مسجد آیا صوفیا اور تر کی عدالت کا فیصلہ

علامہ ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی

تمہید
قسطنطنیہ (موجودہ نام استنبول ) دنیا کے اہم ترین ملکوں میں سے ایک ہے جس کو چوتھی صدی عیسوی (330م) میں بازنطینی شہنشاہ قسطنطین اول نے بسایا تھا اور جو عالمی نقشہ پر اپنی ایک منفرد اور امتیاز ی حیثیت رکھتا ہے اور جس کے بارے میں یہاں تک کہا جانے لگا تھا کہ
” اگر پوری دنیا کو ایک حکومت قرار دیدیا جائے اور کسی شہر کو اس کا پایہ تخت بنایا جائے تو قسطنطنیہ کو اپنی انفرادیت کی وجہ سے یہ حیثیت حاصل ہے کہ اس کو دنیا کا درالخلافہ بنادیا جائے “
قسطنطنیہ کے روزقیام سے مسیحیوں نے اس کو اپنا درالخلافہ بنا کر رکھا اور اس وقت بھی یہ شہر دنیا کے اہم ترین ملکوں میں اپنی ایک الگ شان رکھتا ہے ۔
جس وقت مسلمان مسیحی حکومت کے ساتھ جہاد کر نے کے لئے میدان کارزار میں آئے اور علم جہاد سنبھالا اس وقت بھی اس شہر کو بڑی اہمیت حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مختلف موقعوں پر اس شہر کے فتح ہو نے کی پیشین گوئی اور بشارت سنائی تھی جیسا کہ غزوۂ خندق کے موقع پر ایک واقعہ کے رونما ہونے پر آپ نے اس جانب اشارہ بھی فر مایا تھا چنانچہ انہیں بشارتوں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انہیں پیشین گوئیوں کی وجہ سے مسلم خلفاء اور مجاہدین اسلام مختلف زمانوں میں اس شہر کو فتح کر نے کی کوشش اس امید و لالچ میں کر تے رہے کہ وہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان اور بشارت کا مصداق بن جائیں جس کے اندر آپ نے بڑی تاکید کے ساتھ واضح الفاظ میں ارشاد فر مایا تھا
” تم لوگ ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے چنانچہ وہ قائد کیا ہی نصیبہ ور قائد ہوگا اور وہ لشکر کیا ہی خوب لشکر ہو گا “
قسطنطنیہ اس کے فتح ہو نے سے پہلے یورپ کی سر زمین پر اسلام کے پھیلنے اور اس کی تعلیمات کے فروغ اور وسعت پانے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا تھا اس لئے یورپ کی سر زمین پر اسلام کو پوری قوت و طاقت اور پر امن طریقے سے اس کے وہاں فروغ پانے کے لئے بھی قسطنطنیہ کو فتح کر نا بے حد ضروری تھا اور یہی وجہ ہے قسطنطنیہ کی فتح کو تاریخ عالم بالخصوص یورپ اور اس کے اسلام سے ربط و تعلق کی تاریخ کے حوالہ سے اہم ترین واقعات میں شمار کیا جا تا ہے
چنانچہ یورپین مورخین اور ان کے بعد کے تاریخ نگاروں نے اس واقعہ کو قرونِ وسطی (middle ages) کا اختتام اور دور جدید کا آغاز شمار کیا ہے ۔
اور یہ بھی درست ہے کہ
وہ تمام واقعات جن کو دنیا کی خصوصی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے اور لوگوں کی دلچسپیوں کا موضوع بننے کا موقع ملا ان میں شہرقسطنطنیہ کی فتح اور آیا صوفیا چرچ کے مسجد میں تبدیل ہونے کا واقعہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے، چنانچہ اس موقع پر اس عظیم تاریخی واقعہ کی حیثیت اور اس کے تاریخی پس منظر کا مطالعہ فائدہ سے خالی نہ ہو گا جن کو ہم ذیل کی سطور میں نمبر وار ذکر کر تے ہیں ۔

(1) عثمانی دور خلافت میں شہر قسطنطنیہ کی فتح کی نوعیت اور آیا صوفیا کا مقام :

عثمانی مجاہدین جن میں سر فہرست محمد الفاتح شامل ہیں اس شہر پر بڑی پا مردی اور جرأت و ہمت کے ساتھ حملہ کیا تھا جس بہادری کے ساتھ مسلم مجاہدین نے حملہ کیا تھا اتنی قوت اور بے باکی اور دلیری کے ساتھ عیسائیوں نے قسطنطین کی رہنمائی و سپہ سالاری میں اپنا اور شہر قسطنطنیہ کا دفاع بھی کیا تھا اس وقت بازنطینی شہنشاہ اپنے شہر اور اپنی عوام کو بچانے کے لئے جو تدبیر وہ اختیار کر سکتا تھا اس نے وہ تمام تدابیر اور حکمت عملی اختیار کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ، چنانچہ اس نے سلطان کو اس شہر کے فتح کر نے اور اس پر قبضہ اور حملہ سے روکنے کے لئے مختلف پیش کشیں کیں تاکہ سلطان اپنے اس فتح اور حملہ کے عزم سے رک جائے اور اس کی طرف سے مال و دولت اور جاہ و منصب کے عطا کئے جانے کے لالچ میں آکر اس اہم اقدام سے باز رہے لیکن سلطان محمد الفاتح کا ایک ہی جواب ہو تا تھاکہ شہر جب تک ہماری تحویل اور تصرف میں نہیں آجاتا ہم کسی چیز پر صلح نہیں کر یں مزید اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار بھی نہیں ہے ہاں اس کا ہم وعدہ کرتے ہیں وہاں رہنے والے کسی بھی شہری کو کوئی تکلیف نہیں پہونچائیں گے اور نا ہی چرچوں کے ساتھ کوئی نامناسب سلوک اور برتاؤ کیا جائے گا ۔
جب محمد الفاتح کو شہر قسطنطنیہ کے فتح ہو نے کا یقین ہو گیا اس نے یہی کوشش کی کہ پر امن طریقے سے شہر میں داخلہ نصیب ہو ، چنانچہ اس نے بازنطینی شہنشاہ کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ بغیر خون خرابے کے شہر ہمارے حوالہ کردیں اور یہ چھوٹ دیدی کہ وہ خود اور اس کے اہل خانہ اور اعوان و انصار اور کوئی بھی شہری وہاں سے نکل کر جہاں جانا چاہے پر امن طریقے سے جاسکتا ہے وہ کسی کو بھی کوئی تکلیف نہیں پہونچائیں گے تمام شہریوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ یہاں رہنا چاہیں تو بے خوف و خطر رہ سکتے ہیں اور اگر کہیں اور نقل مکانی کر نا چاہیں کر سکتے ہیں، جب شہنشاہ کے پاس یہ خط پہونچا اس نے اپنے صلاح کاروں کو جمع کیا اور ان کے سامنے پوری صورتحال رکھی اس پر چند لوگوں نے پر امن طریقے سے شہر کو سلطان محمد الفاتح کے حوالہ کر نے کا مشورہ دیا لیکن ایک بڑی تعداد اس بات پر مصر رہی کہ ہم مرتے دم شہر مسلمانوں کے حوالہ نہیں کریں گے اور جب تک ہماری جان میں جان ہے ہم پھر پور مقابلہ کریں گے ، چنانچہ شہنشاہ نے آخری مر حلہ تک جنگ کرنے والے لوگوں کی رائے ہی کو ترجیح دی ۔ شہنشاہ نے محمد الفاتح کے قاصد کو ایک خط دے کر واپس کیا جس کے اندر لکھا
” شہنشاہ اس پر اللہ کا شکر ادا کر تا ہے کہ سلطان جہاں پناہ صلح و امن کے خواہاں ہیں اور یہ بھی پسند کرتے ہیں کہ ہم سے خراج (tax) وصول کرتے رہیں البتہ جہاں تک شہر قسطنطنیہ کا تعلق ہے تو اس بارے میں میں بالحلف کہتا ہوں کہ اپنی زندگی کے آخری دم تک میں اس شہر کو مسلمانوں کے حوالہ نہیں کروں گا اور آخری مرحلہ تک اس شہر کا دفاع کرتا رہوں گا اب یا تو اس کا تخت شاہی محفوظ رہے گا یا پھر شہر قسطنطنیہ کی فصیلوں ہی میں اس کو دفنا دیا جائے گا “
چنانچہ جب محمد الفاتح کو یہ خط ملا اس نے خط پڑھ کر کہا
”بہت اچھا اب یا تو بہت جلد قسطنطنیہ میں میرا تخت شاہی ہو گا یا پھر وہاں میری قبر ہو گی “
اس کے بعد سلطان اپنے خیمہ واپس آیا اور اس نے اپنے لشکر کے اہم حضرات کو بلایا اور ان کو آخری ہدایات دی اور ان کے سامنے اپنی مندرجہ ذیل تقریر کی
” جب ہمیں قسطنطنیہ پر فتح حاصل ہو جائے گی تو ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے ایک حدیث اور آپ کے معجزات میں سے ایک معجزہ کے مصداق بن جائیں گے اور اس عزت و وقار اور مقام و بزرگی کا حصول ہمارے لئے خوش نصیبی کا باعث ہو گا ، جس کی اس حدیث سے تصدیق ہوتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلق سے بیان فرمائی ہے چنانچہ ہمارے لشکر کے ہر ہر سپاہی کو یہ اطلاع کردو کہ :
” وہ بڑی کامیابی جس کو ہم عنقریب حاصل کر نے والے ہیں اس سے انشاء اللہ اسلام کی قدر و منزلت اور عزت و شرف میں اضافہ ہو گا ہر ایک فوجی کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کی تعلیمات کو اپنا مطمح نظر بنائے کسی سے بھی ان تعلیمات کے خلاف کوئی عمل صادر نہ ہو وہ چرچوں اور عبادت گاہوں سے دور رہیں ان کو کسی بھی طرح کی تکلیف پہو نچانے سے گریز کریں پادریوں کمزوروں اور ایسے بوڑھوں سے کوئی تعرض نا کریں جو لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے “
اس وقت بازنطینی شہنشاہ شہر میں عام گریہ و زاری کے لئے لوگوں کو جمع کرتا اور مرد عورت بچے سب کو بلاتا اور مسیحی طریقۂ عبادت کے مطابق سب سے دعا و انابت الی اللہ کی گزارش کرتا کہ ہو سکتا ہے ان کی دعا قبول ہوجائے اور وہ اس گھیرا بندی سے محفوظ رہیں ، چنانچہ اس موقع پر شہنشاہ نے لوگوں کے سامنے اپنی فصیح و بلیغ تقریر کی اور یہ اس کی آخری تقریر تھی جس میں اس نے لوگوں کو پر زور طاقت سے کہا کہ اگر میں مر بھی جاؤں تو شہر کا دفاع کرتے رہنا اور عثمانی مسلمانوں کے سامنے نصرانیت کی حمایت میں جان دینے سے دریغ نا کرنا ۔ مؤرخین کے ذکر کے مطابق یہ ایک ایسا ولولہ انگیز خطاب تھا جس نے حاضرین پر گریہ طاری کردیا اسی طرح شہنشاہ اور اس کے ساتھ عیسائیوں نے ’آیا صوفیا چرچ‘ جو ان کے نزدیک سب سے زیادہ مقدس چرچ ہے ۔ آخری نماز ادا کی اور پھر اس نے اپنے محل کا آخری دیدار کیا اور وہاں موجود لوگوں کو کو الوداع کہا اور ان سے مصافحہ کیا اور اس وقت کا یہ منظر دیدنی تھا عیسائی مؤرخین نے اس واقعہ کے بارے میں لکھا ہے کہ :
” اس وقت جو شخص وہاں موجود تھا اس کا بیان ہے ” کہ اگر پتھر دل شخص بھی وہاں ہوتا تو یہ منظر دیکھ اس کی آنکھیں بھی چھلک پڑتیں “
سلطان محمد الفاتح نے صلح کے ذریعہ شہر کو حوالہ کرنے سے نا امید ہوکر منصوبہ بند حملہ کرنے ، قلعوں اور فیصلوں کو نشانہ بنانے اور کامیابی کے لئے حقیقی اور ظاہری وسائل کو اختیار کرنے کا ارادہ کیا اور جمادی الاول 857ھ مطابق 29 مئی 1453ع بروز منگل صبح ایک بجے قریب مجاہدین کو جن کی صدائیں نعرۂ تکبیر کے ساتھ فضا میں گونج رہی تھیں ، احکامات دینے کے بعد شہر پر حملہ کر نے کی اجازت دی جس وقت مجاہدین قلعوں کی جانب بڑھے ، عیسائیوں کے حواس باختہ ہوگئے ، اس کے بعد دوسرا حملہ نہایت ہی منصوبہ بندی اور مکمل استحکام و مضبوط پلاننگ کے تحت بیک وقت فضائی اور زمینی کیا گیا جس میں مجاہدین اسلام نہایت ہی ہمت و جوانمردی اور جذبۂ فداکاری و جان سپاری کے ساتھ شہادت کے حصول اور فتح و ظفر مندی کے شوق میں دشمن کی طرف پیش قدمی کرتے ہو ئے چلے ، مجاہدینِ اسلام کی ایک بڑی تعداد جام شہادت نو ش کرنے کے بعد بالآخر شہر قسطنطنیہ میں داخل ہو نے میں کامیاب ہو گئی ۔
اس وقت کہ جب قسطنطنیہ بزورِ شمشیر فتح کر لیا گیا ، سلطان محمد الفاتح نے ’ آیا صوفیا چرچ‘ کا رخ کیا اس وقت وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع تھی، جس میں ان کے ساتھ پادری بھی تھے اور وہ راہبین جو ان کے مذہبی اعمال انجام دیتے تھے، جس وقت سلطان چرچ کے دروازوں کے نزدیک آئے تو چرچ کے اندر موجود عیسائیوں پر دہشت طاری ہو گئی ایک راہب نے ان کے لئے دروازہ کھولا سلطان نے لوگوں کے خاموش و پر اطمنان اور امن و سلامتی کے ساتھ گھر واپس چلے جانے کی درخواست کی، چنانچہ لوگ مطمئن ہوگئے کچھ راہب چرچ کے تہ خانوں میں چھپے ہوئے تھے، جس وقت انہوں نے سلطان محمد الفاتح کا معاملہ عفو درگزر دیکھا ، وہ باہر نکلے اور مشرف بہ اسلام ہوگئے اس کے بعد سلطان محمد الفاتح نے چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دیا اور یہ کہ اس کے لئے نہایت تز ک و احتشام کے ساتھ تیاری کی جائے کہ آنے والے جمعہ اس میں اہتمام سے ادا کیا جائے ، چنانچہ خدمت گزار اس کی تیاری میں لگ گئے ، صلیب مجسمے ہٹائے گئے اور تصویروں کو صاف کرادیا گیا ، خطیب کے لئے منبر بنوایا گیا اور اس طرح چرچ کو مسجد بنانا جائز ہے اس لئے کہ ملک بزورِ قوت فتح کیا گیا تھا اور شریعت اسلامی کے اندر اس طرح حاصل ہو نے والی فتح کے الگ سے احکام موجود ہیں ۔
سلطان محمد الفاتح نے عیسائیوں کو ان کے دینی شعائر قائم کرنے اور ان کے ان دینی رہنماؤں کو جن کو شہری معاملات میں فیصلہ کر نے کا جواز حاصل ہو منتخب اور متعین کرنے کیا اختیار دیا ، یہی اختیار سلطان نے دوسرے ممالک میں بھی چرچ کے ذمہ داروں کو دیا تھا لیکن اسی وقت سلطان نے تمام ممالک کو یہ ہدایت بھی کی تھی کہ وہ خراج (tax) بھی ادا کرتے رہیں ۔ شیخ آق شمس الدین وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ’مسجد آیا صوفیا‘ میں پہلے جمعہ کا خطبہ دیا تھا ۔

(2) آیا صوفیا اور اس کا تاریخی پس منظر :

آیا صوفیا ( یونانی زبان جس کے معنی ” الحكمة الإلهية “کے ہیں) کا یہ نام اس کے مصر کی ایک نہایت ہی دیندار قبطی عورت کی طرف منسوب کرتے ہوئے رکھا گیا تھا ، یہ عورت بتوں کی پر ستش کرتی تھی ، مسیحیت سے متاثر ہوکر اس نے اس کو بطور مذہب اختیار کرلیا تھا، اس عورت نے مسیحیت اور اس کے رسوم و عقائد اور طرز عبادت میں اتنی گہرائی و گیرائی اور رسوخ و کمال حاصل کر لیا تھا کہ اپنے اِردگرد پائے جانے والے عیسائیوں پر بھی اس نے گہری چھاپ چھوڑ دی تھی، جس کی وجہ سے بہت دور دور تک اس کی شہرت ہوگئی تھی، اس کا علم روم کے بت پرست فرماں روا اقلو دیوس (iqladius ) کو ہوا، چنانچہ اس نے اس کے قتل کا حکم جاری کرادیا جس کی بنیاد پر وہ قتل کردی گئی اور عیسائی مذہب کے مطابق یہ پہلی خاتون ٹھہری جس نے عیسائیت اختیار کرنے کی پاداش میں سزائے موت پائی بازنطینی شہنشاہ قسطنطین اکبر کے دور حکومت میں اس کی نعش قسطنطنیہ لائی گئی اور وہیں دفن کی گئی، اسی کے اطراف میں ایک پر شکوہ چرچ چوتھی صدی عیسوی (360ع) میں تعمیر کیا گیا جس کا نام آیا صوفیا ہے ۔
چرچ کی پہلی تعمیر جو کسی زلزلہ یا اس وقت کے کسی بازنطینی شہنشاہ کی اخرد برد منہدم ہوگئی تھی، ثیو دوسیوس الثانی نامی بازنطینی شہنشاہ نے اس کی دوبارہ تعمیر کروائی اور پانچویں صدی ( 415ع) میں اس کو عبادت کے لئے کھلوادیا اس کے بعد کسی شورش کی وجہ اس چرچ کو چھٹی صدی عیسوی (532ع) میں مسمار کردیا گیا، دوبارہ پھر اس کی تعمیر تیسری مرتبہ اس وقت کے بازنطینی شہنشاہ جیسٹینین الاول کے ذریعہ ہوئی اور پانچ سال تک جب تک تعمیر مکمل اور اس کا باضابطہ افتتاح نہیں ہوگیا تعمیری کام چلتا رہا ، چنانچہ 537ع میں اس کا دوسری مرتبہ افتتاح عمل میں آیا اور اس مرتبہ ’ آیا صوفیا ‘ اس موجودہ شکل اور حقیقی صورت میں تعمیر ہو کر منصۂ شہود پر آیا جس شکل میں اسے آج ہم دیکھتے اور جانتے ہیں ۔
یہ چرچ فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے، جو باز لیکی طرز تعمیر کی اعلی مثال پیش کرتا اس کو باز لیکی طرز تعمیر پر تیار کیا گیا اور بطور تاج کے اس کے اوپر ایک گنبد تعمیر کیا گیا جو دنیا کے بلند ترین گنبدوں میں سے ایک ہے، جس کی ضخامت و پھیلاؤ 21 میٹر اور بلندی 55 میٹر ہے اس کا یہ گنبد اس کے اکثر اندرونی حصہ کو گھیر لیتا ہے اس چرچ کا اندرونی حصہ کتبات تصاویر نقش و نگار سے مزین ہے، جو اس کی دیواروں کے داخلی حصہ پر بنائے گئے ہیں مشہور عربی سیاح ابن بطوطہ نے بھی اس کی تعریف میں لکھا اور اس کے متعلق لکھا کہ :
” یہ روم کا سب سے بڑا اور دلکش و جاذب نظر چرچ ہے “
تیرہویں صدی عیسوی (1204ع) میں قسطنطنیہ کے کیتھولک عیسائیوں کے ذریعہ فتح ہو نے کے بعد آیا صوفیا کو رومن کیتھولک چرچ میں تبدیل کر دیا گیا اور مستقل اسی حالت میں رہا۔ 1261ع میں دوبارہ جب بازنطینی حکومت قائم ہوئی تو ’؛آیا صوفیا ‘ کو بھی پیٹر یارک آرتھو ڈیسک چرچ میں تبدیل کر دیا گیا۔
1453ع میں قسطنطنیہ کے مسلمانوں کے ذریعہ فتح ہونے کے بعد سلطان محمد الفاتح نے آیا صوفیا کو مسجد میں تبدیل کر نے کا حکم دیا چنانچہ سلطان محمد الفاتح کی موجودگی میں اس میں پہلی مرتبہ اذان دی گئی اور نماز ادا کی گئی ۔ عثمانی ترکوں کا یہ معمول تھا جب بھی وہ کسی شہر یا قلعہ کو فتح کرتے تو وہ وہاں کے قلعوں اور میناروں پر عثمانی پرچم نصب کرتے اور پھر وہاں اذان دیتے اور فتح کی نشانی اور اس کی شناخت کے طور پر وہاں کے بڑے بڑے چرچوں کو مسجد میں تبدیل کر دیتے تھے ۔
آیا صوفیا سینکڑوں برس چرچ رہنے کے بعد اس وقت سے مسجد میں تبدیل ہو گیا جس میں ایک خدائے بزرگ و بر تر کی بندگی ہوتی تھی اور کوئی بھی شر کیہ عمل نہیں ہو تا تھا اور طویل عثمانی دور خلافت میں برابر مسجد کی شکل میں موجود رہا اس زمانہ میں صرف چند تعمیری تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں خلافت عثمانیہ کے سقوط اور تر کی میں جمہوری حکومت کے قائم ہو نے کے بعد تر کی شناخت کو ختم کرنے اور اس کی تہذیب و ثقافت کو مغربی رنگ نیں رنگنے کے لئے بیسویں صدی عیسوی (1931ع) میں تین سال تک ’ آیا صوفیا مسجد‘ کو جب تک کمال اتاترک کی حکومت نے اس کو 1934ع میں ایک میوزیم میں تبدیل کر نے کا فیصلہ نہیں کر دیا بند کر دیا گیا اور پھر یکم فروری 1935ع میں اس کو سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا ۔
10 /جولائی 2020ع کو تر کی عدالت نے آیا صوفیا کے میوزیم قرار دیئے جانے کے فیصلہ کو باطل قراردیا اور قانونی اعتبار سے اس کے نافذ العمل نہ ہو نے کا اعلان کیا اس فیصلہ کے کالعدم اور باطل ہونے کی تائید اس تحریر سے ہوئ جس کو ترکی صدر اردگان نے بطور شہادت کے پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ آیا صوفیا کو عبادت کے لئے مسجد میں بحال کیا جائے چنانچہ اس طرح ’ آیا صوفیا ‘ مختلف تاریخی تبدیلیوں سے گزرتا رہا ’ آیا صوفیا ‘ جس کی بنیاد ایک یو نانی آرتھو ڈیسک چرچ کی حیثیت سے پڑی پھر تھی پھر جس کو رومن کیتھولک چرچ میں بدل دیا گیا تھا اور پھر اس کے بعد اس کی اصل ہیئت آرتھو ڈیسک پر لے آیا گیا تاکہ یہ مسلمانوں کے ذریعہ فتح ہو اور مسجد میں تبدیل کر دیا جائے ترکی حکومت نے اس کے متعلق فیصلہ دے کر اس کو میوزیم بنادیا تھا اور آج پھر اس کو اللہ کے فضل و کرم سے مسجد میں تبدیل کر کے مسلمانوں کے حوالہ کر دیا گیا اس پر جتنا بھی خدا کا شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔
(3) آیا صوفیا کے مسجد میں تبدیل کئے جانے کی شرعی حیثیت :
سلطان محمد الفاتح نے آیا صوفیا کو مسجد میں تبدیل کر نے کا فیصلہ صادر کر نے کی بنیا د ایک شرعی فتوی کو بنایا تھا ، جس میں ان ملکوں کے چرچوں کو مسجد میں تبدیل کر نے کو جائز کہا گیا تھاجو ملک بزورِ طاقت فتح کیے گئے ہوں چنانچہ وہ ملک جو بزورِ شمشیر فتح کیا گیا ہو اس پر یہ فیصلہ نافذ العمل ہوگا اور شریعت اسلامی کے وہ تمام احکام جو بزور طاقت فتح ہوئے ملک سے متعلق ہوتے ہیں اس ملک پر جاری ہوں گے اور اس وقت یہ فتوی سلطان محمد الفاتح کے استاد و مر بی شیخ آق شمس الدین نے دیا تھا یہ وہی شیخ ہیں جنہوں نے ’مسجد آیا صوفیا ‘ میں پہلا خطبہ جمعہ دیا تھا ، اس سلسلہ میں ایک بات اور کہی جاتی ہے کہ سلطان محمد الفاتح نے آیا صوفیا چرچ کو رومیوں سے اپنی جیب خاص سے قیمت دے کر خریدا تھا اور اس کو مسجد بنایا تھا اور پھر اس کو مسلمانوں کے لئے وقف کیا تھا البتہ پہلی روایت جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اس کو مسجد میں اس وجہ سے تبدیل کیا گیا کہ قسطنطنیہ بزورِ طاقت فتح ہوا تھا زیادہ راجح اور قابل قبول ہے ۔
مشہور مورخ ڈاکٹر محمد حرب اپنی کتاب ” العثمانیون فی التاریخ والحضارة” کے اندر لکھتے ہیں
” غازی کو قانونی اعتبار سے بھی یہ حق حاصل ہوتا ہے اور شہر میں موجود ہر چیز کے مالک ہو نے کی حیثیت سے بھی کیوں کہ وہ فاتح لشکر کی طرف سے نمائندگی کے فرائض انجام دیتا ہے (یہ اس صورت میں ہے جبکہ شہر بزور طاقت فتح کیا گیا ہو) نیز یہ بھی غازی کو حق حاصل ہے کہ وہ آدھے چرچوں کو ہمیشہ کے لئے مسجد میں تبدیل کر دے یا ان کو فرخت کر دے اور آدھوں کو شہر کی عوام کے لئے ان کو ان کی سابقہ حالت میں بر قرار رہنے دے سلطان محمد الفاتح کے اوقاف میں اب بھی بہت سے اوقاف ایسے ہیں جو آج بھی اپنی سابقہ حالت پر برقرار اور بازنطینی عوام کی تحویل میں ہیں جیسے ادیرة جوکالیجا آیا لیبس کیرا ماتو اور الکس وغیرہ ۔
پروفیسر ڈاکٹر احمد شیمشیر گیل ( جو کہ مرمرة یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد ہیں) نے لکھا ہے کہ
” آیا صوفیا کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل نہ کر نے کے حق میں نا سیاسی نا مالکانہ نا انتظامی غرض کوئ بھی ایسا مانع نہیں پایا جاتا جس سے اس بات کی تائید ہوتی ہو کہ آیا صوفیا کو مسجد میں تبدیل کرنا غیر قانونی ہے رہا آیا صوفیا کو مسجد سے میوزیم میں تبدیل کر نے فیصلہ تو یہ کابینہ کے وزرا ء اور ترکی انتظامیہ کے ذریعہ کیا گیا ایک ایسا فیصلہ ہے جس کی نہ کوئی مالکانہ حیثیت ہے اور نہ شرعی اور نا ہی ملکی قانون اس جواز فراہم کر تا ہے مزید انہوں نے لکھا کہ آیا صوفیا کو مسجد میں سلطان محمد الفاتح کے حکم سے اور ان مالکانہ حقوق اور ایسے اسلامی احکام کو بنیاد بنا کر کیا گیا جو بزور طاقت فتح کئے گئے ملکوں سے متعلق ہیں اور جن کے بارے میں شریعت نے مسلمانوں کے لئے خصوصی ہدایات دی ہیں سلطان محمد الفاتح نے بازنطینی شہنشاہ کو متعدد بار قسطنطنیہ کے پر امن طریقہ سے حوالہ کر نے کا مطالبہ کیا اور کسی ایک مناسب رائے پر اتفاق کر نے کی درخواست کی مگر بازنطینی شہنشاہ قسطنطین یازدہم مسلسل لڑائ جاری رکھنے اور شہر قسطنطنیہ کے دفاع پر اصرار کر تا رہا یہی وجہ کے استنبول کو طاقت کے بل بوتے پر حاصل کیا گیا اور بزور طاقت حاصل کر نے والے کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ مفتوح شہر کے تمام معاملات میں تصرف کر نے کا مستحق قرار پائے کیوں کہ وہ اس شہر کی ہر چیزکا مالک اور ذمہ دار ہو جاتا ہے ۔
اس سلسلہ میں صلح کے ذریعہ حاصل ہو نے والے علاقہ کو ایسے علاقہ سے الگ کر تے ہوئے جو بزور طاقت مسلمانوں کے ذریعہ فتح ہوا ہو علامہ شیخ محمد الحسن ولد الددو نے اپنی رائے پیش کر تے ہو ئے کہا کہ
” قسطنطنیہ اور اس کی زمین یہ قیامت تک مسلمانوں کے لئے وقف ہے اس لئے کہ اس کو بزور طاقت حاصل کیا گیا ہے اور رہا مسئلہ آیا صوفیا کا تو یہ اصلا چرچ نہیں تھا بلکہ یہ چرچ کے تابع تھا اس میں بادشاہوں کی اور پاپاوں کی تاج پوشی ہوتی تھی اس لئے کہ یہ ایک متبرک مقام تھا اور سلطان محمد الفاتح نے اس کو اس کے ذمہ داروں سے خریدا تھا سلطان نے اس کو بزور قوت نہیں لیا تھا جب کہ وہ اس کو زبر دستی بھی حاصل کر سکتا تھا اور اس کو اس کا حق بھی پہو نچتا تھا لیکن یہ معاملہ اس کی طرف سے حسن عمل کی قبیل سے تھا اللہ تعالی اس کے درجات بلند فر ما ئے اور اس پر رحم و کرم کی بارش بر سائے “
(4) عثمانی ترک ایک فاتح اور مہذب قوم ہے ناکہ جنگجو اورغاصب :
انگریز مورخ ایڈورڈشیبر ڈیکریسی نے اپنی کتاب ” عثمانی ترکوں کی تاریخ ” کے میں قسطنطنیہ کو عثمانی فاتحین کے ہاتھوں حاصل کئے جانے کے واقعہ کو توڈمروڈ کر پیش کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے اور تاریخی حقائق کو بالکل مسخ کر کے پیش کیا ہے اس نے سلطان محمد الفاتح سے کینہ رکھنے اور مبارک اسلامی فتح سے عداوت کی بنیاد پر ان کے تعلق سے نہایت ہی گھٹیا افکار پیش کیے ہیں 1980ع میں شائع ہو نے والی امریکی انسائیکلو پیڈ یا نے اسلام کی مخالفت میں صیہونی بغض و عناد کی دلدل میں قدم رکھتے ہوئے یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ سلطان محمد الفاتح نے قسطنطنیہ کے بہت سے عیسائیوں کو غلام بنایا تھا اور ان کو شہر ادرنہ غلاموں کے بازار لے کر گیا تھا جہاں ان کو فروخت کر دیا گیا تھا جب تاریخی حقائق اس کے برخلاف ہیں اصل حقیقت جو ہے وہ یہ ہےکہ
” سلطان محمد الفاتح نے قسطنطنیہ والوں کے ساتھ نہایت ہی رحمدلانہ سلوک کیا تھا اس نے اپنی فوج کو قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے ساتھ نرمی برتنے کا حکم دیا تھا اور قید یوں کی ایک بڑی تعداد خاص کر یونان کے سر بر آوردہ اور مذہبی حضرات کو اپنی طرف سے فدیہ ادا کر کے آزاد کرایا تھا اس نے پادریوں کے ساتھ میٹنگ کی اور ان کو بے خوف ہوکر رہنے کا اطمنان دلایا اور کہا کہ سلطان تمہارے عقیدہ و شریعت اور مذہبی اداروں کی حفاظت کا پابند بعہد ہے سلطان نے عیسائیوں کو کسی بھی نئے پوپ کے منتخب اورمتعین کرنے کا حکم دیا چنانچہ عیسائیوں نے اجنا دیوس کو اپنا پوپ منتخب کیا اس نے اپنے پوپ منتخب ہونے کے بعد پاپاوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ شاہی محل کی طرف گیا جہاں سلطان محمد الفاتح نے نہایت ہی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا اور خوب عزت و تکریم سے نوازا اور اس کے ساتھ کھانا کھایا اور مختلف دینی و سیاسی اور معاشرتی موضوعات پر اس سے گفتگو کی جس وقت پوپ سلطان محمد الفاتح سے ملاقات کر کے باہر آیا عثمانی سلا طین اور تر کوں بلکہ عام مسلمانوں کے بارے میں بھی اس کے خیالات یکسر بدل چکے تھے اس نے محسوس کیا کہ وہ ایک مضبوط دینی عقیدہ و ایک مستحکم پیغا م اور عظیم الشان انسانیت و با کمال ہمت و جرات رکھنے والے ایک مہذب بادشاہ کے سامنے کھڑا ہے بذات خود رومی بھی اپنے پاپاوں سے بہت زیادہ مرعوب و متآثر تھے اور ان سے حد سے زیادہ خوف کھاتے تھے وہ یہ خیال کرتے تھے کہ ضرور بالضرور وہ قتل عام کی زد میں آئیں گے مگر تھوڑے ہی دنوں بعد لوگوں کے عام معمولات زندگی اطمنان اور سکون کے ساتھ بحال ہو گئے ۔
سلطان محمد الفاتح کا قسطنطنیہ کے عیسائیوں کے ساتھ عفوو درگزر کا معاملہ اور ان کے ساتھ اعلی اخلاق کا برتاؤ سلطان کے اسلام اور تعلیمات اسلام سے بے پناہ عشق ومحبت و خصوصی تعلق اور اس کے اپنے اندرونی داعیہ نیز سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و طرزعمل اور آپ کے بعد آپ کے ان خلفاءراشدین رضوان اللہ علیہم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تھا جن کے دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک اور عفوو درگزر کے واقعات سے اسلامی تاریخ کے صفحات روشن اور بھرے ہوئے ہیں اس کے علاوہ بھی سلطان محمد الفاتح کے بےشمار واقعات تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں جن سے اس کی اعلی انسانی قدروں کے تئیں انتہائ مخلص اور وفادار ہو نے اندازہ ہوتاہے، سلطان کی بہادری و دلیری اللہ کی خوشنودی حاصل کر نے کے لئے انسانی اقدار کی ترویج و اشاعت اور توسیع میں صرف ہوتی تھی نیز ظلم و بربریت و ڈکٹیٹر شپ کے خاتمہ و بیخ کنی کے لئے اور عوام الناس کو ان کے آئینی حقوق دلانے ان کے دین و مذہب میں جس کو وہ مناسب سمجھیں اختیار کر نے کی آزادی کے ساتھ ہمہ وقت تیار رہتے تھے اس لئے اگر مختصر میں کہا جائے تو ان کی حکومت اسلام کے سدا بہار درخت کے سایہ میں عدل و انصاف نظم و قانون اور ہر طرح کی آزادی و انسانیت کے ادب و احترام دلوں کے جیتنے اور ملک میں تہذیبی و تمدنی اور تعمیری و تنظیمی امور کو استحکام بخشنے والی حکومت تھی ۔
(5) سلطان محمد الفاتح کے ترک پوتوں کا عدل و انصاف:
تر کی صدر رجب طیب اردگان نے آیا صوفیا کو اس کی سابقہ حالت یعنی مسجد میں تبدیل کئے جانے تر کی عدالت کے اعلان کے بعد یہ بات بڑے شدومد کے ساتھ کہی کہ
“ترکی کی عدالت عظمی اور اس کی اعلی قیادت نے جو فیصلہ کیا ہے وہ ترکی کی عوام اور یہاں کے قانون و ضابطہ کے عین مطابق ہے نیز ترکی صدر اردگان نے آیا صوفیا کے عبادت کے لئے بطور مسجد بحال کئے جانے کے وقت گزشتہ صدی کے تیسرے د ہے میں ترکی حکومت کے آیا صوفیا مسجد کے میوزیم میں تبدیل کئے جانے والے فیصلہ کے متعلق اظہار خیال کرتے ہو ئے کہاکہ
” یہ فیصلہ ناصرف تاریخ کے ساتھ خیانت و ناانصافی ہے بلکہ قانون کے بھی صریح مخالف اور غیر منصفانہ ہے اس لئے کہ آیا صوفیا حکومت یا کسی مذہبی ادارے کی ذاتی ملکیت تھا ہی نہیں یہ تو سلطان محمد الفاتح کی موقوفہ جائیداد کی ملکیت تھا “
انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ
” ماضی میں یہ فکرہ بھی پیش کیا گیا کہ ایک دوسری مسجد کو سینیما اور استنبول میں واقع یلدیز کے تاریخی محل کو جواخانہ اور آیا صوفیا کو کلب میں تبدیل کردیا جائے اور ان میں سے کچھ چیزیں شروع بھی کردی گئ تھیں ۔”

رجب طیب اردگان نے یہ بھی کہاکہ

” آیا صوفیا کو وقف نامے میں بیان کئے گئے مندرجات کا لحاظ کر تے ہوئے اس طرح مسجد میں تبدیل کرنے کا ترکی کو جواز اور حق حاصل ہے “
اس موقع پر سب سے اہم اور قابل ذکر بات رجب طیب اردگان نے یہ کہی کہ
” آیا صوفیا مسجد کو ایک انسانی وراثت کے طورپر رکھا جائے گا اس کے دروازے تمام شہریوں خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم سب کے لئے کھلے رہیں گے ۔”
اور ہمارا خیال بھی یہی ہے کہ ترکی کی مسلم عوام بالخصوص سلطان محمد الفاتح نے اپنے آبا و اجداد کی تاریخ پرناز کرتے ہوئے صدیاں گزرنے جانے کے باوجود اپنی تہذیبی شناخت و تشخص و امتیاز کی حفاظت کی ہے جس طرح مشرق و مغرب میں پھیلی ہوئی مسلم اقوام اور دنیا کے آزاد و بااختیا ر لوگوں نے اس طرح کے مواقع پر یہی طرز عمل اپنایا ہے ،تاریخ میں مسجد آیا صوفیا بڑے ظلم و زیادتی کا شکار رہی جب کہ یہ اپنے ارد گرد پائے جانے والے مختلف علمی اداروں کے درمیان علم و حکمت اور تہذیب و ثقافت اور فکر و فن کا مرکز اور مسلمانوں کے لئے مسجد کی حیثیت سے جانی جاتی تھی جس میں علم الفلکیات سے لے کر فقہ اسلامی تک اور علم ریاضی سے لے کر عقائد تفسیر لغت علم حدیث اور تصوف و سلوک تک کی تعلیم ہوتی تھی
1934-1935 ع کے درمیان مسجد آیا صوفیا کو ایک ایسے ظالمانہ فیصلہ کی بنیاد پر میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا جو عدل و انصاف کے تمام تقاضوں و قدروں اور انسانوں کے مفادات و تاریخی نتائج اور اسلامی وقف کے جملہ احکام کے صریح مخالف تھا اور جس فیصلہ نے مسلمانوں کو شدید رنج و غم میں مبتلا کر دیا تھا آیا صوفیا مسجد کےچرچ میں بدل جانے سے لوگوں کے دلوں میں ایسی ناامیدی اور کمزوری پیدا ہو گئ تھی جس نے ترکی و بیرون ترکی ایک بے اطمینانی اور انتشار کی فضا قائم کردی تھی۔ جس کے باعث آیا صوفیا کا معاملہ ایک ایسے خونی مسئلہ کی شکل اختیار کر گیا جس نے مزید گہرے نا مندمل ہو نے والے زخم پیدا کر دیئے یہاں تک ہم نے تر کی عدالت کا مبنی بر انصاف فیصلہ اور اس کو اس کی سابقہ حالت پر لانے کی تائید حاصل کر لی ۔اس فیصلہ کو سیاسی و گروہی اور وسیع اسلامی ترکی عوام کی تائید و حمایت حاصل ہوئ چنانچہ یہ عوام الناس کے ذریعہ کیا گیا انصاف ہے اور اس فیصلہ کا تہذیب و ثقافت اور ادیان و ملل کے درمیان پائ جانےوالی کشمکش سے کوئ واسطہ اور تعلق نہیں ہے چیزیں اپنی اصل کی طرف لوٹ کر آتی ہیں اور ترقی یافتہ انسانی آثار میں سے کسی یادگار کے ساتھ ہوئ تاریخی ناانصافی کو ختم کر نا ہماری ذمہ داری ہے ۔
آیا صوفیا کو مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی تاریخ کے مختلف مراحل سے گزرا ہے جس پر اللہ تبارک تعالی کا یہ فرمان صادق آتا ہے وكان أمر الله قدرا مقدورا (الأحزاب: 38)
” اللہ کا حکم نافذ ہوکر رہتا ہے .
اور اس کا یہ فرمان بھی ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفصل العظيم ” (الجمعة : 4)
“یہ اللہ کا فضل ہے اس سے جس کو چاہتا ہے فیضیا ب کرتاہے اور اللہ تبارک تعالی بڑے فضل اور احسان کرنے والے ہیں ۔”
تقريبا ایک صدی سے لوگ اس مسجد میں عبادت کرنے سے محروم تھے اس وقت دنیا کے حق پرست اور انصاف پرور حضرات کو خوش ہونا چاہئے اور اس طرح کے واقعات سے عبرت و نصیحت حاصل کرنی چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالی اپنی قدرت کے کیسے کیسے مظاہر دنیا کے اندر رونما کر تا رہتا ہے انسان خیر کے ذرائع بھی پیدا کر سکتا ہے اور دنیا کے اندر شروفساد کا واسطہ بھی بن سکتا ہے اللہ تعالی نے اس کو ہر طرح کی صلاحیتوں سے نوازا ہے البتہ دنیا کے اندر حکمرانی خدائے بزرگ و بر تر ہی کو حاصل ہے ۔
(اس مضمون کا عربی سے اردو ترجمہ
مولانا مفتی محمد ساجد ندوی کیرانہ شا ملی یو پی نے کیا ہے)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں