کیا شوال کے روزے مکروہ یا بدعت ہیں؟

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

سوال:
عید الفطر کے اگلے دن سے میں نے روزے رکھنے شروع کر دیے _ اس لیے کہ میں نے کہیں پڑھ رکھا تھا کہ شوال کے 6 روزوں کی فضیلت آئی ہے _ لیکن میرے ایک دوست نے ایک کتاب بھیج دی ، جس میں لکھا ہوا ہے ہے : ” امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک شوال کے چھ روزے مکروہ ہیں _ امام مالک نے تو ان کو بدعت کہا ہے _ فقہ حنفی کی تمام کتابوں میں انہیں مکروہ لکھا گیا ہے _ امام بخاری نے اپنی کتاب میں تمام روزوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ، لیکن شوال کے روزوں کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے _” اس سے میں بڑی الجھن میں پڑ گیا ہوں _ کیا کروں؟ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں _

جواب:
شوال کے 6 روزوں کی فضیلت صحیح حدیث سے ثابت ہے _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے : ” جس نے رمضان کے بعد شوال کے 6 روزے رکھے اس نے گویا پورے سال کے روزے رکھے _”

یہ حدیث صحیح بخاری میں نہیں ہے تو کیا ہوا ، صحیح مسلم (1164) میں تو ہے ، جس کا پایہ بخاری سے کم نہیں ، اس کے علاوہ ابوداؤد (2433) ، ترمذی(759) ، ابن ماجہ (1716) ، دارمی (1795) ، مسند احمد (23533، 23556 ،23561) اور دوسری کتابوں میں آئی ہے _

اس لیے کسی امام ، چاہے وہ امام ابو حنیفہ ہوں یا امام مالک ، کا شوال کے 6 روزوں کو مکروہ یا بدعت قرار دینا قابلِ قبول نہیں ہے _

عید کے دن روزہ رکھنا جائز نہیں _ یہ روزے عید کے اگلے دن سے رکھے جاسکتے ہیں اور کچھ وقفہ کرکے بھی _ مسلسل رکھے جاسکتے ہیں اور الگ الگ بھی کہ کسی دن روزہ رکھا جائے ، اس کے بعد دو ایک دن نہ رکھا جائے ، پھر رکھ لیا جائے _

ظاہر ہے ، یہ نفلی روزے ہوں گے _ رکھے جائیں تو اجر ملے گا ، نہ رکھے جائیں تو کوئی گناہ نہ ہوگا _

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں