کافی جدّ و جہد کے بعد جیل سے رہا صفورا زرگر کو مبارک باد

عفان نعمانی

جموں میں پیدائش اور دہلی میں پلی بڑھی، جامعہ ملیہ سے سوشیالوجی میں ایم فل کر رہی و ساتھ ہی جے سی سی (جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی) کی میڈیا انچارج صفورا زرگر، جامعہ سے جیل تک جدّ و جہد سے بھری داستان سب یاد رکھا جائیگا، سلام تیری ہمت و بہادری کو جس  نے بے لگام طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمیشہ جمہوریت آئین و قانون کے روح کو  زندہ رکھا، حاملہ ہونے  کے باوجود بیباک آواز کو بلند رکھا، حق و انصاف کے لئے ثابت قدم رہی،ظلم نا انصافی کے خلاف جدّ و جہد کرنا جدوجہد کرنے والے ساتھیوں کے لئے مثال ہے۔ہمیں یاد ہے، سی اے اے احتجاج کا جدّ و جہد سے پر وہ لمحہ، جب جامعہ سے جے این یو، جے این یو سے اے ایم یو و آئی آئی ٹی تک، ہر طرف آئین و قانون کے تحفظ کے لئے، اپنی شناخت کے لئے، بے لگام طاقت کے خلاف بگُل بج چکا تھا، بیباک آواز پر بے لگام پولیس کی بربریت نے پورے ملک میں کہرام مچا دیا۔

صفورا جے سی سی کے میڈیا انچارج کے پوسٹ پر ہوتے ہوئے جانباز ہونہار نوجوانوں کو ایک ساتھ لیکر مہم میں جو پروان چڑھا وہ ملک کے ہر کونے میں بازگشت اٹھا،جو تنظیم بے لگام طاقت کے خلاف بولنے سے گھبراتی تھی، اُس کا بھی آہستہ آہستہ آواز بلند ہونے لگی، مرکز میں بیٹھی بھاجپا سرکار نیگھبراکر آناً فاناً میں Anti  CAA کارکنان کو گرفتار کرنا شروع کر  دیا،ملک کے مختلف بھاجپا حکومتی صوبوں میں خاص کرسی اے اے مخالف  کارکنان کو گرفتار کیا گیا، کئی صوبوں میں متعدد اینٹی۔ سی اے اے کارکنان پولیس کی جارحانہ لاٹھی چارج سے شہید ہو گئے،وہ جامعہ ہی ہے جہاں کے طلبہ کے ذریعہ سی اے اے مخالف مہم نے شاہین باغ احتجاج کو جنم دیا،اور ایک شاہین باغ کی بنیاد پر ملک کے مختلف مقامات پر شاہین باغ کا جنم ہوا، شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)کے مخالف احتجاج نے ملک بھر میں اس قدر طول پکڑا کہ غیر بھاجپا سرکاری صوبوں میں سی اے اے کے مخالفت میں بل پاس کیا گیا، مرکز میں بیٹھی بھاجپا سرکار بیک فوٹ پر آگئی تھی، لیکن اسی دوران گہری سازش کے تحت دہلی میں فساد ہوا، متعدد بے قصور افراد ہلاک ہوئے، کئی کمپنیوں دکانوں اور گھروں میں آگ زنی ہوئی، لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے،لیکن سرکار نے دہلی فساد کا صاف چانج کرانے کے بجائے فسادی کو کھلی چھوٹ دی،نیز فسادات کے شکار افراد کی مدد کرنے والے ایک خاص کمیونیٹی کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔

معلوم ہو کہ اس سے پہلے مرکزی وزارت داخلہ نے دہلی پولیس سے یہ یقینی بنانے کو کہا کہ کورونا اور لاک ڈاؤن کے سبب دہلی فساد معاملے کی تحقیقات دھیمی نہیں پڑنی چاہئے، جس کے بعد تشدّدی معاملے میں پولیس نے 13 اپریل تک 800 سے زائد افراد کو گرفتار کیا، جس میں 85% سے زیادہ ایک خاص کمیونیٹی  کے نوجوانوں کاروباریوں اور تعلیمی مقامات سے متصل اشخاص کو گرفتار کیا گیا، اسی کڑی میں جامعہ کے محقق طلبہ و طالبات صفورا زرگر، میران حیدر، آصف اقبال، اور سابق طلباء انجمن آف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر شفاءالرحمن  خان کو گرفتار کیا گیا۔ ان طلبہ پر رازدروہ، ھلاک، ہلاکت کی کوشش، مذہب کے بنیاد پر مختلف گروہ کے بیچ نفرت کو بڑھاوا دینے اور فساد کرنے کے جرم کے لئے معاملہ درج کیا گیا،بڑی تعداد میں جے این یو،اے ایم یو،بی ایچ یو،و عثمانیہ یونیورسٹی سمیت دیگر یونیورسٹی طلبہ و طالبات کو گرفتار کیا گیا۔

گرفتار شدہ اینٹی سی اے اے کارکنان  میں صفورا زرگر کا نام زیادہ سرخیوں میں رہا،27,سالہ صفورا زرگر کو اپنی پہلی حمل کے دوسرے تی ماہی میں 10,اپریل 2020,کو گرفتار کیا گیا تھا،صفورا زرگر کی گرفتاری اُس وقت سامنے آئی،جب کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے مودی سرکار نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا تھا،اس حال میں کہ صفورا زرگر نے  اپنے رمضان کا پہلا دن جیل میں بتائی،حالت حمل میں صفورا زرگر کی رمضان میں گرفتاری کی خبر نے ایک خاص کمیونیٹی کے دلوں کو متزلزل کر کے رکھ دیا،مختلف تنظیموں کے ذمے دار،سماجی کارکنان وسینئر صحافیوں نے صفورا زرگر کی رمضان میں گرفتاری کو غلط قرار دیتے ہوئے غم کا اظہار کیا،صفورا زرگر مرکزی حکومت کے آنکھوں کی کرکری کی اہم وجہ یہ رہی کہ جے سی سی کے میڈیا انچارج  پوسٹ پر ہوتے ہوئے سبھی جانباز ہونہار نوجوانوں کو متحد کیا،اور مرکزی حکومت کے بنائے ہوئے شہریت ترمیمی قانون CAA مخالف احتجاج کو تیز کرنے کی کوشش کی،اور بہت ہی بیباک ہوکر شہریت ترمیمی قانون CAA کو ملک کے 180, ملین مسلم اقلیتوں کے ساتھ بھید بھاؤ بتایا،اور ملک کے مذہبی آئین و قانون کے خلاف بتایا،ملکی و عالمی میڈیا میں شائع ہونے کے بعد مرکز میں بیٹھی سرکار کو یے بات ہضم نہیں ہوئی۔

آخر کار 10,اپریل 2020,کو دہلی پولیس نے گرفتار کیا،اور بعد میں عدالت میں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے انسداد دہشت گردی کے خلاف قانون غیر قانونی سرگرمی سے بچاؤ کا ایکٹ 2019,(UAPA)کے تحت کاروائی کی،معاملہ گرفتاری سے کاروائی تک ہی نہیں رکتا ہے،بلکہ گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر فاسد ذہنیت و نفرتی ہندوتو وادی گروہ نے انکی شادی اور حمل کو لیکر فحاشی، عریانی،بے بنیاد ہم جنس پرستی کا الزام لگایا،گویا جو ہو سکتا تھا صفورا زرگر کے خلاف ہر طرح کے سازش کا استعمال کیا گیا،اُن کے حمل میں پل رہے بچے کے والد محترم کی شناخت کو لیکر اعلیٰ درجے کا اٹکل پچو جھوٹ گھڑی گئی،جب کہ حقیقتِ حال یہی ہے کہ صفورا ایک نیک اور عزت ماب مقام میں پڑھائی کرنے والی نکاح شدہ حاملہ عورت ہے،قابلِ تعریف بات  یہ ہے کہ ہر طرح کے فاسد سازش کے باوجود صفورا زرگر اٹل رہی،اور مضبوطی سے قانونی لڑائی لڑتی رہی۔ آخر کار لمبے قانونی عمل و جدّ و جہد  بھری زندگی بتانے کے 73,ایّام بعد بتاریخ 23,جون 2020,بروز منگل صفورا زرگر کو دہلی ہائی کورٹ نے انسانیت کی بنیاد پر ضمانت دے دی،کافی جدّ و جہد کے بعد جیل سے رہا صفورا زرگر کو مبارک باد۔

مضمون نگار عفان نعمانی لیکچرر و ریسرچ اسکالر ہیں