حضرت استاذ مفتی سعید احمد پالن پوریؒ فقہی بصیرت وفکری اعتدال

نور اللہ جاوید
24سالہ دور طالب علمی میں کئی درجن اساتذہ سے پڑھنے اور سیکھنے کا موقع ملا ہے، تمام اساتذہ قابل احترام اور ان کی عظمت مسلم ہے۔ استاذ اور شاگرد کا رشتہ دنیا کے بہترین رشتوں میں سے ایک ہے۔ بلکہ یہ رشتہ کبھی کبھی خونی رشتے پر بھی فوقیت لے جاتا ہے۔ اساتذہ صرف درسی کتابیں ہی نہیں پڑھاتے ہیں بلکہ اپنی زندگی کے تجربے سے عملی زندگی میں درپیش حالات، مسائل و مشکلات کا مقابلہ کرنے کا ہنر بھی سکھا جاتے ہیں۔ ان کی نصیحت، تجربات اور مشاہدات اس وقت فضول سی معلوم ہوتی ہے مگروہ باتیں لاشعور کا حصہ بن جاتی ہیں اور وقت آنے پر اساتذہ کی نصیحتیں اور ان کی باتیں ذہن و ماغ پر دستک دیتی ہیں اور صراط مستقیم پر گامزن کرجاتی ہے۔ زندگی کے اس سفر میں چند ایسے اساتذہ کرام سے واسطہ پڑتا ہے کہ ان کی عظمت و رفعت اور شفقت و محبت اور علمی حیثیت ذہن و دماغ پر ہمیشہ ہمیش کیلئے ذہن و دماغ پر نقش بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کی یادیں، باتیں وقت کے دھول کا حصہ نہیں بنی ہیں بلکہ زندگی کے سفر کے ساتھ وہ بھی سفرکررہی ہیں۔ میرے ان ہی اساتذہ میں سے ایک محدث کبیر،محقق اور درالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین، مقبول ترین استاذ، شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالنپوریؒ ؒکی ذات گرامی ہے۔ جنہیں دنیا سے رخصت ہوئے کئی دن گزر چکے ہیں مگر ا س کا غم دل و دماغ پر اب بھی چھایا ہوا ہے۔ 20سال بیت گئے، جب ہم نے حضرت استاذ سے ترمذی شریف پڑھی تھی۔ ان دو دہائیوں میں زندگی کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ سوچ و فکر کے زاویے تبدیل ہوگئے اور ترجیحات بدل گئی۔ میدان کار بدل گیا۔ درس و تدریس اور مدارس کے روح پرور ماحول سے کہیں دور صحافت سے وابستہ ہوچکا ہوں۔ ان 20 سالوں میں براہ راست ایک بھی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ مگر اس کے باوجود حضرت استاذ کے انتقال کی خبرسن کر دل بیٹھ سا گیا اور ایسا محسوس ہوا کہ بہت بڑی نعمت سے محروم ہوگئے۔
یہ جو ملتی ہے ترے غم سے، غمِ دہر کی شل
دل نے تصویر سے تصویر اْتاری ہوگی
ایک بار پھر دارالعلوم دیوبند میں قیام کے چار سالہ دور کی یادوں کے نقوش ایک بار پھر نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگے۔ حضرت استاذ ؒ کا احاطہ دارالعلوم میں داخل ہونا ہے۔ احاطہ مولسری سے گزرتے ہوئے دارلحدیث تک پہنچنا اور پھر پورے وقار کے ساتھ مسند درس پر بیٹھ کر درس حدیث کا انداز دلبرانہ،حسن بیا ن، افہام و تفہیم،تحقیق و تنقید اور دلائل اور مختصر مگر جامع گفتگو سے طلبا کو مسحور کردینا ۔ ایشیا کی عظیم دینی درس گاہ درالعلوم دیوبندکی ایک تاریخ ہے۔ یہاں کے اساتذہ علم وفن تقویٰ و للہیت، ایثار و قربانی کیلئے مشہور رہے ہیں۔ دارلعلوم دیوبند کے مسند درس کو امام ربانی مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا یعقوب نانوتویؒ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ، علامہ انورشاہ کشمیریؒ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، محدث کبیر مولانا فخرالدین ؒ، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب ؒ، علامہ ابراہیم بلیاوی ؒ، مولانا معراج الحق دیوبندیؒ، مولانا حسین احمد ملا بہاری ؒ اور مولانا نصیر احمد خان ؒ جیسی صاحب علم شخصیتوں نے رونقیں بخشی ہیں۔ یہ تمام حضرات اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ باکمال اساتذہ کا ایک سلسلۃ الذہب ہے۔ حضرت استاذ مفتی سعید احمد پالنپوری ؒ کی ذات گرامی اس سلسلہ کی ایک اہم کڑی اور اکابرین کی یاد تھے۔علوم دینیہ اور عقلیہ پر گہری گرفت کے ساتھ خلوص و للہیت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ اس دور میں درالعلوم دیوبند کے مسند درس کے آبرو تھے۔ اکابرین کے سنہرے روایات و اقدارکے پاسبان تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں درس حدیث کا خاص اسلوب تھا۔ دارالعلوم دیوبند شاہ ولی اللہ اور شیخ سرہندی دونوں بزرگوں کے ” مکاتب حدیث “ کا ماحصل ہے۔
حضرت اما م شاہ ولی اللہ ؒ کے درس حدیث کا انداز یہ تھا کہ ” طلبہ سے خود ہی نیا سبق پڑھوایا کرتے تھے اور پھر اس کے تمام پہلوؤں اور گوشوں پر نہایت جامع اور سیر حاصل بحث کیا کرتے تھے۔ فقہی مسائل کو طلبہ کے سامنے پیش کرتے وقت آپ کی تمام تر توجہ اور کوشش اس امر کی جانب مرکوز رہتی کہ بالعموم مختلف اور بالخصوص حنفی اور شافعی مسلک کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو حتی المقدور کم کیا جائے “۔کم و بیش یہی اسلوب حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری ؒکا بھی تھا کہ اختلافی مسائل کو اچھالنے کی بجائے ان پر غور و فکر کر کے ان کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کرتے تھے۔ درس حدیث میں ائمہ اربعہ کے فقہی اختلافات کو ضرور بیان کرتے تھے مگر حنفی کو ترجیح دینے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ ترجیح حدیث کے مسئلہ کو ہی دیتے تھے۔طلبا میں تنگ نظری کی بجائے وسعت نظری اور تحقیق و جستجو کا جذبہ پیدا کرنے کی آپ کی کوشش ہوتی ہے۔اسی وجہ سے ان کے سبق میں طلبا بہت ہی ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے۔
دنیا میں ایسے بہت ہی خوش نصیب ہیں جن کی پوری زندگی قرآن و حدیث کی خدمت کیلئے وقف رہی ہو۔ تدریس بذات ایک بڑا مشغلہ ہے، گھنٹوں مطالعہ کا متقاضی ہے۔ علالت، خوانگی مصروفیات کے باوجود حضرت استاذ مفتی سعید احمد پالن پوریؒ نے غیر معمولی علمی و تالیفی نقوش چھوڑے ہیں ۔ جو معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے بہت ہی زیاد ہیں ۔حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی معرکۃ الآرا کتاب حجۃ اللہ واسعہ کی شرح ”رحمۃ اللہ واسعہ، قرآن کریم کی تفسیر، ترمذی شریف کی شرح اور بخارح شریف کے شروحات کے علاوہ درجنوں کتابیں شامل ہیں۔ یہ کتابیں آپ کی علمی بصیرت،تحقیق و جستجو، فراست اور یکسوئی کی آئینہ دار ہے۔ چناں چہ ان کے انتقال کو علم و فن اور کمالات کے کاررواں کے رخصت ہوجانے سے تعبیر کیا جارہا ہے۔عربی شاعر امرؤ القیس کا یہ شعر
وماکان قیس ھلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تھدما
کے مصداق اسی طرح کی شخصیات ہوتی ہیں۔ میں یہ بات لکھ بھی نہیں سکتا ہوں کہ ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہواہے اس کا پر ہونا ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ خالق کائنات سے کچھ بھی بعد نہیں ہے۔ حضرت استاذ ؒ تو گفتگو اور تحریر میں حد درجہ اعتدال کے قائل تھے، مدح سرائی میں غلو و کے وہ سخت مخالف تھے۔ اس لئے حضرت استاذ کی عظمت و رفعت اور ان کا علمی مقام کا تعین کئے بغیر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ حضرت استاذ کا انتقال صرف ایک خاندان کا غم نہیں ہے، ایک ادارے کا نقصان نہیں ہے۔ لاکھوں شاگردوں اور ہزاروں عشاقانِ حدیث اور سب سے بڑھ کر ایشیا کی عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم دیوبند ایک ایسے عظیم استاذ سے محروم ہوگیا ہے جو اس کی آبرو اور علمی قیادت و سیادت کے مرتبے پر فائز تھا ۔ باری تعالی کی قدرت سے یہ امید ہے کہ اکابرین کے خلو ص و للہیت کے تاج محل دارالعلوم دیوبند کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے تدارک کیلئے اسباب و حالات پیدا فرمادے۔
حضرت کے علمی تفوق، اسلوب درس، علوم حدیث پر دسترس اور تصنیفی خدمات پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے اور لکھا بھی جائے گا۔ ضرورت بھی اس بات کی ہے کہ حضرت کی تفسیر ’ہدایت القرآن“، ترمذی شریف کی شرح ’تحفۃ الالمعی شرح سنن الترمذی‘، بخاری شریف کی شرح ”تحفۃ القاری شرح بخاری“ اور حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی مشہور زمانہ اور معرکۃ الآراء کتاب حجۃ اللہ البالغہ کی شرح ”رحمۃ اللہ واسعہ“ اور دیگر تصنیفات کا علمی جائزہ لیا جائے ، ان کے تصانیف پر سمینار کا انعقاد اور بحث و مباحثہ کا دور چلے تاکہ ان کتابوں کی رسائی عام لوگوں تک ہو اور مجھے قوی امید ہے کہ حضرت کے لاکھوں شاگردوں میں سے کوئی نہ کوئی کار خیر کو ضرور انجام دے گا۔ مگر علمی تحریف، بدعات اور غلط آمیزش کے خلاف حضرت استاذ کی خدمات ناقابل فراموش ہے۔ ایسے حضرت مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کی زندگی کا ہر پہلو روشن ہے مگر اس معاملے میں مفتی احمد سعید پالن پوریؒ اپنے معاصرین پر فوقیت حاصل ہے۔ علوم نبوت کے حاملین کی صفت بیان کرتے ہوئے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ
”یہ علم ہرنسل سے آنے والی نسل کے بہترین عادل افراد وصول کریں گے پھر وہ اس علم سے تحریف، بدعات اور غلط آمیزش کو مٹا ڈالیں گے“۔
علوم نبوت میں تحریف اور بدعات و خرافات کی آمیز ش کے خلاف مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کی کوششوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہیں جب یہ محسوس ہوا کہ تمسک بالسنہ اور اعتدال کی راہ ترک کرکے افراط و تفریط اور مداہنت کی راہ کی جارہی ہے تو وہ لومۃ لائم کی پرواہ کئے بغیر حق کو واضح کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے، اس کیلئے انہوں نے اپنوں کو بھی ہیں بخشا ہے۔ ان کے فکر و خیال اور تحقیق سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ا ن کے وسعت نظر، قوت حافطہ اور کثرت مطالعہ اور سب سے بڑھ کر ان کے خلوص و للہیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
”جلسہ تعزیت اور شخصیات پر سیمینار“ کی شرعی حیثیت سے متعلق حضرت مفتی صاحب نے حدیث و سیرت کی روشنی میں جلسہ تعزیت اور شخصیات پر منعقد ہونے والے سمیناروں میں افراط و تفریط اور غلط روایات کی آمیزش پر مواخذہ کرتے ہوئے علمی بحث کا آغاز کرتے ہوئے تحقیق و جستجو کی نئی راہ کھو ل دی۔گرچہ بعض نادانوں نے پوری بحث کو ذاتی دشمنی اور تعصب سے تعبیر کرکے ایک علمی بحث کو متنازع بنادیا۔ دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم اداروں میں اس طرح کی علمی بحثیں نہیں ہوں گی تو پھر کہاں ہوگی؟مثبت ماحول میں تحقیق و تنقید اور ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے علمی اشکلات سے تخلیق کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ تحقیق و جستجو کی نئی راہیں کھولتی ہیں۔ تنگ نظری کے بجائے وسعت نظری پیدا ہوتی ہے۔
بدعات کی تاریخ پر ان کی گہری نظرتھی کہ بدعت کا آغاز کس ماحول میں ہوتا اور پھر سماج ومعاشرہ میں اس کی کونسی شکل اختیار کرجاتی ہے اس سے وہ بخوبی واقف تھے چناں چہ تمسک بالسنہ اور بدعات کے معاملے میں وہ انتہائی سخت تھے۔۔ ربیع الاو ل کے مہینے میں ہونے والے میلادالنبی کے جلسے اب مستقل ایک تہوار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ عید میلاالنبی کو دین سمجھ کر ہندوستان بھر میں جلوس نکالے جاتے ہیں اور طرح طرح کے خرافات و بدعات کا ارتکاب ہوتا ہے۔ ابتدا میں علمائے دیوبند بھی میلاد کے پروگراموں میں یہ کہہ کرشریک ہوتے تھے کہ اس کی وجہ سے سیرت کے پیغام کو عام کرنے کا موقع مل جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ آج میلاد کی وہی صورت ہے جو جو دس بیس سال قبل تھی ظاہر ہے کہ نہیں۔
ایسا بھی نہیں حضرت مفتی ؒنے پہلی مرتبہ اس طرح کی بحث کا آغاز کیا ہے، کئی دہائی قبل حضرت حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ کے دور اہتمام میں بھی دارالعلوم دیوبند کے یوم تاسیس پر دیگر عصری اداروں کے طرز پر جشن اور یادگار منانے کی تجویز پر غور و فکر شروع ہوا اور منتظمین دارالعلوم دیوبند اس کیلئے راضی بھی ہوگئے۔ حضرت استاذؒ دارالعلوم دیوبند میں اس وقت وسطیٰ علیا کے استاذ تھے۔ اس کے باوجود حضرت مہتمم ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حدیث و سیرت کی روشنی میں اس طرح کے پروگرام کے خلاف دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ”دارالعلوم دیوبند“ جیسے فکری و نظریاتی ادارے میں اگر اس طرح بدعت کی شروعات کی جائے گی تو مستقبل میں اچھی نیت سے شروع کیا جانے والا کام غلط رسم کے طور پر معاشرے میں جڑ پکڑلیں گی۔ حکیم الاسلام قاری محمد طیب ؒ قاسم العلوم والخیرات امام محمد قاسم نانوتویؒ کے نہ صرف صلبی اولاد ہیں بلکہ ان کے علوم و مشن کے وارث بھی تھے۔ چناں چہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت مفتی ؒ کے دلائل سے اتفاق کیا اور سالانہ جشن کے پروگرام کو ملتوی کردیا۔ دارالعلوم دیوبند کے صدسالہ تقریبات کے موقع ایک عجیب و غریب قصے کا حضرت استاذ ؒنے اپنی کتاب ”جلسہ تعزیت کا شرعی حکم“ میں ذکر کرتے ہوئے لکھاہے کہ
”الہ آباد کے ایک بزرگ روپے کے پانچ سکے لے کر آئے اور حضرت حکیم الاسلام قدس سرہ کو دئیے اور کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس بیداری میں آئے اور یہ روپے دئیے اور فرمایا: ایک اجلاس صد سالہ میں دینا، ایک حضرت حکیم الاسلام کو دینا الخ۔ اسی شام کو دارالحدیث تحتانی میں جلسہ منعقد ہوا اور حضرت مولانا سالم قدس سرہ نے تقریر فرمائی اور خوب چندہ ہوا۔ دوسرے دن صبح میں کتابیں لے کر حضرت حکیم الاسلام کے پاس گیا اور ”التعلیق الصبیح“ میں حالت بیداری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کیلئے جو شرائط تھیں وہ دکھائیں اور میں نے عرض کیا کہ ’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسری دنیا میں ہے اور دوسری دنیا کی چیز اس دنیا میں آسکتی ہے، حجر اسود کے بارے روایت ہے کہ وہ جنت کا پتھر ہے، مگر انڈیا کی ٹکسال میں ڈھلا ہوا سکہ، جن پر تین شیروں کا فوٹو بھی ہے، اور سن بھی چھپا ہوا ہے، یہ سکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں کیسے پہنچے، اور آپ نے ان بزرگ صاحب کو کیسے عنایت فرمائے، ضرور ان کو دھوکہ ہوا ہے۔
حضرت حکیم الاسلام قدس سرہ نے میری یہ بات قبول فرمائی اور دوسرے دن دارالحدیث فوقانی میں جلسہ ہوا اور حضرت مولانا سالم صاحب قدس سرہ نے تقریر کی اس میں صاف فرمایا کہ کہ کل کی بات ہم نے غلبہ محبت میں مان لی تھی اس کو آگے نہ بڑھایا جائے ۔“
علوم نبوت کے حاملین کی جو صفات حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیش گوئی جو فرمائی ہے اسی کا یہ عملی مظہر ہے۔ قرآن و حدیث اور قرون ثلاثہ کی فکر سے ذرہ برابر انحراف اور فکری بے راہ روی بڑے فتنے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ حضرت مفتی سعید احمد پالن پور ی ؒنے اس فریضہ کو بخوبی نبھایا اور یہی وجہ سے ان سے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ اس دور میں ”مسلک دیوبند“ کے علمی سالار ہیں۔
مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کی فکر تھی کہ ’دیوبندیت کوئی فرقہ نہیں ہے بلکہ اہل سنت والجماعت کا دوسرا نام ہے۔ ہروہ شخص جو خرافات، بدعات اور رسومات سے مجتنب اور سنت رسول کا پیروئے کار ہے وہ ”دیوبندی“ ہے‘۔ اہل سنت کا مدار قرآن و سنت اور قرون ثلاثہ (صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین) کے عمل پر ہے۔ جو باتیں قرآن و سنت کے خلاف ہیں اور قرن ثلاثہ کے بعد شروع ہوا ہے وہ بدعت ہے۔ فقہی جزئیات اگر حدیث کے خلاف ہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔ (ماخوذ علمی خطبات)
قبروں پر کتبہ، قبرستانوں میں مراقبہ اور قبروں پر قرآن کی تلاوت، اسی طرح تصوف کے نام پر افراط و تفریط اوراکابر پرستی میں غلو پر نکیر کرتے ہوئے فرماتے تھے دیوبندیت اور بدعتیوں کے درمیان صرف ایک بالشت کا فرق رہ گیا ہے۔جب کہ یہ چیزیں قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے تو پھر مسلک دیوبند داعیان ان حرکتوں کا ارتکاب کس طرح کرسکتے ہیں؟۔
دین ہو، فلسفہ ہو، فقر ہو، سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر
حرف اس قوم کا بے سوز، عمل زاروں زبوں
ہوگیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر
خود احتسابی اور اپنے فکر و نظر کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھنے کا عمل اگر بند کردیا جائے تو کوئی بھی تحریک اور جماعت صراط مستقیم سے بھٹک جاتی ہے اور اس کا مشن پس پشت چلاجاتا ہے اور خرافات حاوی ہوجاتی ہے۔ ”تحریک دارالعلوم دیوبند“ ان تحریکوں میں سے ایک جس نے کئی محاذ وں پر کام کیا ہے اور ہر محاذ پر کامیابی و کامرانی اس کے قدم چومی ہے۔ ڈیڑھ سو سال بعد بھی اگر یہ تحریک اپنی معنویت اور اہمیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک دارالعلوم دیوبند سے وابستگان میں ہمیشہ ایک ایسی افراد رہے ہیں جنہوں نے خود احتسابی اور جماعت کے فکر وعمل کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھا اور اپنوں کا بھی مواخذہ کرنے سے گریز نہیں کیا ہے۔ ساتھ ہی خرابات، لغویات کی آمیزش پر تنبیہ کرکے تحریک دیوبند کو اپنے مقاصد سے منحرف نہیں ہونے دیا ہے۔ امام ربانی حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہیؒ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، محدث کبیر حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا ؒ، حضرت مولانا منظور احمد نعمانی ؒاور ماضی قریب کی عظیم شخصیت محی السنہ حضرت مولانا ابرارالحق حقی ہردوئیؒ سے لے حضرت مفتی سعیداحمد پالنپوری ؒ تک ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے تحریک دیوبند کی حفاظت کی ہے۔ خامیوں و کوتاہیوں کی برملا نشاندہی کرکے تحریک کو صراط مستقیم پر گامزن رکھا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں ایسی شخصیات پیدا ہوں گی جو اس عظیم فریضے کو انجام دیتی رہیں گی۔
حضرت مفتی سعیداحمد پالنپوریؒ کی عظمت و رفعت کو جو باتیں دوبالا کرتی ہیں ان میں یہ بات تھی کہ وہ اپنی رائے قائم کرنے سے قبل قرآن و حدیث اور علما کی کتابوں کا غائرانہ مطالعہ ضرور کرتے تھے اور مزید تحقیق کی راہیں بھی کھلی رکھتے تھے۔ چناں چہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کے سیمینار کے موقع پر جو علمی بحث شروع ہوئی تھی اس موقع پر بھی انہوں نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ ”ابنائے دارالعلوم آگے آئیں اور مسئلہ کو مثبت یا منفی پہلو سے واضح کریں“۔ مگر افسوس ہے کہ حضرت نے جس علمی بحث کی شروعات کی وہ تعصب اور ضد کی شکل اختیار کرلی اور لوگوں نے لعن طعن اور دشنام طرازی کا ایک سلسلہ شروع کرتے ہوئے ماضی کے زخموں کو کریدنے لگے۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ کئی دہائیوں تک ترمذی شریف پڑھانے والا شخص اگلے دن سبق میں آئے اور کہے کہ ”کل میں نے جو میں ایک طالب کے سوال پر کے جواب میں جوباتیں کہیں تھیں وہ غلط تھی اصل مسئلہ یہ ہے“۔ آج درس گاہوں میں سوال و جواب کا سلسلہ ختم ہوتا جارہا ہے۔سوال کرنے والے طالب علم کی حوصلہ افزائی کرنے بجائے سوال پر ہی سوال کھڑا کرکے طالب علم کو خاموش کردیا جاتا ہے۔ چناں چہ آج ہمارے اداروں سے تحقیق و جستجو ختم ہوگیا ہے اور تخلیقی ذہن کے حاملین سامنے نہیں آرہے ہیں۔
حضرت مفتی سعیدؒ مسلک کی تبلیغ کے داعی نہیں تھے۔ مگر وہ حق کے اظہار میں ہچکہاہٹ کو بھی برداشت کرنے کا مزاج نہیں رکھتے تھے ا ن کی سوچ تھی کہ ”ملکی مسائل ملک کے تمام باشندو کو مل کر بیٹھنا چاہیے اور ملک کی سالمیت کیلئے متفقہ فیصلہ کرنا چاہیے، جنگ آزادی کے وقت ہندو مسلم اتحاد اس کی مثال ہے۔ ملی مسائل میں ملت کے تمام فرقو ں کو مل کر بیٹھنا چاہیے اور ملک کی سلامتی کیلئے ایک آواز بلند کرنی چاہے، مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اتحاد اس کی مثال ہے۔مسلک و مشرب کے اختلاف میں ہر ایک کو اپنی رائے پر رہ کر نزاع سے بچنا چاہیے“۔ یادش بخیر‌ میرے دورۂ حدیث کے سال میں ایک دن حضرت استاذ آئے اور کہا کہ کیرالہ کے کچھ طلبا میرے گھر آکر یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ میرے دلائل سے متاثر ہوکر حضرت امام شافعی ؒ کی تقلید چھوڑ کر امام ابوحنیفہ ؒ کی تقلید کرنا چاہتے ہیں“۔ حضرت استاذ نے فرمایا میں یہاں لوگوں کو حنفی بنانے کیلئے نہیں آتا ہے۔ چوں کہ میں فقہ حنفی پر عمل کرتا ہوں اس لئے درس دیتے وقت احادیث سے مطابقت کرتا ہوں۔ اس لئے میں اپنے عزیزوں سے کہتا ہوں کہ وہ میرے دلائل سے متاثر ہوکر اپنے امام کی تقلید نہ چھوڑیں“۔ ایک جگہ لکھتے ہیں
”دارالعلوم دیوبند مسلک کی دعوت نہیں دیتا، اہل السنہ والجماعت کے مسلک معتدل کی حفاظت کرتا ہے، چارفقہی مسالک ہیں اور دارالعلوم دیوبند میں ہر مسلک کے طالب علم پڑھتے ہیں، جنوب میں شوافع بڑی تعداد میں ہیں مگر دارالعلوم کی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ میں ایک بھی شافعی طالب علم دارالعلوم میں پڑھ کر حنفی نہیں ہوا، اس لئے کہ دورۂ حدیث کے اساتذہ مسلک کی دعوت نہیں دیتے“۔ (جلسہ تعزیت کا شرعی حکم:ص 82)
حضرت استاذؒ فکر ونظر میں اعتدال کے قائل تھے، ساتھ ہی وہ اپنی بات اور موقف واضح کرنے میں جری بھی تھے، اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والوں کی ملامت، دوستوں کی ناراضگی اور اپنوں کی بے اعتنائی کی پرواہ کئے بغیر اپنے ضمیر کی آواز ضرور بلند کرتے تھے۔ تحقیق و تخلیق اور اجتہاد جاری رکھنے کے حق میں تھے۔ مخاطب کی ذہنی استعداد اور قابلیت کے لحاظ سے اپنی بات رکھنے میں وہ ماہر تھے، ان کی باتیں سادہ ہوتی تھیں مگر معانی دقیق ہوتی تھیں۔حضرت علی بن طالب کرم اللہ وجہہ کا حکیمانہ قول ہے: کلمو الناس علی قدر عقولہم أتریدون أن یکذب اللہ و رسولہ (لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق خطاب کیا جائے تاکہ وہ نادانی سے اللہ و رسول کی بات کی تکذیب نہ کریں) حضرت استاذ اس کے عملی مصداق تھے۔
اللہ کے ولیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ قسم کھالیتے ہیں تو اللہ اس کو پورا کرنے کے اسباب پیدا فرماتے ہیں۔ حضرت استاذ مختلف مواقع پر قبروں پر کتبہ، مہینوں تعزیتی جلسے کے انعقاد کے شدید مخالف تھے۔ قدرت کا کرشمہ دیکھئے ان کی موت ایسے حالات اور وقت میں ہوئی کہ خاموشی سے ممبئی کے ایک عام قبرستان میں علم و صلاح کے گنجینے کو یہ خاک کردیا گیا۔ چوں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے اجتماعات کے انعقاد پر مکمل پابندی ہے۔ تو پھر تعزیتی جلسوں کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے؟۔ مگر حضرت استاذ کا مشن اب بھی باقی ہے اور ان کی روح شاگردوں سے مخاطب ؂
ہے جنوں، اہل جنوں کے لئے آغوش وداع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جد ا، میرے بعد
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا، میرے بعد