مولانا بدرالحسن القاسمی
قدرت نے نہ صرف نسل انسانی کی بقا اور افزائش کیلئے بلکہ خود نوع انسانی کی تربیت اور معاشرہ میں انسانی قدروں کے فروغ کے لئے ازدواجی رشتہ کا سلسلہ شروع کیا ہے، جو انتہائی حکمت ومصلحت پر مبنی اور قدرت کے تخلیقی نظام کا شاہکار ہے، جس سے خود بخود ماں باپ، بیٹے بیٹی اور بنین و حفدہ کی تعداد بڑھتی رہتی ہے اور بعض دفعہ وہ تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہوجاتی ہے، جیسا کہ حضرت انس بن مالک کے قصہ سے واضح ہے۔ گوکہ اس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی خاص دعا کا اثر بھی واضح معلوم ہوتا ہے۔
گھر کا نظام عورت کی تمام تر ایجاد پسند طبیعت کا آراستہ کیا ہوتا ہے، جس میں مردکو اپنی قوامیت کا احساس بھی عورت کے ہی فراہم کردہ تسکین افزا ماحول میں زیادہ ہوتا ہے۔
وجود زن سے صرف تصویر کائنات میں رنگ ہی نہیں ہوتا، تصویرِ کائنات کا کوئی ڈھانچہ ہی اس کے بغیر تیار نہیں ہوسکتا۔ انسانی معاشرہ مرد و زن دونوں کے اشتراک سے تیار ہو تا ہے۔ سکون، محبت و رحمت اور گھر میں موجود ہر فرد کی راحت اس چھوٹی سی سلطنت کے اساسی ارکان ہیں اور ان کی ہی وجہ سے گھر جنت نشاں اورمعاشرہ خلد آشیاں نظر آتا ہے اور دوسری قومیں بھی رشک کی نظر سے دیکھتی ہیں۔
آدمی کی زندگی یعنی مردوزن کے درمیان باہم اشتراک یا شادی کےبعد اور بڑوں کی نگرانی سے کسی حد تک مستقل ہوتی زندگی بڑے امکانات لے کر آتی ہے۔ اس وقت سنبھلنا اور صحیح رخ پر مستقبل کی تعمیر کرنا دونوں کی مشترک ذمہ داری ہوتی ہے اور آئندہ کی سعادت اور دائمی راحت اسی مرحلہ کی توفیق پر عموماً ہوتی ہے۔
قرآن کریم نے سعادت کی زندگی اور گھریلو راحت و سکینت کا معیار اس دعا میں سکھلایا ہے : ﴿ ربنا ھب لنا من أزواجنا و ذُرِیّاتنا قرةَ أعینٌ واجْعلناَ لِلمتقینَ إماماً﴾ ۔
آنکھوں کی ٹھنڈک ایسا معیار ہے، جس کو محسوس کیاجا سکتا ہے۔ خصوصیات بیان کی جاسکتی ہیں، لیکن مکمل تعبیر نہیں کی جاسکتی ۔ چالیس پینتالیس سال بعد اچانک جدائی جس قدر شاق ہوسکتی ہے، اس کا اندازہ مشکل نہیں ہے اور خود میرے لیے یہ کتنی بڑی آزمائش ہے، یہ بھی نہ بیان کرنے کی بات ہے اور نہ برداشت کرنا ہی آسان ہے۔
اگر گویم زباں سوزد نگویم مغز استخواں سوزد
صبر کی اہمیت بھی تو شاید اسی لئے ہے۔ خاموشی سے رخصت ہوگئی، جواں سال بیٹے کی موت پر ہی میں اپنے آپ کو یتیم باپ محسوس کرنے لگا تھا، نامور فقیہ ڈاکٹر مصطفی الزرقا نے بھی اپنے آپ کو ایسا ہی محسوس کیا تھا۔
اب جبکہ میں شام زندگی کے مرحلے میں ہوں، جس میں شریکِ حیات ہی انسان کا سہارا ہوتی ہے، اس میں برداشت کی طاقت بھی جواب دے جاتی ہے۔ اب اللہ رب العزت ہی سہاراہے اور صبر کی طاقت دینا بھی اسی کی قدرت کا کرشمہ ہوگا۔
جانے والی اپنی منزل کیلئے رخصت ہوگئی۔ گھر میں عبد اللہ، علی احمد، عائشہ سبھی پر سکتہ طاری ہے۔ یا اللہ یہ کیا ہوگیا ؟ امی ہی نہیں رہیں ؟!انا للہ وانا الیہ راجعون
بیماری کے باوجود ماں ہی گھر کی رونق تھیں، ماں ہی گھر کے ہر کام میں مرجع تھیں۔ آہ امی کہاں چلی گئیں ؟
اللہ تعالی نے بعض خصوصیتیں شرست میں رکھ دی تھیں :
نماز سے تعلق اور ادائیگی کی فکر
منزل اور روزانہ ورد کا اہتمام
سیر چشمی، دوسرے کی چیزوں سے ذہن یکسر فارغ
حلال کی رغبت، حرام سے نفرت
کھانے پینے کی چیزوں میں احتیاط ۔
حرام روزی سے نفرت و وحشت
بچوں کی دینداری کے لئے بےچینی
یہ باتیں مجھے اب محسوس ہورہی ہیں، ورنہ ہمیشہ اپنی کتابوں میں مگن رہا، ان چیزوں کی طرف ذہن گیا ہی نہیں ۔ اللہ کی ایک بندی مہینوں کی بیماری اور سخت آزمائش اور بعض اہل خانہ کی طرف سے ذہنی اذیت کے بعد ہم سبھوں کو یتیم چھوڑ کر ربِّ کائنات کی آغوشِ رحمت میں پہنچ گئی ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون






