مجلس اتحاد المسلمین کو ملکی سطح پر مضبوط کرنا مسلمانوں کی سیاسی ترجیحات میں ہونا چاہئے!

محمد سیف الاسلام مدنی
ہمارا المیہ یہ رہا کہ آزادی کے بعد مسلمانوں نے اپنی کوئی سیاسی پارٹی نہیں بنائی بلکہ غیر مشروط طور پر دوسروں کی حمایت کرکے خود کو کمزور کرتے رہے ۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی میں افراد اور شخصیات کا نمایاں کردار ہوتا ہے ،جو اپنی دور اندیشی اور حکمت عملی کے ذریعہ حالات کو نہ صرف موافق بناتے ہیں بلکہ اسکا رخ بھی موڑ دیتے ہیں ،ماضی کی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دم پر عالم میں انقلاب برپا کردیا ماضی کے صفحات کھولئے تو معلوم ہوجائےگاکہ اقوام عالم میں مسلمان ہی وہ قوم ہے جو سب سے زیادہ تابناک اور روشن ماضی رکھتی ہے جس نے دنیا  کے طویل خطہ پر حکومت بھی کی ہے  دنیا سے ظلم کا خاتمہ کرکے انصاف کی قندیلیں بھی روشن کی ہیں، خود اسی ہندوستان پر مسلمانوں کی حکمرانی کی ایک طویل تاریخ ہے جو مسلمانوں کی عظمتہ رفتہ کا آئینہ دار اور قوم مسلم کی عظمتوں کانشاں ہے لیکن آج گردش دوراں اس قوم کو ایسے حالات میں لے آئی ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی سیاسی علمی فکری قوت کمزور ہوکر رہ گئی ،جنہوں نے دنیا کی پیاس بجھائی تھی آج وہی تشنہ لب ہوکر عالم میں تپتے ہوئے صحراؤں  لالہ زاروں اور ریگزاروں میں گھٹاؤں کی تلاش کررہا ہے جنہوں نے دنیا کو کامیابی کے راستے دکھائے آج وہی کامیابی کی تلاش میں جادہ وراہ کا متلاشی ہوکر رہ گیا جنہوں نے دنیا کو امن کی قبائیں دی تھی آج وہ محروم کفن دنیا سے کفن کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں ۔
میں یہاں عالم سے کنارہ کش ہوکر موجودہ ہند اور اسمیں ہوئی مسلمانوں کی تباہ کاریوں کو خواص طور سے لکھنا چاہتا ہوں سلطنت مغل کے سقوط کے بعد حکومت برطانیہ اور آزادی کی سنہری تاریخ اتنی معروف ہے کہ یہاں  اسپر روشنی ڈالنا ضروری نہیں سمجھتا تاہم آزادی کے مضمرات پیش منظر اور بعد آزادی مسلمانوں کی حالت زار سے چشم پوشی کرنا کسی منصف مزاج مورخ قلم کار ادیب اور صحافی کے لئے روا نہیں ہوسکتا 
آج ملکی سطح پر مسلمانوں کی حالت دلتوں اور شدروں سے بدتر ہوچکی ہے ظاہر بات ہے مسلمانوں  کا کام زمام قیادت سنبھال کر پوری قوم کو راہ دکھانا تھا لیکن بد قسمتی سے وہ خود صاحب منزل ہوکر بھٹکے ہوئے راہی کی طرح اس ملک میں پس قافلہ آنکھ بند کر کے ایسے راستے پر چل پڑے جہاں ظلم و ستم کا سمندر گھات لگائے انکا منتظر تھا  جہاں نفرتیں تھیں عداوتیں تھی ناپاک عزائم تھے۔
ہند میں مسلمانوں کی سیاسی حکمت عملی اس طرح پھیل ہوگئی کہ بعد آزادی مسلمانوں کی راہ نما تنظیم جمعیتہ علماء ہند نے غیر مشروط طورپر مسلمانوں کا مستقبل کانگریس کےسپردکردیا،اور بڑے بڑے صاحب ذی جبہ و دستار یہاں تک کہتے ہوئے سنے گئے کہ میں اس ملک میں مسلمانوں کی سیاسی پارٹی بنانا خود مسلمانوں کی مخالفت سمجھتا ہوں، ہمارا المیہ یہ رہا کہ آزاد اور منقسم ہندوستان میں ہماری کوئی سیاسی پارٹی نہیں رہی جس سے جڑ کر مسلمان سیاست میں مضبوط ہوتے اور کم از کم ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی مسلمان پارٹی سے ایوان بالا تک رسائی حاصل کرتے، مسلمان ہمیشہ اس دھوکہ میں رہے کہ کانگریس، ایس پی وغیرہ ہمارے بہت بڑے محسن ہیں اور ہمارے ہر درد اور ہر فکر کا مداوا ہیں مگر کیا زندہ قومیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنا وجود تحفہ میں کسی کے حوالہ کردیں، آج ان پارٹیوں کی اصلی حالت تو انہوں نے بھی دیکھ لی جب ہر پارٹی رام مندر کا کریڈٹ لینے کے لئے لائن میں نظر آئی اور مسلمانوں کے زخموں کو ہرا کرنے کا کوئی خواص موقع نہیں چھوڑا، اس لئے آج بھی وقت ہے کہ مسلمان اپنے ووٹ کی قیمت کو پہچانیں اور اس بات کا محاسبہ کریں کہ جن پارٹیوں کو وہ ہمدرد سمجھ کر ووٹ دیتے رہے ان سے ہمارا کیا فائدہ ہوا، ہماری زبوں حالی کے مجرم سیکولر پارٹیوں کے ساتھ وہ لیڈران بھی ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی پارٹی نہیں بنائی اور ہمیشہ دوسروں کو ووٹ دےکر اپنا ہی خنجر اپنے لہو میں ڈبوتے رہے، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کی راہیں ہموار کرنا وقت کا تقاضا ہے ۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اس وقت واحد مسلمانوں کی نمائندہ پارٹی ہے جو ہر مسئلے پربے خوف و خطر مسلمانوں کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتی ہے مجلس کے پاس تعداد نہیں جس بنیاد پر وہ توجہ کی مستحق ہے کہ آج کم از کم مجلس اتحاد المسلمین کا ساتھ دیں اور اپنی قیادت کو مضبوط کریں، ایک بات یہ بھی ہے کہ کبھی بھی اس قوم کے ٹھیکےداروں اور غلامی والی زندگی کو ترجیح دینے والوں نے یہ کبھی پسند نہیں کیا کہ ہند میں کوئی مسلمان مضبوط ہو لیکن قوم اب ان لوگوں سے اتنی انجان نہیں رہی وہ وقت اور حالات کودیکھ رہی ہے اور محفوظ بھی کررہی ہے،
مسلمانوں کو بھی غیر مسلموں جیسی دیوانگی پیدا کرنی ہوگی بی جے پی کے ووٹرس یہ نہیں دیکھتے کہ انکو ووٹ دینے میں ہمارا کیا فائدہ ہوگا لیکن مسلمان یہ سوچتا ہے کہ مجلس کو ووٹ دےکر ہمارا کیا فائدہ ہوگا ہماری ستم ظریفی یہ ہےکہ ہم اپنے دشمنوں کی غلطیاں برداشت کرکے انکو ووٹ دے سکتے ہیں لیکن اپنوں سے درگزر نہیں کرسکتے ۔
بہار الیکشن قریب ہیں اور مجلس نے بہار میں الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے منظر نامہ بھی صاف کردیا ہے نیز بہار کے اندر نوجوان بڑی تعداد میں دیگر پارٹیوں سے الگ ہوکر مجلس میں شامل ہوئے ہیں اور مجلس کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور خبریں آئی ہیں کہ بعضوں کے ساتھ سیاسی اتحاد کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے اس لئے جہاں بھی مجلس کے امیدوار ہوں مسلمان انکوووٹ دیں اور نان مسلم اور دلت کو بھی اس کے لئے آمادہ کریں انکے سامنے حقیقت حال کو پیش کریں اور ان سے ووٹ سے درخواست کریں۔
راہ پرخطر ہی صحیح لیکن جب منزل تک پہونچنا مقصود ہو تو مسلسل جد وجہد مطلوب ہوتی ہے اور پر خطر وادیوں سے گزر کر ہی انسان کامیابی کے منازل طئے کرتا ہے حالات نازک اور سنگین ہیں اس لئے افرادی قوت کو مضبوط کرکے حکمت عملی نہیں اپنائی گئی تو واپسی بہت مشکل ہوگی!

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں