کسی دیوار نے سیل جنوں روکا نہیں اب تک

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

انسانوں کی بستی میں انسانوں کا ایک طبقہ مزدور کہلاتا ہے ، وہ کھیت کھلیان میں کام کرتا ہے ، رکشہ چلاتا ہے ، گھر گھر اخبار پہونچاتا ہے، حصول معاش کے لئے فٹ پاتھ پر ٹھیلا لگاتا ہے، جھاڑو لگاتا ہے ، نالے صاف کرتا ہے ، کل کارخانوں میں خون پسینہ ایک کرتاہے ،کمپنیوں کو اپنی صلاحیت ، محنت اور جد و جہد سے ترقی دیتا ہے ،اس کی اس محنت کے نتیجہ میں غذائی اجناس ہم تک پہونچتے ہیں، ساگ سبزی ،میوے اور پھل ہمارے جسم و جان کو توانا ئی بخشتے ہیں،وہ صفائی کرکے ایسا ماحول بناتا ہے کہ ہم بیماریوں سے بچتے ہیں اور کام کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں، کل کارخانے اور کمپنیوں کی ساری پیداوار اور معاشی ترقیات کی ساری چکاچوند اسی کے دم قدم سے ہے، وہ اپنی توانائی لگا کر لوگوں کو امیر سے امیر تر بناتا رہتا ہے اور خود زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے اس کے پاس روپے نہیں ہوتے ، امراء نے ہردور میں اس کا استحصال کیا ہے ،یکم مئی یوم مزدوراں کے طورپر مناکر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا حق ادا کردیا؛ لیکن غلام ہندوستان سے لے کر آزاد ہندوستان تک مزدوروں کے استحصال کی لمبی داستان ہے ،یہ داستان انفرادی طور پرہم سنتے رہے تھے اورکبھی کبھی دیکھنے کو مل جاتے تھے ، اس لئے ذرائع ابلاغ میں اس کا بہت چرچا نہیں ہوتا تھا اور ان پرکئے گئے ظلم و جبر اور ان کی چیخیں امیروں کے سکوں کی جھنکار میں دب جاتی تھیں یا دبادی جاتی تھیں ،ٹریڈ یونین کے لیڈروں کوکمپنی کے مالکان خرید لیا کرتے تھے اور مزدوروں کی سنوائی نہیں ہوپاتی تھی، امراء کے پاس ذرائع اور وسائل ہیں اس لئے وہ اپنے ظلم کو بھی انصاف کا نام دے دیتے ہیں ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دھنا سیٹھوں کے گن گان میں لگ جاتا ہیں ۔ مزدوروں کے لئے آزاد ہندوستان میں قانون بنائے گئے ،ان کے حقوق کے تحفظ کے بلند بانگ دعوے کیےگئے ،کچھ مراعات انہیں دی گئیں ؛ لیکن ان سب سے بھی ان کی زندگی میں کوئی تغیر اور انقلاب نہیں آیا ۔
مزدوروں کی زندگی کی گاڑی بندھے ٹکے انداز میں چل رہی تھی کہ ۲۲/مارچ کو ہمارے وزیراعظم نےایک دن جنتا بند کا اعلان کیا، عوام سے بالکونی اور کھڑکیوں میں کھڑے ہوکر تالی اور تھالی پیٹنے کو کہا، عوام نے تالی اور تھالی پیٹنے کی بات یاد رکھی؛ لیکن بالکونی اور کھڑکی کی بات لوگ بھول گئے اور سڑکوں ،پارکوں نیزعوامی جگہوں پر باہر نکل کر تالی اور تھالی پیٹنا شروع کر دیا، ایک جشن سا ماحول پیدا ہوگیا اور اس ماحول نے سماجی فاصلے (سوشل ڈسٹنسنگ) کی ایسی کی تیسی کردی ،پھر ایک روز کے بعد ہی صرف چار گھنٹہ کی مہلت دے کر لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا، اس فیصلے میں ریاستی حکومتوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا ، کوئی منصوبہ بندی اور پلاننگ نہیں کی گئی اور پورا ملک بند ہوگیا ، آمد و رفت کے تمام وسائل بند، دوکانوں پر تالے پڑ گئے ،گھر سے نکلنا ممنوع ہوگیا ، نکلنے والوں پر پولس نے وہ ظلم ڈھائے کہ انگریزوں کی بربریت مات پڑ گئی، امیروں نے اپنی ضرورت کے سامان اسٹور کرلئے اور ان کا کام پہلے ہی کی طرح چلتا رہا، بچ گئے غریب، مزدور ، مفلس ، فقیر ، بھکاری وغیرہ تو ان کے لئے سرکارکے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا ، مزدور جو کل کارخانوں میں کام کرتے تھے ، ان کے مالکوں نے ان کی چھٹی کردی اور ان کی خبر گیری کا کوئی سامان نہیں کیا ، تالابندی کے مراحل بڑھتے ہی رہے ، پہلے اکیس دن ،پھر انیس دن ، پھر چودہ دن اور اب ۳۰/مئی تک، ایسے میں مزدور گھر سے باہر نکل آئے، آنند وہار دہلی ، گاندھی میدان غازی پور ،ممبئی کے مختلف اسٹیشنوں اور ملک کے مختلف مقامات پر لاکھوں کی تعداد میں مزدور جمع ہوگئے ،سوشل ڈسٹنسنگ کا لفظ ایک مزاق بن کر رہ گیا ، حالات ناگفتہ بہ ہوگئے تب حکومتوں کو ان مزدوروں کی سوجھی ،محدود پیمانے پر ان کے کھانے پینے کا نظم کیا گیا، اترپردیش سرکار نے بسوں کے ذریعہ اپنے مزدوروں کے لانے کا انتظام کیا ،بعد میں اسپیشل ٹرینیں چلائی گئیں؛ جو راستہ بھٹکتی رہی؛ لیکن تب تک بہت دیر ہوچلی تھی، مزدوروں کے سامنے ایک راستہ بھوکے مرجانے کا تھا ، دوسرا راستہ جمع پونجی لیکر گھر کی طرف نکل جانے کا، مزدوروں نے بغیر سوچے سمجھے کہ بارہ سو، سترہ سو، کلو میٹر کیسے پیدل جایا جائے گا ،وہ بھی سامانوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ، سڑکوں پر نکل آئے ، اوپر چلچلاتی دھوپ، نیچے تارکول کی تپتی سڑک، سرحدوں پر پولس کے ڈنڈے؛ لیکن مزدور چلتے رہے ، چپلیں ٹوٹ گئیں، پاؤں میں آبلے پڑ گئے ، ماں کی چھاتیوں کے دودھ خشک ہوگئے ، بچے بلبلا تے رہے ، کئی نے پولس کے قہر سے بچنے کے لئے ریلوے لائن کے ذریعہ چلنا شروع کیا اور گاڑی انہیں کچلتی ہوئی چلی گئی، ٹرین کی پٹریاں چیختی رہ گئیں، کتنوں نے چلتے چلتے جان دیدیا، کتنے ٹرک اور دوسری سواریوں پر سامان کی طرح لد گئے، اس لدنے کے انہیں کئی کئی ہزار روپے ٹرک ڈرائیور کو دینے پڑے اس موقع سے پہلی بار بیلوں کے ساتھ جانوروں کی طرح مزدور کو گاڑی کھینچتے دیکھا، میں نے ان حالات کا معائنہ دہلی سے بہار آنے کے دوران، سفر میں کیا ، آنکھیں بھگیں، دل رویا ، کہیں کہیں سماجی تنظیموں کے ذریعہ انہیں زندگی بچانے کے لئے تھوڑا پانی اور کھانا دیا جاتا رہا؛ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی، سماجی تنظیمیں گاؤں محلے میں کام کرتی رہیں ، یہ بھی ضروری تھا؛ لیکن اس سے زیادہ ضروری مزدوروں کی زندگی بچانے کے لئے سڑکوں کے کنارے اسٹال لگا کر ان کے راحت و آرام کا انتظام کرنا تھا ، حکومت کی نیند چوتھے لاک ڈاؤن میں پورے طور پر کھلی اور مختلف ذرائع سے انہیں اپنے گھر پہونچانے کا انتظام کیا گیا؛ لیکن یہاں بھی غیر منصوبہ بندی کی جھلک صاف نظر آئی ، اسپیشل ٹرینیں چلائی گئیں،لیکن اسٹیشن تک پہونچنے کے لئے گاڑی، سواری کو چلنے کی اجازت نہیں دی گئی ،جہاں اجازت دی گئی وہاں بھی سماجی فاصلہ کے نام پر ایک گاڑی سے ایک یا دو آدمی کے ہی جانے کی صورت فراہم کرائی گئی ، ایسے میں مزدور پھر سڑکوں پر پیدل نکل آئے ، ریلوے اسٹیشن تک پہونچنے کے لئے اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ۔ یہ مزدور مختلف جگہوں سے آئے تھے پریشان حال تھے اس لئے سوشل ڈسٹنسنگ کے لفظ کی ان کے یہاں کوئی معنویت نہیں تھی ، بہت سارے مزدوران پابندیوں کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے تھے ، جو سرکار کے ذریعہ جاری کی گئی تھیں، اس لئے انہوں نے پیدل چلنے میں ہی عافیت سمجھی اور اسپیشل ٹرینوں کے چلنے کے بعد بھی سڑکوں پر مزدوروں کا جمگھٹا لگا رہا، صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ تیرہ سال کی بچی جیوتی اپنے بیمار باپ کو ہریانہ سے سائیکل پر بیٹھا کر دربھنگہ لے آئی، آج عوامی اور سرکاری سطح پر اس کو انعام سے نوازا جارہا ہے، نویں کلاس میں اس کا داخلہ اس کے گھر جاکر کرایا گیا، اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے، کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے جیوتی کی شادی کا خرچ اٹھانے اور مالی مدد کی بات کہی، یہ سب اپنی جگہ؛ لیکن ہمیں اس کرب کو محسوس کرنا چاہیے؛ جو ایک بچی نے سات دن جھیلا ، دوسری طرف ورنگل سے خبر آئی ہے کہ نو لوگوں نے حالات سے گھبرا کر کنویں میں کود کر خود کشی کرلی، بعض لوگ اسے قتل بھی قرار دے رہے ہیں ،ایک مزدور کی طبیعت خراب ہوئی تو اسے ٹرک سے اتار دیا گیا ، امیت نامی اس مزدور کی موت سڑک پر ہوگئی، اس کا دوست جو مسلمان تھا وہ بھی اس کے ساتھ ہی ٹرک سے اترا؛ لیکن اسے وہ بچا نہیں سکا، مزدوروں کے اس سیلاب کو بند سرحدیں نہ روک پائیں، نہ پولس کے ڈنڈے اور نہ موسم کی سنگینی ان پر اثر انداز ہوئی، یہ ایک سیل جنوں تھا ؛ جسے کسی دیوار کے ذریعہ روکنا ممکن نہیں ہوا۔
دوسری طرف ریاستی حکومتوں کے درمیان سیاست جاری رہی جس کی وجہ سے کانگریس پارٹی کے ذریعہ فراہم کردہ ایک ہزار سے زائد بسوں کا مزدوروں کی گھر واپسی کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکا۔ آپسی اختلاط بڑھا تو کورونا وائرس بھی تیزی سے پھیلنا شروع ہوا اور اس مضمون کے لکھتے وقت کورونا مریضوں کی تعداد پورے ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے ، چوتھے لاک ڈاؤن کے اعلان کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی جی نے مختلف طبقات کے لئے بیس لاکھ کروڑ کے راحتی پیکج کی خوشخبری سنائی چار دن تک وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے لمبی لمبی پریس کانفرنس کرکے اس کے حصہ بخرے کی اطلاع ملک کو دی ، باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی بتائی گئی تفصیلات اس اصول پر مبنی تھیں کہ ” کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ” جو لوگ سمجھ سکے ان کا کہنا ہے کہ بیس لاکھ کڑوڑ کا بڑا حصہ امیروں کے حصہ میں چلا گیا، کسانوں اور مزدوروں کے حصہ میں قرض کی سہولت آئی اور بس۔
اب کئی سرکاریں ان کے لئے اپنی ریاست میں ہی روزگار فراہم کرنے کی سوچ رہی ہیں ، یہ ضروری ہے اس لئے کہ مریضوں کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس میں ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ نارمل ہونے میں مہینوں لگ جائیں گے، تب تک نہ تو سرکار مفت میں راشن فراہم کرسکے گی اور ان کو نقد رقم بار بار فراہم کرانا ممکن نہیں ہوسکے گا ، بیروزگاری ملک میں پہلے بھی کم نہیں تھی ، پان پکوڑہ ، اور پنکجر کو روزگار ماننے کے بعد بھی یہاں لاکھوں ہاتھوں کو کام نہیں مل رہا تھا، مختلف صوبوں سے لوٹنے والے مزدوروں کے لئے روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنا آسان نہیں ہے ، یہ صورت حال بہار اور اترپردیش میں زیادہ بھیانک ہے ، حکومت کو ایسی پلاننگ کرنی چاہیے کہ جب تک سب کچھ نارمل نہ ہوجائے ان کے زندگی گذارنے کے لئے کوئی بندوبست کیا جائے ، بہار سرکار اس سلسلے میں قابل قدر منصوبہ بنا رہی ہے ، ہندوستان بڑا ملک ہے ، یہاں دستوری طور پر پورے ملک میں جاکر کمانے کی سہولت ہے ، ایسے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ سارے مزدور اپنے ہی صوبے میں کام کریں ، یہ صندوق میں بند ہونے والے سامان نہیں ہیں کہ انہیں بند کرکے رکھ لیا جائے گا ، ایسا کرنے سے ملک کا وفاقی ڈھانچہ کمزور ہوگا اور مختلف ریاستوں کے باشندوں کے درمیان ذہنی فاصلہ بڑھے گا یہ ملک کے لئے اچھی علامت نہیں ہوگی ، جن صوبوں میں آنے والے مزدوروں کے لئے نئے مواقع فراہم کرنے کی بات کہی جارہی ہے ، وہاں بھی اس کا خاص طور پر دھیان رکھنا ہوگا کہ مزدوروں کا استحصال نہ ہو ، جس طرح یوگی سرکار نے ایک آرڈی نینس کے ذریعہ مزدوروں سے ان کے حقوق چھینے ہیں اور جس طرح کرناٹک اور ممبئی میں مزدوروں کو ان کے وطن جانے سے روکنے کی تدبیریں کی جارہی ہیں ، یہ مزدوروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، ایسا کرنے سے مزدور گھر پہونچنے کے بجائے احتجاج کے لئے سڑکوں پر اتر آئیں گے ، جس کی آواز اب سنائی بھی دینے لگی ہے، اس وبائی مرض کے دور میں یہ ملک کے لئے ایک نئی مصیبت ہوگی اور حکومتوں کے لئے اس کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوگا ایسے میں ضروری ہے کہ ہندوستان میں مزدوروں کے حقوق کے جو ضابطے ہیں انہیں پورے طور پر برتا جائے اور ہر” ہاتھ کو کام ” کے فارمولے پر عمل کیا جائے۔
(مضمون نگار امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ و جھاڑکھنڈ کے نائب ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں