جامعہ و شاہین باغ: دو نشانِ امتیاز

سہیل انجم

گزشتہ دنوں دو خبریں ایسی آئیں جو ابھی تک موضوع گفتگو بنی ہوئی ہیں۔ ایک خبر کا تعلق جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہے تو دوسری کا شاہین باغ کے ’ سی اے اے ‘ مخالف دھرنے سے ہے۔ کہنے کو تو یہ دونوں خبریں الگ الگ ہیں لیکن حقیقتاً دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ اول الذکر خبر جامعہ کے چاہنے والوں کے لیے بڑی مسرور کن ہے اور دوسری خبر شاہین باغ کے چاہنے والوں کے لیے قدرے حیرت انگیز ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کو ایک صدی پوری ہو رہی ہے۔ اس موضوع پر روزنامہ انقلاب کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر یامین انصاری نے ایک شاندار مضمون قلمبند کیا جو انقلاب کی زینت بنا۔ اس مضمون میں انھوں نے جامعہ کے قیام، حالیہ دنوں میں چلنے والی تحریک کی قیادت اور تمام مرکزی یونیورسٹیوں میں اس کے اول پوزیشن حاصل کرنے پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے جو کہ بانیانِ جامعہ کو ایک شاندار خراج عقیدت ہے۔ این ڈی ٹی وی انڈیا کے اینکر اور سینئر صحافی رویش کمار نے جامعہ اور اس کی قیادت میں چلنے والی سی اے اے مخالف تحریک اور جامعہ کے اول آنے پر پرائم ٹائم میں ایک شاندار پروگرام کیا۔ انھوں نے اس پر روشنی ڈالی کہ جامعہ کے خلاف ہونے والی سازشوں، تحریک کے سبب حصول تعلیم کے برعکس ماحول اور دیگر ناموافق حالات کے باوجود جامعہ کیسے ٹاپ کر گئی اور کیوں ٹاپ کر گئی۔ اس پروگرام میں یہ نعرہ سنائی دیا کہ ’ پڑھے گا جامعہ، لڑے گا جامعہ، بڑھے گا جامعہ ‘۔ جامعہ کو ملک دشمنوں کا اڈہ قرار دینے والوں کو جامعہ کی شاندار کارکردگی پر شرم سے پانی پانی ہو جانا چاہیے۔ اس پروگرام کے دوران ایک طالب علم نے بتایا کہ کس طرح جامعہ کی لائبریری میں پولیس بربریت کے بعد اس کے بند ہو جانے کی صورت میں طلبہ نے احتجاج گاہ کو ہی لائبریری اور ریڈنگ روم میں بدل دیا۔ جامعہ کے نمبر ون آنے پر ایک ویب سائٹ ’دی کوینٹ‘ نے سابق شیخ الجامعہ نجیب جنگ کا انٹرویو شائع کیا ہے۔ اس انٹرویو میں نجیب جنگ نے اس پر روشنی ڈالی ہے کہ برعکس حالات کے باوجود جامعہ کیسے نمبر ون آگئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ جامعہ کا انفرا اسٹرکچر اور تدریس کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے جامعہ کو یہ فخر حاصل ہوا۔ انھوں نے سی اے اے مخالف تحریک پر طلبہ کی حمایت کی اور کہا کہ اگر وہاں کے طلبہ سماجی و سیاسی ایشوز پر سوچتے اور بولتے ہیں تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہے بلکہ یہ بات باعث فخر ہے کہ انھوں نے اپنا نقطۂ نظر احتجاج کی شکل میں رکھا۔ جو احتجاج ہوا وہ اتنا قابل فخر نہیں ہے جتنا طلبہ کے اذہان میں پیدا ہونے والے یہ خیالات ہیں کہ ہندوستان کے لیے کیا چیز اچھی ہے اور کیا بری ہے۔ انھوں نے اس پر کھل کر روشنی ڈالی کہ جامعہ کی بنیاد مہاتما گاندھی وغیرہ نے رکھی تھی اور ہمارا قومی ورثہ ہمارے لیے فخر کا باعث ہے۔ یہ ہمیشہ ایک قوم پرست ادارہ رہا ہے۔ اس نے کبھی بھی مسلم لیگ کو اپنے کیمپس میں مدعو نہیں کیا اور محمد علی جناح بھی کبھی جامعہ نہیں آئے تھے۔ ایسے قوم پرست ادارے کے سپوتوں نے جب جمہوریت اور سیکولرزم مخالف قانون کے خلاف آواز بلند کی اور ایک ایسی تحریک کی قیادت کی جو رفتہ رفتہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں پھیل گئی تو جامعہ کے تاج میں ایک اور کلغی کا اضافہ ہو گیا۔ اب نمبر ون آنے کی کلغی بھی اس تاج کی زینت بن گئی ہے۔ لہٰذا جامعہ کا اول آنا جامعہ دشمنوں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے۔ امید ہے کہ وہ عناصر اس تھپڑ کی ٹیس اب بھی محسوس کر رہے ہوں گے۔

اب ذرا شاہین باغ کا ذکر ہو جائے۔ تقریباً ایک ہفتہ قبل یہ خبر آئی کہ شاہین باغ میں سی اے اے مخالف تحریک چلانے والوں نے بی جے پی جوائن کر لی ہے۔ یہ خبر چونکانے والی تھی لہٰذا میڈیا کے نمائندے سرگرم ہو گئے اور انھوں نے تحریک میں شامل سرکردہ خواتین اور تحریک کے انتظامات کے ذمہ داروں سے انٹریوز کیے اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی تحریک چلانے والوں نے بی جے پی کا دامن تھام لیا ہے۔ راقم الحروف نے بھی متعدد افراد سے گفتگو کی۔ یہاں تک کہ شہزاد علی سے بھی بات کی جن کا نام بار بار سامنے آرہا ہے۔ شہزاد علی کے ساتھ ساتھ ماہر امراض نسواں ڈاکٹر مہرین اور عام آدمی پارٹی کی ایک سابق کارکن تبسم حسین کا نام بھی سامنے آیا۔ دہلی بی جے پی کی جانب سے جو خبر جاری کی گئی اس میں بتایا گیا کہ دو سو مسلمانوں نے بی جے پی جوائن کی ہے جبکہ بعض خبروں میں پچاس کی بات کہی گئی۔ لیکن جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ شہزاد کا تعلق تو احتجاج سے تھا ہی نہیں۔ حالانکہ میڈیا میں مذکورہ تینوں افراد کو سی اے اے مخالف دھرنے کے معروف چہروں کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ دھرنے کے ذمہ داروں اور منتظمین میں سے متعدد نے راقم کو بتایا کہ شہزاد بھی دوسرے شرکا کی مانند وہاں آیا جایا کرتے تھے، ان کے قیادت کرنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر چہ وہ پہلے علما کونسل میں تھے لیکن بی جے پی والوں سے بھی ان کے تعلقات تھے۔ وہ دھرنا ختم کرنے پر زور ڈالتے تھے اس لیے انھیں اسٹیج پر جانے ہی نہیں دیا جاتا تھا اور دو ایک بار تو ان کے ساتھ مارپیٹ بھی ہوئی تھی۔ خود بی جے پی کی ایک کارکن نگہت عباس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہزاد احتجاج میں شامل نہیں تھے بلکہ وہ اس احتجاج کو ختم کرنے پر زور ڈالتے تھے۔ لیکن بعض نیوز چینلوں نے انھیں ایسے پیش کیا کہ جیسے وہی اس تحریک کے قائد اول تھے۔ لیکن جب میڈیا نمائندوں نے ان سے بات کی کہ انھوں نے بی جے پی کیوں جوائن کی تو ان کے پاس اس کا کوئی معقول جواب نہیں تھا۔ انھوں نے دوسرے نمائندوں سے جو بات کی وہی راقم الحروف سے بھی کہی۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں بی جے پی کو مسلمانوں کا دشمن بتایا جاتا ہے اور ہم ستر سال سے کانگریس کو ووٹ دیتے آرہے ہیں۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا واقعی بی جے پی مسلمانوں کی دشمن ہے۔ اسی لیے ہم نے اس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ کتنا بچکانہ بیان ہے یہ ۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ بی جے پی مسلمانوں کی دشمن ہے یا دوست کیا اس میں شمولیت اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس کا کردار خود اس پر روشنی ڈالتا ہے۔ اب یہاں ایک شکوہ عام آدمی پارٹی سے ہے۔ جوں ہی یہ خبر آئی عام آدمی پارٹی کے ترجمان سوربھ بھاردواج نے ایک پریس کانفرنس کرکے یہ الزام عاید کر دیا کہ شاہین باغ کا دھرنا بی جے پی نے کروایا تھا۔ ان کی دلیل ہے کہ بی جے پی نے دہلی اسمبلی کا الیکشن اسی ایشو پر لڑا اور اس کا اسے فائدہ بھی پہنچا تھا۔ حالانکہ دھرنے کے دوران بی جے پی عام آدمی پارٹی پر دھرنے کو سپورٹ کرنے کا الزام لگاتی رہی ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں استاد پروفیسر اپوروانند نے ’دی وائر‘ پر ایک پروگرام میں اس معاملے پر گفتگو کی ہے اور مذکورہ الزام پر عام آدمی پارٹی کی خبر لی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی نے ایک حکمت عملی کے تحت یہ الزام لگایا ہے۔ لیکن اس الزام کا مقصد جو بھی ہو اسے شاہین باغ کو بدنام کرنا بھی کہا جاسکتا ہے۔ حالانکہ لوگوں نے اس الزام کو سنجیدگی سے نہیں لیا تاہم عام آدمی پارٹی کو بی جے پی پر سیاسی پوائنٹ اسکور کرنے کے لیے ایسی بیہودہ اور بے بنیاد بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ بقول اپوروانند شاہین باغ کا دھرنا شاہین باغ کی خواتین کا اپنا دھرنا تھا اس میں کسی کی کوئی سازش نہیں تھی۔ اور اس دھرنے کی قیادت پسماندہ اور ناخواندہ سمجھی جانے والی مسلم خواتین نے کی اور پورے ملک میں دو سو سے زائد مقامات پر شاہین باغ بن گئے اور پوری دنیا میں بیداری آگئی۔ پوری دنیا کے امن پسند طبقات نے شاہین باغ کی خواتین کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی جرأت و ہمت کو سلام کیا۔ عام آدمی پارٹی کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت نے اسے ووٹ دیا اور اس نے شاہین باغ کی خواتین پر ہی چوٹ کر دی۔ انقلاب ہی میں شائع اپنے مضمون میں سینئر صحافی انل چمڑیا نے بہت پتے کی بات کہی ہے کہ ” شاہین باغ جگہ نہیں بلکہ تحریک کا نام ہے “ ۔ شاہین باغ کے لوگوں نے وقت آنے پر پھر اسی طرح کی تحریک چلانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں