شرعی احکام اور حکومتی اصول کے ساتھ عید الاضحٰی منائیں

مدثر احمد قاسمیؔ
خوشی کا کوئی بھی موقع ہو، اُس کا استقبال ہم میں سے ہر شخص گرم جوشی سے کرتا ہے اور اُس کو اپنی زندگی میں مسر ت و شادما نی کا پیامبر سمجھتے ہوئے جی بھر کر اُس موقع سے مستفیض ہونے کی کوشش کرتا ہے؛ لیکن خوشی کا وہ موقع جو ناگفتہ بہ حالات اورمشکل وقت میں آئے، اُس کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس طرح کی خوشی زخم پر کار گرمرہم کی طرح ہوتی ہے جس سے صرف زخم ہی مندمل نہیں ہوتے بلکہ اطمینان کی حیات آگیں کیفیت سے بھی ہم لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہی مثال سالِ رواں بقرعید کی ہے کہ خوشی کا یہ موقع ہمیں ایسے وقت میں میسر آرہا ہے جب ہم سب کورونا وائرس جیسے وبائی مرض کی وجہ سے متنوع پریشانیوں سے دو چار ہیں: ہم میں سے بہت ساروں نے ا پنے عزیز و اقارب کو کھو دیا ہے تو بہت سے لوگ ذریعۂ معاش کے چھٹ جانے کی وجہ سے پریشان ہیں ؛ بہت سے افراد کارو بار میں مندی کی مار جھیل رہے ہیں تو بہت سوں کے لئے ایک وقت چولہا جلانا بھی مشکل امر بن گیا ہے۔ مذکورہ وجوہات کی بنیاد پر اِس سال کی بقرعید کچھ خاص ہے، اس وجہ سے ہمیں اس کی اس طرح منصوبہ بندی کرنی چاہئے کہ ہماری خوشی متعدی ہوجائے اور ا س مشکل گھڑی میں بقرعید سب کے لئے راحت کا سبب بن جائے۔
بقرعید کے دن ہمارا سب سے پہلا اور اہم عمل دو رکعت عید الاضحی کی نماز ادا کرنا ہے۔ عید الاضحی کی نماز سے پہلے کچھ سنت اعمال ہیں جن کا ہم سب کو ضرور اہتمام کرنا چاہئے۔ وہ اعمال یہ ہیں: (۱) صبح جلدی اُٹھنا (۲) مسواک (یا برش) سے دانت صاف کرنا (۳) غسل کرنا (۴) موجود کپڑوں میں سے بہترین کپڑا پہننا (۵) عطر لگانا (۶) بقرعید کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا، اور (۷) بقرعید کی نماز کے لئے جاتے ہوئے تکبیر تشریق بلند آواز سے پڑھنا۔
موجودہ حالات میں ہمیں بقرعید کی نماز کے حوالے سے حکومتی احکامات کا بھی مکمل خیال رکھنا ہے۔ جن جگہوں پر افسران عیدگاہ یا مساجد میں سماجی دوری برقرار رکھتے ہو ئے نماز کی اجازت دیں، وہاں مکمل حفاظتی اقدامات کے ساتھ مسلمان نماز ادا کریں، بصورتِ دیگر گھر پرہی نماز ادا کرلیں، یقیناً ہمارا یہ عمل بھی قربانی کا مظہر ہوگا۔ چونکہ عید و بقرعید کی نماز کا طریقہ کچھ الگ ہے اس وجہ سے اس کا طریقہ بھی ہمیں قبل از وقت ذہن نشیں کر لینا چاہئے تاکہ بغل والے کو کنکھیوں سے دیکھ کر دوگانہ ادا کرنے کی وجہ سے ہماری نماز کی روحانیت نہ چلی جائے اور ہم ایک مضحکہ خیز صورتِ حال دوچار نہ ہوجائیں۔ اسی لئے آئیے ہم بقرعید کی نماز کا طریقہ ملاحظہ کرتے ہیں:
امام تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے، پھر ہاتھ اُٹھا کرتین تکبیریں کہے، تیسری زائد تکبیر کے بعد ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لیں، مقتدی حضرات بھی امام کی اتباع کریں، پھر امام تعوذ تسمیہ کے بعد جہراً قرأت کرے۔ قرأت کے بعد حسبِ معمول رکوع و سجود کئے جائیں، پھر دوسری رکعت شروع ہوگی۔ امام قرأت کرے، قرأت کے بعد امام تین مرتبہ ہاتھ اُٹھا کر تکبیریں کہے، مقتدی بھی اس کے ساتھ ایسا ہی کریں اور چوتھی مرتبہ امام ہاتھ اُٹھائے بغیر تکبیر رکوع کہے تو مقتدی بھی ایسا کریں، اس طرح دو رکعت نماز مکمل کی جائے گی۔ نماز مکمل ہوجانے کے بعد فوراً اُٹھ کر نہ جائیں بلکہ خطبہ سننے کیلئے بیٹھے رہیں کیونکہ عیدین کا خطبہ سننا واجب ہے۔
بقرعید کی نماز کے بعد اس دن کا سب سے اہم عمل قربانی ہے۔ قربانی کے تعلق سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپؐ سے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ، یہ قربانی کیا چیز ہے؟ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام ؓنے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺاس کا ثواب کیا ہوتا ہے؟ ارشاد ہوا: قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔ (ابن ماجہ) لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم کمالِ اہتمام کے ساتھ قربانی کریں اور قربانی کرتے وقت تمام آداب و شرائط کا لحاظ رکھیں اور بطور خاص اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ قربانی کے جانور کو کم سے کم تکلیف پہنچے۔ اسی طریقے سے ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں بسنے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کا بھی ہمیں دھیان رکھنا ہے کہ اُنہیں ہمارے کسی عمل سے تکلیف نہ پہنچے کیونکہ کسی کو تکلیف پہنچانا قربانی کی روح کے منافی ہے۔ صفائی ستھرائی پرخاص توجہ دینے کے ساتھ قربانی کے تعلق سے حکومتی گائیڈ لائن پر بھی ہم ضرور عمل کریں اور کھلی جگہ میں قربانی نہ کریں۔
قربانی کرنے کے بعد ایک اہم مرحلہ گوشت کی تقسیم کا ہے۔ اس حوالے سے شریعت مطہرہ نے یہ ہدایت دی ہے کہ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے: ایک حصہ غرباء و مساکین کے لئے؛ ایک حصہ رشتہ دار و احباب کے لئے اور ایک حصہ خود کے لئے۔ اس تقسیم کو اگرچہ شریعتِ اسلامیہ نے لازم نہیں قرار دیا ہے لیکن اس تقسیم سے شریعتِ اسلامیہ کے خوشی بانٹنے کے تصور کو تقویت ملتی ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر شریعتِ اسلامیہ نے یہ کہا ہے کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم بھائیوں کو بھی دیا جاسکتا ہے چنانچہ جو برادران وطن گوشت خور ہیں ہم اُن تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔
قربانی چونکہ شعائر اسلام میں سے ہے اس وجہ سے اس کا کوئی متبادل نہیں ہے؛ لہٰذا ہر وہ شخص جس پر قربانی واجب ہے وہ قربانی ضرورکرے اور اگر استطاعت ہے تو اپنے والدین، رشتہ دار، حضور ﷺ اور دیگر افراد کی طرف سے نفلی قربانی بھی پیش کرے۔قر بانی کے حوالے سے ایک عام غفلت ہمارے معاشرے میں یہ پائی جاتی ہے کہ اکثر مرد حضرات اپنی قربانی تو ادا کر دیتے ہیں لیکن گھر کی عورتوںکی طرف سے یہ اہتمام نہیں پایا جاتا؛ حالانکہ بہت سی خواتین صرف زیورات کی وجہ سے ہی صاحب نصاب ہوجاتی ہیں اور ظاہر ہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے، اس وجہ سے اس جانب بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ آیئے ہم سب مل کر یہ دعاء کریں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عید الاضحی کے موقع پر ہماری قربانی کے صدقے میں عالمِ انسانیت کو کورونا وائرس کی ہلاکت خیز وباء سے چھٹکارا دلا کر ہمیں خوشیوں بھری زندگی عطاء فرمادیں