کورنا وائرس، لاک ڈاؤن: عمل و محاسبہ اور کارخیر کا ایک نادر موقعہ

 پروفیسراخترالواسع

 کورونا کی زہرناک ہواؤں نے مشرق ومغرب اور شمال وجنوب بلکہ کائنات کے بیشتر حصہ کو اپنی زد میں اس طور پر لے لیا ہے کہ انسانوں کو اپنوں کے کھونے پر نہ رونے اور آنسو بہانے کا موقع ہے اور نہ مرحومین کی آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت ہے۔ ہر چہار جانب اس وبائی مرض نے خوف کی ایسی چادر تان دی ہے کہ سائنس وتکنیک اور صحت کے میدان کے سورماؤں کو بھی سرنگوں ہونا پڑا ہے۔ ایسی ہیبت ناک صورتحال میں بھی اگر غور سے دیکھا جائے تو اس وبائی مرض کے نتیجے میں عالمی سطح پر جو تالابندی ہوئی ہے اور لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں قید ہونا پڑا ہے وہ بھی ایسا موقع ہے جسے ہم عمل و محاسبہ کا ایک موقع اور اللہ کی نعمت تصور کرسکتے ہیں۔ 

 پوری سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا جیسی وبا کے نتیجے میں لوگوں کا گھروں میں محبوس ہونا بھی ایک رحمت ہے کیونکہ اس صورتحال نے ہمیں اپنوں سے بے حد قریب کر دیا ہے۔ یاد کیجئے اب سے قبل ہر شخص مصروف تھا، کسی کو آفس کی مصروفیات تو کسی کو اپنے کاروبار کی فکر، گھر آکر بھی لوگ سکون سے نہیں بیٹھتے تھے، بلکہ دفتر اور کاروبار کی فکر، اپنے بزرگ والدین، چھوٹے بچوں، بھائی بہنوں، دیگر رشتہ داروں یہاں تک کہ شریک حیات سے بھی اطمینان وسکون سے بات چیت کا موقع نہیں تھا، ان کے دکھ درد، ان کے مسائل اور ان کی خواہشات کو بھی کبھی ہم نے سننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور اس طرح انسان مکالمے کی لذت سے محروم ہو گیا تھا۔ جب کہ مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ اپنے اہل و عیال کی دلجوئی اور بچوں کی تربیت عین اسلامی فریضہ ہے۔ اسلامی تاریخ میں بے شمار واقعات ملتے ہیں، صحابہ اور تبع تابعین کس طرح اپنے گھروں میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ وقت گزارتے تھے اور کسی طرح اپنے بچوں کی تربیت کیا کرتے تھے۔ خود صحابی رسول حضرت عمرفاروقؓ گھر سے باہر حکمراں ہوتے تھے مگر گھر میں داخل ہوتے ہی بچوں سے بچوں جیسا اور دیگر اہل خانہ سے ان جیسا سلوک کیا کرتے تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں لاک ڈاؤن نے ایک موقع دیا ہے کہ ہم بیوی وبچوں کے درمیان بہتر وقت گزاریں اور اپنی خانگی زندگی کی تجدید کریں۔

 لاک ڈاؤن نے ہمارے لیے دوسرا رحمت کا موقع یہ عنایت کیا ہے کہ ہر مسلمان کا گھر مسجد میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اکثر گھروں میں نماز نہیں ہوتی تھی اور عام طور پر کوئی شخص سجدہ ریز نہیں ہوتا تھا مگر لاک ڈاؤن کے درمیان کوئی بھی مسلمان گھر ایسا نہیں ہے جہاں اللہ کے حضور کوئی نہ کوئی سجدہ ریز نہ ہوتا ہو۔ اللہ نے یہ بہترین موقع عنایت کیا ہے اور ہم اس موقع کا فائدہ اٹھاکر اپنے گھروں میں نہ صرف فرض بلکہ نوافل نمازوں کا بھی اہتمام کر رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ اوراد و وظائف میں مشغول ہیں۔ عام دنوں میں بھی حکم ہے کہ فرض نماز مسجد میں باجماعت ادا کی جائے اور سنن و نوافل گھروں میں ادا کیے جائیں۔ خود نبی کریم کے لفظوں میں ” اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ ۔ “ دوسری طرف تنہائی کی جو نماز ہوتی ہے اس کی بے پناہ اہمیت ہے۔ اس لیے کہ انسان تنہائی میں اللہ کے سامنے روتا، گڑگڑاتا ہے اور اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہے، نیز انسان اپنے ذاتی نوعیت کے رازونیاز کی باتیں اللہ سے کرتا ہے، یہ ادا اللہ کو بے حد پسند ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں جو عبادت کا موقع مل رہا ہے وہ بھی اللہ کی جانب سے ہی ایک رحمت وباعث برکت ہے۔

 لاک ڈاؤن کے نتیجے میں تیسری بات جو سامنے آئی ہے وہ بھی نہایت اہم اور خیر کا پہلو رکھتا ہے۔ یاد کیجئے کہ ماحولیاتی آلودگی اور کثافت کو دور کرنے کی کئی عالمی مہم چلیں مگر اس میں پوری کامیابی حاصل نہ ہوسکی، ساری دنیا کی مختلف طرح کی کوششیں اور ترکیبیں ناکام ثابت ہوئیں مگر جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں شاہراہوں پر رفتار اور دھوئیں کا بوجھ کم ہوا ہے اس کے بعد ماہرین کہتے ہیں کہ شہروں سے ماحولیاتی کثافت پچاس فیصد ختم ہوگئی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کل کارخانے بند ہیں، شاہراہوں پر محدود گاڑیاں ہیں، انسانوں کا ہجوم بھی کافی کم ہے جس کی و جہ سے ماحول بدل گیا ہے، آپ ان دنوں جس طرح نیلے آسمان کی چمک صاف طور پر دیکھ سکتے ہیں ویسا ماضی قریب میں نظر نہیں آتا تھا، آسمان پر جھلملاتے ستاروں کا خوبصورت نظارہ کرسکتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ آپ کھلی فضاؤں میں صاف ستھری سانس لے سکتے ہیں اور ایک نئی تبدیلی محسوس کرسکتے ہیں۔ لاک ڈاﺅن ماحولیاتی آلودگی کے لحاظ سے بھی رحمت بن کر آیا ہے اور یہ سبق بھی دے رہا ہے کہ انسانوں کو ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

 لاک ڈاؤن جہاں رحمت بن کر آیا ہے وہیں اس کے منفی اثرات نے بھی انسانوں کی زندگی میں طرح طرح کی مشکلات پیدا کردی ہیں، خاص طور پر دہاڑی مزدوروں اور چھوٹے ومتوسط طبقے کے لوگوں کی زندگی میں کئی طرح کی پریشانیاں رونما ہوگئی ہیں جن کے تدارک کے لیے ہمیں غور کرنا چاہیے۔ اسی طرح سماج میں جو تنظیمیں اور ادارے خیر و فلاح کے امور انجام دیتے تھے ان کے سامنے بھی کئی طرح کی پریشانیاں منھ کھولے کھڑی ہوگئی ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں دینی مدارس و مکاتب بے پناہ مشکلات کا شکار ہیں، کیونکہ مدارس اپنا سالانہ بجٹ ماہ رمضان المبارک میں ہی اپنے صاحبان خیر کے تعاون سے وصول کرتے تھے مگر ماہ رمضان المبارک میں لاک ڈاﺅن کی وجہ سے ان کی اقتصادی چولیں ہل گئی ہیں۔ مدارس ومکاتب کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، فکرمندی کی بات یہ ہے کہ آخر یہ مدارس و مکاتب آئندہ کس طرح چلیں گے؟ مدارس کے ساتھ کچھ ایسے عصری ادارے بھی ہیں جو عوامی تعاون پر چلتے ہیں ان کے سامنے بھی کئی طرح کے مسائل منھ کھولے کھڑے ہیں۔ اس موقع پر میں تمام اہل خیر سے اپیل کروں گا کہ وہ ایسے تمام مدارس و مکاتب کے اکاؤنٹ میں تعاون کی رقم آن لائن بھیجیں تاکہ مدارس مایوسی اور حرماں نصیبی کے دلدل سے باہر آسکیں کیوں کہ مدارس اسلامیہ ہماری مذہبی وجود کی شہ رگ ہیں اور انہوں نے ہمارے مذہبی شناخت کو برقرار رکھنے اور دینی تعلیمات سے واقفیت پیدا کرنے میں محوری رول انجام دیا ہے۔اور سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے ہندوستان کو اسپین بننے سے بچا لیا اور اس لیے مدارس اور مکاتب کی مدد کرنا ہمارا فرض بھی ہے اور ہم پر ان کا قرض بھی۔

 اسی طرح ایک طبقہ مساجد سے وابستہ ائمہ، مو¿ذنین اور خدام کا بھی ہے جن کی تعداد ہندوستان میں لاکھو ں میں ہے، لاک ڈاؤن نے انہیں بھی متاثر کیا ہے، ان کی اقتصادی حالت پہلے سے ہی کافی خراب ہے، ماہ رمضان المبارک میں تحفہ وتحائف سے ان کی سال بھر کی خریداری ہو جایا کرتی تھی مگر اس سال وہ ان ہدیوں سے بھی محروم رہیں گے، اس لیے اہل خیر اور صاحب دل افراد لو گوں کو اس طبقہ کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ وقف بورڈ سے وابستہ مساجد کے ائمہ و مؤذنین کے لیے حکومت کو کوئی ایڈوائزری جاری کرنی چاہیے جس میں ہر امام و مؤذن کو کم ازکم پندرہ ہزار روپے خصوصی پیکیج دیا جائے تاکہ وہ بھی مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے بچوں کے چہروں پر مسکان بکھیر سکیں۔

 ماہ رمضان صبرورضا اور خوشیوں کا مہینہ ہے اور عید کی خوشی اس کی منتہا ہے لیکن اس سال وبائی مرض نے پوری دنیا کی صورتحال بدل کر رکھ دی ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کے لیے کہ وہ ماہ رمضان المبارک میں جس جوش وخروش کے ساتھ عبادت کیا کرتے تھے ویسا نہ کرسکے، نہ افطار کی چہل پہل، نہ سحری کی بار رونق راتیں، نہ مساجد میں نورانی مجلسیں اور نہ ہی شب قدر و اعتکاف کی تیاری، ایسے حالات میں ہم کس طرح عید کی خوشیاں منا سکتے ہیں؟ اس لیے اس سال لاک ڈاؤن میں ہم اپنے گھروں میں موجود پہلے سے جو بہتر کپڑے ہوں اسی کو پہن کر عید منائیں۔ عید کے موقع پر جو خریداری ہم ہر سال کیا کرتے تھے اس کو اس سال ترک کردیں۔ عام دنوں میں بھی ہمیں اسراف سے پرہیز کرنا چاہیے لیکن فی زمانہ ہمیں اسراف سے کلی طور پر پرہیز کرنا چاہیے اور ان پیسوں کا استعمال ہمیں لاک ڈاؤن سے متاثرہ غریب افراد کی مدد کے لیے کرنا چاہیے۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)