معاشرے کی ترقی میں صحت و صفائی کا کردار

تجارت اور تعلیم کے بعد صفائی و صحت سے متعلق لائحہ عمل

کلیم الحفیظ

کہتے ہیں کہ جان ہے تو جہان ہے۔تندرستی ہزار نعمت ہے۔مگر انسان سب سے زیادہ لاپرواہی صحت اور تندرستی کے معاملے میں کرتا ہے ۔ہندوستان کے مسلمان کچھ زیادہ ہی لاپرواہ واقع ہوئے ہیں ۔ جب کہ میڈکل اور طب کی دنیا میں مسلمانوں کی گراں قدر خدمات ہیں۔ہزاروں ادویات اورفارمولے حتی ٰ کہ آپریشن میں استعمال ہونے والے بیشتر آلات بھی مسلمانوں کے ایجاد کردہ ہیں۔طب پرسینکڑوں کتابیں ہمارے اجداد کی لکھی ہوئی ہیں۔ان میںالاصمعی نے حیوانات و نباتات پر تحقیقات کیں تو ابن الھیثم نے آنکھوں کے امراض پر کام کیا، ابن سینا نے طب (Medical science) کے شعبے میں گراں قدر ذخیرہ چھوڑا ، ابوبکر زکریا رازی نے فلسفہ ، کیمیا (Chemistry) اور میڈیکل سائنس میں نام کمایا،ابوالقاسم زہراوی نے آپریشن کے دوسو سے زیادہ آلات بنائے جن کا آج بھی استعمال ہوتا ہے۔یہ بات قابل قدر ہے کہ عوام سے جڑا ہوا یہ واحد شعبہ ہے جس میں ہم زمانے کے نشیب و فراز کے بعد بھی کچھ نہ کچھ کام کرتے رہے۔طب یونانی میں مستقل کامیابیاں اس کی دلیل ہیں۔ زمانے کی گردشوں نے ہمیں قائدانہ رول سے تو دور کردیا لیکن انسانی خدمت کا جذبہ ہمیں جڑی بوٹیوں کو تلاش کرنے پر ابھارتا رہا۔حاذق الملک حکیم اجمل خاں اورحکیم عبد الحمیدؒ تک طب یونانی میں تحقیق و جستجوکا عمل دیکھا جا سکتا ہے۔آزاد ہندوستان میں بھی داکٹر پی اے عبد الغفور (مرحوم)کیرالہ، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کرناٹک اور ڈاکٹر فخرالدین محمد تلنگانہ وغیرہ نے جدیدمیڈیکل سائنس کی تعلیم کے درجنوں کالجز قائم کےے ،ساؤتھ انڈیا میں پچاس سے زائد اسپتال ہیں جو ان لوگوں کی نگرانی میں کام کررہے ہیں ۔آج ہر میدان میں جنوبی ہند کے لوگ آگے ہیں ، وہاں مسلمان بھی دیش کی مکھیہ دھارا کے ساتھ بہہ رہے ہیں ، یہ کوئی ایک دودن کی محنت نہیں ہے ،آج سے پچاس سال پہلے ان بزرگوں نے چراغ جلائے تھے جو آج سورج بن کر روشنی پھیلارہے ہیں۔

صحت کے باب میں پہلا شعبۂ طہارت و صفائی ہے ۔ہندوستانی مسلمانوں پر صفائی کو لے کر بہت سے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں ۔ اسلام نے طہارت کو نصف ایمان بتایا ہے ۔مسلم معاشرے میں عام طور پر اس کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ آپ صرف نماز کے قابل رہیں ۔خواہ آپ کا جسم ،کپڑے کتنے ہی گندے اور دھول ،پسینہ اور مٹی میں اٹے ہوں،آپ کی گلی کوچے کچرے کے ڈھیر سے بدبو پھیلارہے ہوں،آپ کا گھر کنجر خانے کا نمونہ ہو۔آپ آب دست کے فقہی اصولوں کا خیال تو رکھتے ہوں لیکن آب دست کے بعد صابن سے ہاتھ دھونے کو غیر ضروری گردانتے ہوں،آپ روزانہ نہانے کو پانی کا ضیاع کہتے ہوں،جب کہ اسلام اور اسوہ نبوی کے مطابق طہارت و صفائی میں ہر چیز شامل ہے۔آپ کے جسم اور لباس سے لے کر گھر میں استعمال ہونے والی چیزیں،آپ کے درو دیوار سے لے کر آپ کے سامنے کی سڑک اور نالیاں بھی طہارت اور صفائی میں شامل ہیں۔ایک غیر مسلم جس کے یہاں ایمان کا کوئی تصور نہیں اس کے گھر میں چولہے کو ’چوکا ‘دیے بنا کھانا نہیں بنتا، وہ غسل کےے بنا ’بھوجن ‘نہیں کرتا۔گرونانک کا عقیدت مند اپنے ”دوار“ (دروازہ) کو صرف اس لےے دھوتا ہے کہ دروازے پر اگر گندگی ہوگی تو ’گرو ‘داخل نہیں ہوں گے اور حضرت محمد کے جانثار بھول گئے کہ گندی جگہ میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔اسی گندگی کی وجہ سے ہم ہزار طرح کی بیماریوں مبتلا ہیں۔ہر اسپتال میں مسلمان مریضوں کی تعداد ان کی آبادی سے تین گنا زیادہ ہے۔اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم صفائی ،ستھرائی کا اہتمام نہیں کرتے۔بیماری کی وجہ سے عمر بھی گھٹ جاتی ہے ۔ملک میں اوسطاً سب سے زیادہ عمر کیرالہ کے لوگوں کی ہوتی ہے ،کیوں کہ وہی سب سے زیادہ صاف بھی رہتے ہیں۔جو لوگ صفائی کا اہتمام کرتے ہیں وہ کم بیمار پڑتے ہیں۔

دوسرا شعبہ بیماری سے حفاظت اور صحت کو باقی رکھنے کے لےے طبی اصولوں پر عمل کرنے کا ہے۔جس میںجلد سونے اور جلد اٹھنے کی ہدایات ، ورزش، جسمانی محنت، غذا میں صحت بخش اجزا کی شمولیت، خود کو بیماری سے بچانے کے لےے ممکنہ کوششیں شامل ہیں، یہ نماز ، روزہ جہاں عبادت ہیں وہیں حفظان صحت کے لیے بھی کار گر ہیں۔نماز کے اوقات ، وضو، قیام ، رکوع اور سجود ہمیں گناہوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔روزے کے طبی فوائد کو دیکھتے ہوئے کتنے ہی غیر مسلم روزوں کا اہتمام کرتے ہیں ۔سادہ کھانا،کم کھانا،وقت پر کھانا،چبا کر کھانا،اسلام کی یہ ساری ہدایات اسی لےے ہیں کہ ہم کم سے کم بیمار پڑیں۔

صحت کی بقا کے لئے تیسرا مرحلہ ،ڈاکٹرس ،ہاسپٹلس اور میڈیکل کالجز کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹرس کی تعداد اگرچہ تناسب کے لحاظ سے کم ہے لیکن اساتذہ کے بعد ہمارے سماج میںسب سے بڑی تعداد ڈاکٹروں کی ہی ہے ۔ان میں طب یونانی سارا کا سارا آپ کا ہے۔اس کے ڈاکٹر آپ ہیں ،اس کی دواساز کمپنیاں آپ کی ہیں۔ جدید میڈیکل میں بھی خاطر خواہ آپ ہیں،ملک بھر میں درجنوںمیڈکل کالجز آپ کے ہیں ۔ملک کی مشہور کمپنیوں میں Cipla,Wipro,Wockhardt,Medley,Himalaya,Hamdard شامل ہیں، جن کے مالک مسلمان ہیں۔سینکڑوں ہاسپٹل کا نظم آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ پیرا میڈیکل ، ہومیوپیتھی اور آیور وید میں بھی آپ کی حاضری کوئی ناگفتہ بہ نہیں ہے ۔ حجامہ اور جونک (Leech) تھیریپی بھی آپ سے وابستہ ہے جسے دوبارہ زندہ کیا جارہا ہے۔ البتہ ان میں سے زیادہ تر ادارے اور سہولیات جنوبی ہند میں واقع ہیں۔ شمالی ہند کا مذہبی طبقہ مسجد اور مدرسے بنانے میں لگارہا،اس کے مالدار الیکشن میں پیسہ پھونک کر تماشہ بنتے رہے۔اس کی عوام مسلکی خانوں میں تقسیم ہوکر لڑتی رہی ۔ جبکہ جنوبی ہند کے مسلمانوں نے برادران وطن سے علمی مقابلہ کو ترجیح دی اور بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ۔

جہاں تک آئندہ کے لائحہ عمل کا سوال ہے تو سب سے پہلی ضرورت صفائی اور صحت کے تعلق سے اپنی سوچ اور فکر میں اصلاح کی ضرورت ہے ،صحت اور صفائی لازم اور ملزوم ہیں ۔صفائی کے بغیر صحت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔صحت مند رہنے کے لےے ضروری ہے کہ بیمار ہونے سے بچا جائے۔اس سلسلے میں مقامی طور پر کام کرنے کے لےے ”مسلم ڈاکٹرس ایسوی ایشن“ قائم کی جائے ۔۔ میڈیکل کے شعبے میں آج کل زبردست کرپشن ہے ۔کمیشن خوری، غیر ضروری ٹیسٹ،نقلی ادویات ،سرکاری اسپتالوں میں رشوت ،دواؤں کی کالابازاری سے لے کر جسم کے اہم اعضا کی اسمگلنگ تک کے جرائم ہورہے ہیں،خود غرضی نے ڈاکٹروں اور ڈاکوؤں میں فرق ختم کردیا ہے۔ اس ایسوسی ایشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈاکٹرس کو ان کا مقام اور منصب یاد دلائے ،ان کو کرپشن سے روکے۔عوام کو بیدار کرنے کے لےے معاشرے میں صحت بیداری مہم چلائے، ہیلتھ ورکرس کی تربیت کرے، ہونہار بچوں کی میڈیکل کالج تک رسائی میں مدد و رہنمائی کرے،لڑکیوں کو نرسنگ کورسیز کے لےے آمادہ کیا جائے ،عام طور پر مسلمان لڑکیاں اسے معیوب سمجھتی ہیں ، جبکہ صحابیات ؓ میدان جنگ میں فوج کے ساتھ رہ کر نرسنگ کے فرائض انجام دیتی تھیں۔ ایسوسی ایشن کے ذریعہ محلہ کلینک،گشتی کلینک اور ڈسپنسریاں چلائی جائیں حسب ضرورت میڈیکل کیمپ لگائے جائیں، ایمبولینس کی سہولت فراہم کی جائے،مواقع اور وسائل ہوں تو نرسنگ ہوم اور اسپتال قائم کےے جائیں ۔ایک ضلع میں ایک میڈیکل کالج کے قیام کی جانب بھی قدم بڑھائے جائیں۔ سرکاری ،غیر سرکاری اور عالمی تنظیموں (UNICEF,WHO) کی جانب سے فراہم کردہ ہیلتھ اسکیموں سے استفادہ کیا جائے ، میڈیکل ایجوکیشن کے لےے اسکالر شپ فراہم کرانے والے اداروں کی معلومات حاصل کرکے مستحقین تک پہنچائی جائیں۔ یہ سارے کام کرنے کے ہیں اور ہمارے ہی جیسے انسان کرتے ہیں۔ سکھ ،جین اور بدھسٹ جیسی اقلیتیں جن کی تعداد ہم سے بہت کم ہے یہ سارے کام کررہی ہیں۔ آج کے ہندوستان میں جہاں غیر مسلم ڈاکٹرس مسلمان مریضوں کا علاج کرنے تک سے منع کررہے ہیں ، انھیں اسپتالوں سے دھکے دے کر نکالا جارہا ہے ، ان کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے ۔کیا خیر امت کی حیثیت سے ہماری کوئی ذمہ داری نہیں بنتی ؟ اب سوال آتا ہے کہ ان کاموں کے لےے پیسہ کہاں سے آئے گا۔؟تو اس کا جواب ہے کہ یہ سارے کام وہ ہیں جب آپ شروع کریں گے تو پیسہ بھی آنے لگے گا۔اسپتال اور میڈکل کالج تو خودبزنس فراہم کرنے والے ادارے ہیں۔ اس سے لوگ تجوریاں بھر رہے ہیں ،ہم تجوریاں بھرنے کی وکالت تو نہیں کرتے مگر اتنی امید رکھتے ہیں کہ جائز منافع کے ساتھ بھی میڈیکل کے شعبہ میں پیسہ کی کمی نہیں آئے گی ۔سول سوسائٹی کے دوسرے افراد کے تعاون سے ہر بستی اور ہرشہر میں اگر منصوبہ بند کام کیا جائے تو میرا یقین ہے کہ صفائی اور صحت کے بڑے مسائل پر قابو پالیا جائے گا۔ صاف ستھرے ماحول میں اک صحت مند سماج جنم لے گا۔جس کا دماغ بھی صحت مند ہوگا۔صحت مند دماغ ہی ذلت و پستی سے نکال کرعزت و عروج کی بستی تک پہنچا سکتا ہے ۔

(کالم نگار انڈین مسلم انٹلیکچول فورم کے کنوینر اور الحفیظ اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں