مفتی عبید اللہ قاسمی
آج مورخہ 21 جون کا دن سب سے لمبا دن ہے اور سورج گہن جاری ہے. سورج گہن بھی کافی لمبا ہے جو انڈیا میں 9:15 صبح سے شروع ہوکر 3:4 دو پہر تک جاری رہے گا. سورج گہن اور چاند گہن کے موقعوں پر جو اسلامی تعلیمات ہیں ان پر ہمارا عمل ہونا چاہیے۔ نماز، عبادات، استغفار اور اضافی توجہ الی اللہ ان میں شامل ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ ہمارے ہندوستانی سماج میں اس کے علاوہ جو چیزیں ہیں وہ از قبیلِ خرافات وتوہمات ہیں،
البتہ سائنس وفزکس کے ماہرین کے مطابق کچھ باتیں بتائی جاتی ہیں ان پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ان میں احتیاط ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق سورج گہن اس وقت ہوتا ہے جب زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہوجاتا ہے. اس حیلولت کی وجہ سے سورج اہلِ زمین سے کبھی کم اور کبھی زیادہ چھپ جاتا ہے. ماہرینِ سائنس اور امریکی خلائی ادارہ NASA کے مطابق سورج گہن کے وقت سورج کی طرف ننگی آنکھوں سے دیکھنا سخت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ سورج کی تمام شعائیں سورج کے صرف بعض حصے سے ہی زمین پر آتی ہیں لہذا وہ مرتکز، Concentrated ہوتی ہیں اور ان میں شعائی طاقت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اس وجہ سے ایسی حالت میں سورج کو ایک سیکنڈ کے لئے بھی دیکھنا آنکھوں کے سب سے اہم حصہ Retina کو سخت نقصان پہنچاکر انسان کو دائمی نابینا بناسکتا ہے. ہمارے بچپن کے زمانے میں جو ٹارچ ہوتی تھی اس کے بالائی سرے کو گھمانے سے روشنی کا دائرۂ وسیع اور مرتکز ہوتا تھا، جب وسیع ہوتا تھا تو روشنی کم ہوجاتی تھی اور جب دائرہ کم ہوتا تھا تو شعائیں مرتکز ہوکر تیز اور زیادہ روشن ہوجاتی تھیں. شاید اسی طرح سورج گہن میں بھی ہوتا ہو کہ دائرہ سمٹنے کی وجہ سے شعائیں تیز ہوجاتی ہوں. بہر کیف، یقینی علم نہ ہونے کی صورت میں احتیاط کا تقاضا ہے کہ ہم سائنس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سورج کو تاک جھانک نہ کریں۔
سورج گہن، چاند گہن، زلزلہ، آسمانی بجلی، سمندری طوفان وغیرہ جو دنیا میں ہزاروں سالوں سے وقفہ وقفہ سے جاری ہیں ان کے بارے میں سائنس کی معلومات ابھی بہت ناقص اور معمولی ہیں. باوجود ریسرچ وتحقیق کے، مکمل معلومات کا احاطہ نہیں ہوسکا ہے بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ اسرارِ کائنات کے لاکھویں حصے کا بھی علم سائنس کو نہیں ہوسکا ہے، انہیں روک دینا اور بے ضرر بنادینا تو ابھی بہت دور کی کوڑی ہے. اس سے سائنس کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے. اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ خدائی طاقت کے ذرہ برابر حصے کا بھی اندازہ لگانا اور اس پر مطلع ہونا انسانی طاقت سے خارج ہے، جوں جوں سائنس ترقی کرتا جاتا ہے اور اسرارِ کائنات سے واقف ہوتا جاتا ہے اس کی سابقہ ناواقفی کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں اور ماسوا چیزوں سے حالیہ ناواقفی کی غالب گمانیت بڑھتی جاتی ہے. ایسے موقعے پر یہ کہا جاسکتا ہے ۔
جہل بڑھتا گیا جتنا میں پڑھتا گیا
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں)






