بمبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ:عدل وانصاف کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل

معصوم مرادآبادی
تبلیغی جماعت کے لوگوں کو ’قربانی کا بکرا‘ بنائے جانے سے متعلق بمبئی ہائی کورٹ نے حال ہی میں جو فیصلہ سنایا ہے، وہ عدل وانصاف کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس فیصلے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کے اس تمام کرب کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے وہ گزشتہ چھ سال کے دوران گزرتے رہے ہیں۔ عدالت عالیہ نے بہت واضح الفاظ میں ان حقائق کی نشاندہی کی ہے جنہیں گودی میڈیا نے جان بوجھ کر چھپانے کی کوشش کی تھی اور ملک میں کورونا وائرس پھیلانے کے لئے تبلیغی جماعت کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔ میڈیا نے تبلیغی جماعت کی آڑ میں ملک کے تمام مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کردیا تھا۔ جھوٹے پروپیگنڈے کا زور اتنا شدید تھا کہ جابجا مسلمانوں پر حملے ہونے لگے تھے اور انھیں کورونا کا متبادل قرار دے دیا گیا تھا۔ حالات اس درجہ خراب ہوئے کہ خود وزیراعظم کویہ کہنا پڑا کہ ”کسی بیماری کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ کوئی ذات پات۔“
ابھی چند ماہ پہلے کی ہی تو بات ہے کہ میڈیا کے فاسد پروپیگنڈے کی وجہ سے تبلیغی جماعت کے لوگوں کا جینا حرام کردیا گیا تھا اور انھیں بدی کی قوت قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔ اس وقت بھی جبکہ یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں تو ملک کے کئی حصوں میں تبلیغی جماعت کے ذ مہ داروں پر ای ڈی کی چھاپہ ماری جاری ہے اور بال کی کھال نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس وقت تبلیغی جماعت کے خلاف محاذ آرائی جاری تھی تو کئی نیوز چینل اس حد تک اتاؤلے تھے کہ انھوں نے جماعت کے رشتے ملک دشمن طاقتوں سے جوڑنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد تبلیغی جماعت کا تیاپانچہ کرنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ لیکن اب بمبئی ہائی کورٹ نے 29غیر ملکی تبلیغیوں کے معاملے میں جو دو ٹوک اور منصفانہ فیصلہ سنایا ہے‘ اس نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جس گودی میڈیا نے تبلیغی جماعت کے خلاف اتنا طومار باندھا تھا‘ اس نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی ہے۔ عدالتی فیصلے کی خبریں چند اخبارات ہی میں شائع ہوئی ہیں اور میڈیا کے بڑے حصے نے ان خبروں کو نظرانداز کردیا ہے۔ گودی میڈیا کی یہ جانبداری اور مسلم دشمنی ہی اس کی سب سے بڑی شناخت بن گئی ہے۔
بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے گزشتہ ہفتہ تبلیغی جماعت کے 29غیرملکی اراکین کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کو مسترد کرتے ہوئے جوکچھ کہا ہے‘ وہ انصاف کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ عدالت عالیہ نے اپنے منصفانہ فیصلے سے ان بے شمار لوگوں کے دلوں میں امید کی کرن پیدا کردی ہے‘ جو حالیہ عرصہ میں بعض عدالتی فیصلوں سے مایوس تھے۔ اس فیصلے سے عدلیہ پر مسلمانوں کا اعتماد مضبوط ہوا ہے اور ان کے اندر نیاحوصلہ پیدا ہوا ہے۔ عدالت نے اپنے دوٹوک فیصلے میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کے معاملے میں تبلیغی جماعت کے لوگوں کو ’قربانی کا بکرا‘ بنایا گیا اور ایک وبا ئی بیماری یا آفت کے دوران ایک سیاسی حکومت ’قربانی کا بکرا‘ تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ 58صفحات پر مشتمل فیصلے میں ڈویژن بنچ نے کہا کہ”ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت نے سیاسی مجبوری کے تحت کام کیا اور پولیس نے بھی ضابطہ کے مطابق ٹھوس قوانین کی دفعات کے تحت حاصل شدہ اختیارات کو استعمال کرنے کی ہمت نہیں کی۔“ عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں سی اے اے قانون کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ تبلیغی جماعت کے خلاف ایکشن لے کر مسلمانوں کے اندر خوف بٹھایا گیا اور انھیں بالواسطہ طور پر وارننگ دی گئی کہ کسی بھی چیز کے لئے مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کا ایکشن لیا جاسکتا ہے۔یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ غیر ملکی مسلمانوں کے ساتھ تعلق رکھنے کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا‘ جبکہ ایسا ایکشن ان غیر ملکیوں کے خلاف نہیں لیا گیاجو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔
بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کا سب سے اہم پہلو وہ ہے جس میں میڈیا کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ان غیرملکی جماعتیوں کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دینے کے لئے میڈیا نے پروپیگنڈہ مہم چلائی۔ بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ کے جسٹس ٹی وی تلواڑے اور جسٹس ایم جی سیولیکر نے انڈونیشیا، آئیوری کوسٹ، گھانا، تنزانیہ جیسے ملکوں کے تبلیغی اراکین کی طرف سے دائر کی گئی عرضیوں کا نپٹارہ کرتے ہوئے کہا کہ”میڈیا کے ذریعہ بڑا اور غیر مطلوبہ پروپیگنڈہ کرکے ایک ایسی تصویر بنانے کی کوشش کی گئی کہ جیسے یہ غیر ملکی ہی کورونا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ حکام کو توبہ کرنی چاہیے اور اس ایکشن سے جو نقصان ہوچکا ہے اس کی تلافی کرنی چاہیے۔“ واضح رہے کہ ان غیر ملکی باشندوں کے خلاف پولیس نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پرالگ الگ مسجدوں میں رہنے اور لاک ڈاؤن کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نماز ادا کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ ان پر وبائی بیماریوں کے ایکٹ‘ مہاراشٹر پولیس ایکٹ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ ان پر سیاحتی ویزا کے ضابطوں کی خلاف ورزی کا بھی الزام عائد کیا گیا تھا۔ یہ کارروائی محض مہاراشٹر تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ پورے میں 950 سے زائد غیر ملکی باشندوں کے خلاف مقدمات قائم کرکے انھیں یا تو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا یا پھر کورنٹائن کرنے کے نام پر انھیں حبس بے جا میں رکھا گیا تھا۔ اتنا ہی نہیں جن ہندوستانی باشندوں نے اس وبائی دور میں انسانی بنیادوں پر ان غیرملکی باشندوں کو اپنے گھروں یا مسجدوں میں پناہ دی تھی، ان پر بھی سنگین دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے اور ان کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی تھیں۔
ان غیر ملکی باشندوں پر ویزا قوانین کی خلاف ورزی کے جو الزامات عائد کئے گئے تھے، ان کے سلسلے میں عدالت عالیہ نے کہا ہے کہ وہ حکومت ہند کی طرف سے جاری کئے گئے ویزا پر ملک میں آئے تھے اور یہاں آنے کا مقصد تھا کہ وہ ملک کی تہذیب‘ مہمان نوازی اور کھانے کا تجربہ کریں۔ سماعت کے دوران غیر ملکی جماعتیوں نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ ہوائی اڈے پر ان کی کورونا جانچ کی گئی تھی اور جب وہ صحت مند پائے گئے تبھی انھیں ہوائی اڈے سے باہر آنے دیا گیا۔اتنا ہی نہیں انھوں نے متعلقہ پولیس افسر کو اپنی آمد سے مطلع کردیا تھا۔ 23 مارچ کو لاک ڈاؤن نافذ کئے جانے کے بعد گاڑیوں کی آمد و رفت بند ہوگئی۔ ہوٹل اور لاج بھی بند ہوگئے تو انھیں مسجد میں قیام کرنا پڑا۔ انھوں نے ضلع مجسٹریٹ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی بلکہ مرکز میں بھی سماجی دوری کے ضوابط پر عمل کیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ سبھی لوگ حضرت نظام الدین میں واقع مرکزکے اجتماع میں شامل ہوئے تھے۔
عرضی گزاروں کے حلف نامے کے جواب میں احمد نگر کے پولیس سربراہ نے کہا کہ عرضی گزار ان مقامات پر اسلام کی تبلیغ کرنے کیلئے گئے تھے اور اسی لئے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس سلسلے میں جسٹس نلواڑے نے کہا کہ”ریکارڈ پر موجود دستاویزکے مطابق غیر ملکیوں کے مذہبی مقامات پر جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے اور تبلیغی جماعت مسلمانوں کا کوئی الگ فرقہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف مذہبی اصلاح کی تحریک ہے۔ اصلاح کی وجہ سے ہر مذہب کی تشہیر ہوئی ہے‘ کیونکہ سماج میں تبدیلی کی وجہ سے ہی اصلاح کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے۔“ عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ دوسرے مذہب کے افراد کو اسلام میں داخل کرکے غیرملکی لوگ اسلام کی تبلیغ کررہے تھے۔ ہائی کورٹ کی بنچ نے کہا کہ ”مہمان نوازی کی عظیم روایت پر عمل کرنے کی بجائے غیرملکی مہمانوں پر ظلم کیا گیا۔ ہماری ثقافت میں مہمان کو بھگوان کا درجہ دیا گیا ہے، مگر موجودہ حالات نے اس پر سوال کھڑا کردیا ہے کہ کیا ہم واقعی اپنی اس عظیم روایت اور ثقافت پر عمل کررہے ہیں۔“ ہائی کورٹ بنچ نے کہا کہ ہندوستان میں کورونا سے متعلق تازہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ درخواست گزاروں کے خلاف ایسی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔ غیر ملکیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی کی تلافی کے لئے مثبت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ کے اس تاریخی فیصلے کے بعد اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو کیا سزا ملے گی جنھوں نے قطعی بے قصور اور بے ضرر لوگوں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے نہ صرف انھیں بدنام کیا بلکہ ان کا جینا بھی حرام کردیا۔ اس سلسلے میں مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی ہے اور میڈیا کی مسلم دشمنی پر قدغن لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں متعلقہ فریقوں کو نوٹس بھی جاری ہوچکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر ملک بھر میں تبلیغی جماعت کے لوگوں پرقائم مقدمات واپس لئے جائیں اور انھیں معقول معاوضہ ادا کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ان ٹی وی چینلوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے جنھوں نے مسلمانوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ان کے خلاف تشدد کو ہوا دی۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو مستقبل پھر اسی قسم کے واقعات پیش آئیں گے اور ایک بار پھر مسلمانوں کا جینا حرام کیا جائے گا۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں