیوں کہ اس میں فتنہ کا اندیشہ بڑھا ہوا ہے: ویکرہ للنساء حضور الجماعات لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: بیوتھن خیر لھن؛ لما فیہ من خوف الفتنۃ (الاختیار لتعلیل المختار: ۱/۷۵) اس کا تعلق گھر میں ہونے والی جماعت سے نہیں ہے؛ لہٰذا اگر گھر میں مرد نماز پڑھائے، اس کی بیوی، بیٹے، بیٹیاں اور دوسرے محرم رشتہ دار نماز میں شامل ہو جائیں تو اس کی گنجائش ہے، خاص کر نماز تراویح میں اگر گھر کا کوئی مرد حافظ ہو، یا اس کو قرآن پاک کا زیادہ حصہ یاد ہو، وہ نماز پڑھائے اور عورتیں بھی اس کے ساتھ نماز میں شامل ہو جائیں تو چوں کہ اس میں فتنہ کا اندیشہ نہیں ہے؛ اس لئے اس کی گنجائش ہے۔

البتہ فقہاء نے عہد نبوی کے معمول کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ترتیب مقرر فرمائی ہے کہ امام کے پیچھے پہلے بالغ مردوں کی صف ہو اور اگر ایک ہی مرد ہو تو وہ امام کے دائیں طرف کھڑا ہو جائے، اس کے پیچھے نابالغ بچوں کی صف ہو، اور بچوں کے پیچھے خواتین کی، علامہ بدالدین عینیؒ فرماتے ہیں: ویصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء ھذا ترتیب القیام خلف الامام (البنایۃ: ۲/۸۰۳)

آخری مرحلہ:

کورونا وائرس سے متأثر ہوکر جن لوگوں کی موت ہو جائے، ان سے متعلق خصوصی احتیاط کی ضرورت پیش آتی ہے، اس احتیاط کا تعلق سب سے زیادہ غسل سے ہے، کہا جاتا ہے کہ اگر میت کو معمول کے طریقہ پر غسل دیا جائے تو اس سے غسل دینے والے کے بھی متأثر ہونے کا اندیشہ ہے، اور وائرس کے پھیلاؤ کا بھی خطرہ ہے؛ لہٰذا اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ مردہ کے جسم پر صرف پانی بہا دیا جائے، جسم مَلا نہیں جائے، اس طرح پانی کا بہانا پائپ کے ذریعہ بھی ہو سکتا ہے؛ چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر لاش اس قدر پھول پھٹ گئی ہو کہ ہاتھ لگانا دشوار ہو تو صرف پانی بہا دینا کافی ہے: ولو کان المیت متفسخا یتعذر مسحہ کفی صب الماء علیہ (الفتاویٰ الھندیۃ: ۱/ ۸۵۱) اور اگر یہ بھی دشوار ہو تو جیسے زندہ شخص کے حق میں تیمم غسل کے قائم مقام ہے، اسی طرح میت کے حق میں بھی ہے (البنایہ: ۳۱/۴۳۵)؛ لہٰذا اپنے ہاتھ میں حفاظتی غلاف پہن کر مٹی پر ہاتھ مار کر مردہ کے چہرہ اور ہاتھ پر پھیر دے، یہ کافی ہو جائے گا۔

دوسرا مسئلہ کفن کا ہے، کفن کے سلسلہ میں ایک تو سنت طریقہ ہے، جس کے مطابق مرد کو تین کپڑوں میں کفن دیا جاتا ہے اور عورت کو پانچ کپڑوں میں، اگر ڈاکٹر کی طرف سے اجازت ہو تو اس پر عمل کیا جائے؛ اگر لاشیں حوالہ نہ کی جائیں اور اس بات کی سہولت ہو کہ کفن کے کپڑے ہاسپیٹل کے حوالہ کر دئیے جائیں اور وہ اسی ترتیب پر کفن پہنا دے تو یہ بہتر صورت ہوگی؛ لیکن اگر اس کا موقع نہیں ہو، اور ہاسپیٹل کی طرف سے ہی لاش کپڑے میں لپیٹ کر دی جاتی ہو اور حکومت کی طرف سے اسی طرح اس کو دفن کرنے کا حکم ہو تو اس صورت میں جس کپڑے میں لپیٹا گیا ہے، وہی اس کا کفن ہے اور یہ کافی ہو جائے گا؛ کیوں کہ اس درجہ کا کفن ضروری ہے، جس سے میت کا جسم ڈھک جائے، اور ستر کے تقاضے پورے ہو جائیں، اس پر فقہاء کا اتفاق ہے: اتفق الفقہاء علی أن تکفین المیت بما یسترہ فرض علی الکفایۃ (الموسوعۃ الفقھیۃ ۳۱/ ۷۳۲)

نماز جنازہ:

نماز جنازہ کے سلسلہ میں یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ بعض جگہ غسل دئیے بغیر تابوت میں لاش رکھ کر تابوت حوالہ کیا جاتا ہے اور کھولے بغیر تابوت کو دفن کرنے کا حکم ہوتا ہے، اس صورت میں اہم سوال یہ ہے کہ نماز جنازہ سے پہلے مردہ کو غسل دینا واجب ہے؛ کیوں کہ موت بھی جسم کے ناپاک ہونے کا ایک سبب ہے اور غسل کے ذریعہ اس کا جسم پاک ہوتا ہے اور پاک ہونے کے بعد ہی اس پر نماز پڑھی جانی چاہئے، تو اس صورت کے دو حل ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ اسی تابوت پر نماز جنازہ پڑھی جائے؛ کیوں کہ فقہاء شوافع کے نزدیک اگر کسی مردہ کو غسل دینا ممکن نہ ہو تو بغیر غسل کے بھی اس پر نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، یہ رائے متأخرین شوافع کے علاوہ بعض مالکیہ اور حنابلہ کی بھی ہے: ذھب ابن حبیب من المالکیۃ والحنابلۃ وبعض المتأخرین من الشافعیۃ إلی أنہ یصلی علیہ مع تعذر الغسل والتیمم (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۲/۹۱۱) اور ایسی دشواریوں کے موقع پر دوسرے فقہاء کی رائے سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

دوسرا حل یہ ہے کہ تدفین کے بعد قبر پر نماز پڑھ لی جائے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی خدمت کرنے والی ایک خاتون کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی ہے، فقہاء احناف نے بھی لکھا ہے کہ اگر غسل دئیے بغیر مردہ کو دفن کر دیا گیا اور دوبارہ لاش نکال کر غسل دینا ممکن نہ ہو تو قبر پر نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے …. وإن لم یمکن بأن دفن قبل الغسل ولم یمکن اخراجہ إ لا بالنیش تجوز الصلاۃ علی قبرہ للضرورۃ (فتاویٰ ہندیۃ: ۱/۲۴۱)

ابھی چند دن پہلے مشرقی علاقہ سے ایک خبر آئی کہ کورونا مریض کی لاش ورثاء کو حوالہ نہیں کی گئی اور حکومت کے ادارہ نے دفن بھی کر دیا، یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ قبر کہاں بنی؟ ایسی صورت میں کیا حکم ہو سکتا ہے، محب گرامی حضرت مولانا سید عبید اللہ اسعدی (شیخ الحدیث جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ) سے تبادلۂ خیال ہوا اور اس بات پر اتفاق ہوا کہ اگرچہ احناف غائبانہ نماز جنازہ کے قائل نہیں ہیں؛ لیکن دوسرے فقہاء اس کی اجازت دیتے ہیں؛ اس لئے ایسے حالات میں اس رائے پر عمل کیا جا سکتا ہے، اور غائبانہ نماز ادا کی جا سکتی ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی پر نماز جنازہ پڑھی ہے، احناف اس استدالا ل کا یہی جواب دیتے ہیں کہ چوں کہ حبش میں مسلمان نہیں تھے، اور وہاں ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جا سکی تھی؛ اس لئے غائبانہ نماز ادا کی گئی، تو جو صورت اِس وقت در پیش ہے، وہ بھی ایسی ہی ہے؛ اس لئے جس درجہ میں ہو سکے، دنیا سے جانے والے مسلمان بھائی کا حق ادا کیا جانا چاہئے؛ کہ نماز جنازہ جانے والے کا زندہ رہنے والوں پر حق ہے۔

حکومت کی طرف سے اس بات کی بھی ہدایت کی گئی ہے کہ جنازہ میں زیادہ لوگوں کی شرکت نہ ہو، چند افراد نماز پڑھ لیں؛ چوں کہ یہ حکم موجودہ حالات کی بناء پر ہے اور اس میں انسانی زندگی کا تحفظ مقصود ہے؛ اس لئے قانون پر عمل کرنا چاہئے، نماز جنازہ کے لئے خاص تعداد تو کجا جماعت بھی شرط نہیں ہے، اگر تنہا ایک شخص پڑھ لے تب بھی نماز ادا ہو جائے گی: والصلاۃ علی الجنازۃ تنعقد بأداء الامام وحدہ؛ لأن الجماعۃ لیست بشرط الصلاۃ علی الجنازۃ (فتاویٰ ہندیہ: ۱/۲۴۱)؛ لہٰذا اگر حکومت نے دس افراد تک کی اجازت دی ہے، جیسا کہ اخبارات سے معلوم ہوا ہے تو اس کی رعایت کرنی چاہئے۔

دفع مصیبت کے لئے اذان:

اذان کا اصل مقصد نماز کی اطلاع دینا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں سخت قسم کا طاعون پھیل گیا تھا؛ لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ صحابہ نے دفع مصیبت کے لئے اذان دی ہو، اور نہ وبائی امراض کے لئے کوئی خصوصی نماز ثابت ہے؛ اس لئے احناف کے نزدیک اس موقع پر اذان نہیں ہے، ہاں زیادہ سے زیادہ توبہ واستغفار کیا جائے، صدقہ کیا جائے، سورہ یٰس کی تلاوت کر کے دعاء کی جائے اور نماز حاجت پڑھی جائے، جو کسی بھی حاجت کی تکمیل کے لئے پڑھی جانے والی نماز ہے اور حدیث سے ثابت ہے۔

البتہ فقہاء شوافع نے مصیبت وغیرہ کے موقع پر اذان دینے کی اجازت دی ہے: وکذا یندب الأذان وقت الحریق و وقت الحرب و خلف المسافر و فی أذن المھموم والمصروع الخ (الفقہ علی مذاہب الاربعہ: ۱/۵۹۲) ملک کے موجودہ حالات میں جب کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے بہانے تلاش کئے جا رہے ہیں، ایسی چیزوں سے بچنا بہتر معلوم ہوتا ہے۔