کیا ہماری غیرت مرچکی ہے؟

محمد امثل حسین گلاب مصباحی

(فیض پور، سیتامڑھی)
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
ہمیں اس کا تو بہت افسوس ہے کہ ، ہم کتنے دنوں سے باہر نہیں نکل رہے ہیں اور پتا نہ کس کس چیز کا افسوس ہے، مگر اس کا افسوس نہیں کہ مسلسل چھ سات جمعہ پڑھنے سے ہم محروم ہیں، کتنے دنوں سے ہم مسجد میں نماز باجماعت ادا نہیں کر پا رہے ہیں۔ کیا یہی اسلامی غیرت ہے؟ کیا یہی دینی حمیت ہے؟ کیا یہی اسلام کی محبت ہے؟ ہماری غیرت دیکھیے نا کہ جو جی میں آۓ خواہ وہ تحریر ہو یا تصویر ہم شیئر کرتے رہتے ہیں مگر مدارس اسلامیہ کی اپیل کو پھیلانا تو بہت دور، نہ جانے ہم میں کتنے ایسے ہیں جو اسے پڑھتے بھی نہیں۔ جب کہ اپنی اور دین کی خیر خواہی کے لیے مدارس اسلامیہ کی اپیل کو شائع کرنا ’تعاونوا علی البر و التقویٰ‘ کے تحت باعث اجر و ثواب بھی ہے، مگر پھر بھی اس کی طرف رغبت نہیں۔ کیا یہی دینی وغیرت ہے؟ کل جب این آرسی کے خلاف احتجاج ہورہا تھا،اور کچھ دنوں مدارس اسلامیہ کے دانشوران کسی وجہ سے خاموش رہے، تو کچھ لوگ کہے رہے تھے کہ اشرفیہ کیوں خاموش ہے؟ امجدیہ کیوں چپ ہے؟ جامعۃ الرضا سے کیوں آواز بلند نہیں ہورہی ہے؟ یہ وہ لوگ تھے جو عقیقہ کو حقیقہ کہتے ہیں۔ قَبِلتُ کو کبلت پڑھتے ہیں۔ نماز عیدین اور نماز جنازہ بغل والے کو دیکھ کر پڑھتے ہیں۔ کیا آج یہ مدارس اسلامیہ کی اپیل کو پڑھ بھی نہیں سکتے؟ ان کے لیے ایک اعلان بھی نہیں کرسکتے؟
ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ مدارس اسلامیہ دین حنیف اور شرع شریف کے عظیم قلعے ہیں، لہلاتی شاخیں ہیں، جن کی حفاظت اور جن کی آبیاری اور آبپاشی ہمارا قومی فریضہ ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مدارس اسلامیہ کی ترقی ، ہماری ترقی ہے۔ دین کی ترقی ہے، اور ان کی تنزلی، ہماری تنزلی ہے۔ لہٰذا مدارس اسلامیہ کی ہر ممکن مدد کر کے ہمیں دینی حمیت و غیرت کا ثبوت دینا ہوگا۔ ورنہ ۔۔۔ ورنہ کیا، زبردستی تھوڑی ہے، خود ہی ایک دن اپنے کیے کی جزا پائیں گے۔ جو جیسا کرے گا ویسا پاۓ گا۔
واضح رہے کہ ہم آپ روپے پیسے سے بھی مدارس اسلامیہ کی مدد کرسکتے ہیں اور اس میں ہمارا آپ کا ہی نفع اور بھلا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
’وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍفَلِاَنْفُسِكُمْؕ ‘ (آل عمران۔ ٢٧٢)
اور تم جو اچھی چیزخرچ کرو تو وہ تمہارے لئے ہی فائدہ مند ہے ۔
ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
’وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ ‘ (آل عمران: ۲۷۲)
اور جو مال تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پوراپورا دیا جائے گا ۔
ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
’ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ ‘ (البقرة: ١٩٧) اور تم جو بھلائی کرو اللہ اسے جانتا ہے۔
ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
’ وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِؕ ‘ ( البقرة: ۱۱۰)
اور اپنی جانوں کے لئے جو بھلائی تم آگے بھیجو گے اسے اللہ کے یہاں پاؤگے ۔
ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
’ یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا ‘ (آل عمران: ٣٠)۔ (یاد کرو) جس دن ہر شخص اپنے تمام اچھےاعمال اپنے سامنے موجود پائے گا۔
ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
’ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْؕ ‘ (التغابن: ١٦)
تو اللہ سے ڈرو جہاں تک تم سے ہوسکے اور سنو اور حکم مانو اور راہِ خدا میں خرچ کرو یہ تمہاری جانوں کے لیے بہتر ہو گا
اور ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے۔
ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
’ وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَیْرًا وَّ اَعْظَمَ اَجْرًاؕ ‘ (المزمل )
اور اپنے لیے جو بھلائی تم آگے بھیجو گے اسے اللہ کے پاس بہتر اور بڑے ثواب کی پاؤگے۔
بہر حال جو کچھ مال راہ خدا میں ہم خرچ کریں ، تو اس سے ہمارا ہی فائدہ ہے۔ دنیا میں بھی اور عقبی میں بھی۔
اور اگر ہمارے پاس پیسے نہیں تو دوسروں کو اس کی طرف رغبت دلاکر بھی ہم مدارس اسلامیہ اور مظلوموں کی مدد کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ہمارے لیے نفع بخش اور مفید ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔ ” الدال علی خیر کفاعلہ “ اور امام ترمذی کی روایت میں یوں ہے ” من دل علی خیر فلہ مثل اجر فاعلہ “ اور امام مسلم نے یوں روایت کیا ’ من دل علی خیر فھو کفاعلہ ‘ یعنی خیر کی طرف رہنمائی کرنے والا، خیر اور نیکی کی طرف رغبت دلانے والا، نیکی کا کام کرنے والے کی طرح ہے۔ اس مضمون کی کئی حدیثیں صحاح ستہ میں موجود ہیں۔ ان سب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے مدارس اسلامیہ کے تحفظ کے لیے ، اپنی اور قوم کی بقا اور فلاح کے لیے، دینی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں ان کی ہرممکن مدکرنی ہوگی۔
آج اس ایمرجنسی اور لاک ڈاؤن کے زمانے میں بھی خود ہم اہل ایمان کے یہاں برائیاں عروج پر ہیں، بےحیائی اور برے کام کاموں پر فخر کیا جارہا ہے، فحش باتوں کا پھیلانا باعث افتخار سمجھا جارہے ہے، لہو و لعب میں تو پہلے سے زیادہ اس بندی کے دنوں میں اضافہ ہوا ہے، ہم نے تو دیکھا کہ ایک آدمی اکیلے ہی لیڈو کھیل رہا ہے: ؎
آہ رے اسلام!ترے چاہنے والے نہ رہے
جن کا تو چاند تھا افسوس وہ ہالے نہ رہے
ایک تو برائی اور بےحیائی کا کام – معاذ اللہ – پھر اس کو پھیلانا اور شیئر کرنا، کیا یہی ایمانی غیرت ہے؟ کیا یہی دینی حمیت ہے؟ این آر سی قانون کے پاس ہونے سے پہلے ہم پر کئ طرح کی عظیم مصیبتیں آئیں، جن میں ہمارا کافی جانی و مالی نقصان بھی ہوا، پھر مذکورہ بل کے خلاف احتجاج میں بھی بہت سی جانیں گئیں اور بہت سے اموال بھی برباد ہوۓ، اور اب اس ایمرجنسی کے زمانے کا نقصان بالکل نگاہوں کے سامنے ہے۔ ان سب کے باوجود اپنے دین کے متعلق ہماری غفلتیں بڑھتی جارہی ہیں، اتنے عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے باوجود ہمارے دلوں میں خوف خدا نہیں آیا، ایسی ایسی عظیم بلاؤں میں گرفتار ہونے کے باجود ہم سب مل کر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں سفارش کی درخواست نہیں پیش کررہے ہیں کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے ، ہمیں بخش دے، اس قدر سر پر مصیبتیں سوار ہیں، مگر پھر بھی ہم ایمان والے مکمل طور سے اسلام میں داخل نہیں ہورہے ہیں۔ آخر کیوں؟ آخر دینی غیرت کہاں گئی؟ دینی حمیت کہاں گئی؟ اور بھی باتیں ہیں۔ دین کے مخلصین حضرات کیا کیا رقم کریں، کیا کیا سپرد قلم کریں، کسی شاعر نے کہا تھا: ؎
ایک ہنگامئہ محشر ہو تو اس کو بھولوں
سینکڑوں باتوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے
بہت سی قومیں ایسی گذری ہیں کہ جب وہ سخت مصیبتوں میں گرفتار ہوئیں، اللہ کا عذاب اپنے ماتھے کی نگاہوں سے دیکھیں، تو پوری قوم نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں رجوع کیا،پوری قوم نے توبہ و استغفار کیا، اور اپنے گناہوں کی معافی مانگی، مہربان اور بخشنے والے پرودگار نے انھیں بخش دیا اور فوراً اللہ نے ان سے عذاب کو اٹھا لیا۔ کتب سیر و تواریخ میں بلکہ قرآن و حدیث میں اس طرح کے کئی واقعہ کا ذکر ہے۔ ایک قوم تو ایسی بھی گزری ہے کہ وہ مومن نہیں تھی مگر سخت مصیبت میں گرفتار ہوئی، تو وہ اللہ کی بارگاہ میں روئی اور اپنے نبی سے دعاے خیر کی درخواست کی، نبی علیہ السلام نے دعا کی، اللہ نے اس قوم سے فوراً عذاب اٹھالیا، وہ قوم پھر سرکش ہوگئ، پھر اس نے رجوع کیا ، پھر اللہ نے اس سے عذاب اٹھا لیا، اسی طرح کئی بار ہوا جب وہ قوم بے حد شریر ہوگئی، تو اللہ نے اسے اس کے کرتوت کے سبب ہلاک فرمادیا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ’ فَاَرْسَلْنَا  عَلَیْهِمُ  الطُّوْفَانَ وَ   الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ   وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ  اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ  فَاسْتَكْبَرُوْا وَ   كَانُوْا قَوْمًا  مُّجْرِمِیْنَ ‘ (الاعراف:۱۳۳) تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو (یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔
اس واقعہ کی پوری تفصیل سورہ اعراف میں ہے۔
’ فهل ترى لهم من باقية ‘ (الحاقہ: ۸)۔ تو تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے ہو۔)
یہ تو اس قوم کا واقعہ تھا جو مومن نہیں تھی، ہم تو الحمد للہ ایمان والے ہیں، جب ہم صدق دل سے توبہ کریں گے ، اپنے گناہوں کی معافی چاہیں گے ، اپنے غمخوار نبی، اللہ کے سب سے محبوب رسول آقاے کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کریں گے، اور دفع عذاب کے لیے اللہ تعالی سے سفارش کی درخواست کریں گے تو کیا اللہ تعالی ہمیں عذاب سے نجات نہیں دے گا، کیوں نہیں ، ضرور وہ رحم فرماۓ گا اور بخش دے گا۔ اللہ تعالی خود قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
’ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ‘ (النساء: ۶۴)
اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہوجاتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (بھی) ان کی مغفرت کی دعا فرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔
مگر حال یہ ہے کہ ہم دنیا کی رنگینیوں میں کھو چکے ہیں، دنیا کی زیبائشوں میں ڈوب چکے ہیں، اللہ کا عذاب نازل ہے مگر اللہ کی طرف رجوع نہیں کررہے ہیں الا ماشاء اللہ اور دعوی تو یہ ہے کہ ہم ٹی ٹی ایس ہیں۔ اللہ و رسول سے اتنی غفلت، اتنا بے خوفی، کیا یہی دینی غیرت ہے؟
انسان جب مصیبت میں ہوتا ہے، اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو وہ اللہ سے ضرور دعا کرتا ہے، اللہ کو ضرور یاد کرتا ہے، اس سے لمبی چوڑی دعا مانگتا ہے۔ خود اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
’ وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَآءٍ عَرِیْضٍ ‘ (حم السجدة: ۵۱) اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو (لمبی) چوڑی دعا (مانگنے) والابن جاتا ہے۔
ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
’اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖۤ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآىٕمًاۚ ‘ (یونس:١٢)
اور جب آدمی کوتکلیف پہنچتی ہے تولیٹے ہوئے اور بیٹھے ہوئے اور کھڑے ہوئے (ہرحالت میں ) ہم سے دعا کرتا ہے
اور ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
’ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِیْبًا اِلَیْهِ ‘ (الزمر: ٨)
اور جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کو اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتا ہے
اور ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
’ لَا یَسْئَمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآءِ الْخَیْرِ٘ ‘ (حم السجدة: ٤٩)
آدمی بھلائی مانگنے سے نہیں اُکتاتا
اور ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
’ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةًۚ ‘(الانعام: ٦٣) تم اسے گڑگڑا کر اور پوشیدہ طور پر پکارتے ہو۔
ان کے علاوه بھی بہت سی آیت کریمہ ہیں۔ ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ شدید مصیبتوں، سختیوں، بلاؤں اور آفتوں میں انسان اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، اس سے دعائیں مانگتا ہے، برائیوں سے بچتا ہے، بے حیائی کے قریب نہیں جاتا ہے، مگر آج ہمارا اور ہماری قوم کا رویہ عجب ہے، اب بھی برائیوں سے نفرت نہیں، اب بھی بے حیائی کے قریب جارہے ہیں، اب بھی صدق دل سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ نہیں کر رہے ہیں، آخر کیوں؟ ہماری غیرت کہاں گئی؟ ہم اسلام سے اتنے دور کیسے ہوگئے ؟ سچائی تو یہ ہے کہ ہم دنیا کی زینتوں ، آرائشوں اور رنگینوں کی طرف راغب ہیں، ان میں اس قدر پھنس چکے ہیں، کہ اسلام، آخرت، اللہ کے عذاب کا خوف اور شرم نبی سب کچھ ہمارے دلوں سے رخصت ہوچکا ہے، اور نفس امارہ کی غلامی میں ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ یہ رنگینیاں ہماری دنیا بھی برباد کررہی ہیں، اور ہمیں رب کے حضور حاضر بھی ہونا ہے، مگر اس کی کوئی فکر نہیں: ع
جاؤگے کس منہ سے آخر تم خدا کے سامنے
اور کسی شاعر نے کہا: ؎
قوت فکر وعمل پہلے فنا ہوتی پے
پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
تو اگر چاہتے ہیں کہ انقلاب آئے ، تبدیلی آئے ، زمانے کی باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں ہو، دشمنوں کے دلوں میں پھر سے ہمارا دبدبہ قائم ہو اور کچھ چین سکون کی زندگی بسر کریں، تو اس تبدیلی کے لیے، ہم سب کو اللہ کی بارگاہ میں جھکنا ہوگا، اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہوگی، اس کا ذکر سراً و علانیةً کرنا ہوگا ، دہنی حمیت دکھانی ہوگی، اسلامی غیرت کا ثبوت پیش کرنا ہوگا اور پوری قوم کو اس سے مناجات کرنا ہوگا، تب تبدیلی آۓگی۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ’ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْؕ – وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗۚ – وَ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ ‘ (الرعد: ۱۱)
بیشک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دیں اور جب اللہ کسی قوم سے برائی چاہے تو وہ پھر نہیں سکتی اور اس کے سوا ان کا کوئی حمایتی نہیں ۔
آج نماز اور دیگر اہم عبادتوں سے ہماری دوری تو ہے ہی، ہم میں اکثریت ایسوں کی ہے جو نہایت ادب کے ساتھ دعا بھی نہیں مانگتے، کیا یہی دینی غیرت ہے؟ اللہ و رسول سے قریب تر ہونے کی کچھ فکر نہیں، کیا یہی اسلامی غیرت ہے؟
دعا ہمارا بہت بڑا ہتھیار ہے، مگر اس کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ ایرے غیرے سے رحم کی اپیل کے لیے شامیانہ تک لگا دیتے ہیں، مگر جو حقیقت میں رحیم ہے کریم ہے، اس سے رحم کی اپیل کے لیے دوچار لوگ بھی بمشکل جمع ہوتے ہیں۔یہی دینی غیرت ہے؟ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی وسلم نے ارشاد فرمایا: ’ ان الدعاء یرد القضاء بعد ما ابرم ‘ یعنی دعا قضائے مبرم کو بھی بدل دیتی ہے۔ (انوار الحدیث)
دعا ہمارے لیے ایک طرف عظیم ہتھیار ہے تو دوسری طرف ایک عظیم عبادت بھی ہے۔ جیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’ الدعاء ھو العبادة ‘ یعنی دعا عبادت ہے ہی ۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں، امام ترمذی نے اپنی جامع میں اور امام ابو داؤد ،نسائی اور ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔
اور حضرت انس کی ایک روایت میں ہے، جسے امام ترمذی نے اپنی جامع الترمذی میں نقل کیا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’ الدعاء مخ العبادة ‘ یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔
اور ایک روایت میں ہے: ’ لیس شیء اکرم علی اللہ من الدعاء ‘
یعنی اللہ کی بارگاہ میں دعا سے سے بڑھ کر مکرم کوئی شی نہیں (رواہ الترمذی وابن ماجہ)
اس طرح کی کئ روایتیں ہیں، جن میں دعا کی اہمیت و فضیلت کا ذکر ہے، اور قرآن میں تو دسیوں مقامات پر اللہ کی بارگاہ میں رونے ،اس سے مناجات کرنے اور دعا کرنے کا واضح بیان موجود ہے، نیز دعا کرنے سے بہت سی پریشانیاں دور ہوئیں ، اس کا بھی ذکر قرآن میں جا بجا ہے، مگر جہاں ایک طرف لوگ فرائض کی ادائیگی سے غافل ہے، وہیں دوسری جانب دعا و مناجات کی طرف بھی توجہ نہیں۔ سچائی یہ تو ہے آج ہمارے دلوں میں اللہ کا خوف باقی نہیں رہا، قبر کی سختی اور قیامت کی شدت اور ہولناکی کا کچھ خوف نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دینی غیرت دیکھنے کو نہیں ملتی، دوستی یاری کی بڑی فکر ہے مگر آخرت کی کچھ فکر نہیں، آج کل نوجوان کو ایک اچھا موبائل مل جاۓ، کسی غیر محرم سے تعلقات قائم ہوجائیں، کہیں کچھ آمدنی کا ذریعہ لگ جاۓ، بس پھر کیا دین، کیا ایمان، کیا ماں کا احسان کیا باپ کی اطاعت، کیا بڑوں کی تعظیم کیا چھوٹوں پر شفقت، کیا حلال کیا حرام کچھ فکر نہیں، بس من مانی کام، من چاہا کلام۔ آخر ہماری دینی غیرت ہے کہاں؟ وضاحت کے ساتھ عرض ہے کہ وہ لوگ جن کی دوستی شرعاً جائز نہیں، جن کے تعلقات دینی تعلقات نہیں، وہ دنیا میں بھی رسوا ہوتے ہیں، اور آخرت میں بھی وہ کف افسوس ملے گے۔ آج ہی دیکھ لیجیے کہ وہ آدمی جو کرونا وائرس کا شکار ہورہا ہے، جس کی جانچ -معاذ اللہ- مثبت نکل رہی ہے، اس کا دوست اس سے کتنا دور بھاگ رہا ہے، اور اس سے بچنے کے لیے کیا کیا حیلے تلاش کرتا ہے، جب یہ دنیا میں کام نہیں آرہے ہیں، تو آخرت میں جب نفسی نفسی کا عالم ہوگا، وہاں خاک کام آئیں گے، اس دن کی سختی میں کوئی دوست کام نہیں آۓگا۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: لَا یَسْــٴَـلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًاۚۖ (۱۰) – (المعارج: 11)
اور کوئی دوست کسی دوست سے حال نہ پوچھے گا۔
ایسا نہیں کہ ایک دوست اپنے دوست کو نہیں دیکھے گا ،نہیں بلکہ اپنے ماتھے کی نگاہوں سے دیکھ رہا ہوگا مگر کام نہیں آۓ گا ۔ اس لیے آگے ارشاد ہوا ہے
یُّبَصَّرُوْنَهُمْؕ
ان کو دکھائے جارہے ہوں گے۔
دنیا اور آخرت میں وہی دوستی کام آۓ گی جو خالص اللہ و رسول عزوجل و علیہ الصلاة و السلام کے لیے ہو،خالص اسلام کے لیے ہو۔ اور خالص دینی ہو، ورنہ ۔۔۔ ورنہ کیا جو جیسا کرے گا ویسا پاۓ گا:؎
جیسی کرنی ویسی بھرنی نہ مانے تو کرکے دیکھ
جنت بھی ہے جہنم بھی نہ مانے تو مر کے دیکھ
اور کسی شاعر نے کہا: ؎
نہ سیاہی کے ہیں دشمن نہ سفیدی کے ہیں دوست
ہم کو آئینہ دکھانا ہے دکھا دیتے ہیں
اللہ تعالی سب سے پہلے مجھے اور پھر تمام مسلمانوں کو نیکی کی طرف سبقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، تمام معاملات میں اسلام کے حکم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، یا اللہ اپنے حبیب کے صدقے ہماری شہ رگ میں خالص اسلام کی غیرت و حمیت خون جاری فرمادے، جو اسلام کو پسند نہیں، ہمیں اس سے میلوں دور فرمادے، منکرات سے دلوں میں نفرت پیدا فرمادے اور حسنات کی طرف رغبت کی توفیق رفیق عطا فرما۔اور دینی غیرت سے ہمارے دلوں کو مزین فرمادے۔
یہی ہے آرزو تعلیم قرآں عام ہوجائے
کہ ہر پرچم سے اونچا پرچم اسلام ہو جائے

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں