فادرس ڈے منانے والوں کے نام ۔۔۔ 

محمد علم اللہ

کل کا دن فادرس ڈے کے تلاطم کو دیکھتے گزرا۔ یوں لگا کہ جیسے سوشل میڈیا کی ورچوول دیوار پر جذبات کی لہریں مسلسل ٹکریں مار رہی ہوں۔ جس طرف نظر جاتی ہر ایک اپنے والد صاحب کی تصاویر شیئر کرتا نظر آتا یا پھر عقیدت و محبت کے ڈونگرے انڈیلتا دکھائی دیتا۔ میں ماں یا باپ کے لیے کوئی ایک دن مخصوص کرنے کو حرام تو نہیں کہتا لیکن یہ انسانی جذبات کی شریعت سے بغاوت ضرور ہے۔ ویلنٹائن ڈے اور چاکلیٹ ڈے منانے والا سماج اگر ایک دن ماں باپ کے ایثار کے شکریہ کے لیے مخصوص کرکے یہ سمجھ رہا ہے کہ اس نے خراج تحسین کا حق ادا کر دیا تو مجھے ایسے سماج سے ہمدردی ہے۔ 

ماں باپ سے اولاد کا تعلق منانے کی محتاجگی نہیں رکھتا۔ ہمارا پورا وجود والدین کے لیے سپاس گزاری کا اعلان ہے اور ہمارا مسلک ہے کہ خود کو ماں باپ کی قربانیوں کا شکر ادا کرنے کے قابل سمجھنے والا دراصل یا تو تکبر میں مبتلا ہو گیا ہے یا گستاخ ہے۔ 

اب ذرا اس مقدمہ کے دوسرے پہلو پر چلے آئیے۔ پریکٹیکل ہوکر دیکھیے تو باپ کے رشتے کے بارے عقیدت کے جس غلو کا اظہار کل دیکھا گیا کیا واقعی ویسا ہے؟ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جن کے دل میں تمام بچپن اپنے باپ کی طرف سے میل رہتا ہے۔ اس کی ایک ہزار ایک وجہیں ہو سکتی ہیں۔ اگر میں اپنی ماں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے کسی کو مسلسل دیکھوں گا تو میرا دل اس شخص کے لیے آئینہ کیسے ہو سکتا ہے؟ بھلے ہی رشتے میں وہ میرا باپ ہو اور اس کا میرے ساتھ رویہ برا بھی نہ ہو۔ کیا کسی کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنی ماں کی سسکیاں، اس کی تذلیل، چہرے پر طمانچے سے پڑے نیل یا پھر کھانے میں معمولی نمک کی کمی پر دیگچی اٹھا کر پھینک دینے اور گالم گلوچ کی اذیت کو بھول جائے؟۔

 ہم سب کی یادوں میں ایسے واقعات یا اس سے ملتی جلتی وارداتیں محفوظ ہوتی ہیں۔ جس وقت ہماری ماں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہوتی ہے تو ہم اس لائق تو نہیں ہوتے کہ باپ کا ہاتھ پکڑ لیں لیکن دل میں گانٹھ تو پڑ ہی جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر ہم ایک مخصوص دن ابا جان پر واری صدقے ہوکر دکھائیں تو اس حرکت کو کیا 

کہا جائے گا؟ منافقت؟؟۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں ان نصیحتوں کا تو انبار ہے کہ باپ کے سامنے اف تک نہ کرو، باپ کی فلاں فضیلت ہے، وہ اگر ہڈیاں بھی توڑ دے تو یہ اس کا حق ہے لیکن تعجت ہےکہ یہی واعظین اس پہلو سے گفتگو تقریبا نہ کے برابر کرتے ہیں کہ اولاد کا باپ پر کیا حق ہے؟۔ اب تک تو یہی بتانے پر زور ہے کہ سارے حق و فضائل باپ کے ہیں۔ ساری تعلیمات کا زور اولاد کو یہ باور کرانے پر ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے؟۔ باپ ہونے کے ناطے اولاد کے تئیں اس کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے رہنے کو شائد ہمارے مصلحین فضول جانتے ہیں۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں