عارف شجر ، حیدرآباد
کووڈ ا 19-انفیکشن کو لے کر مارچ اور اپریل کے مہینے میں جس طرح سے تبلیغی جماعت اراکین پر میڈیا ٹرائل کرکے پورے ملک کے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی وہ یقیناً ایک سازش کا حصہ تھا ۔پی ایم مودی کی بڑی ناکامی کو چھپانے کے لئے جس طرح سے گودی میڈیا نے جانبدارانہ رول ادا کرکے تبلیغی جماعت کو نشانہ بنا یا اور ملک کے پر امن ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی اسکا پردہ فاش ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کے فیصلے سے ہو گیا ہے۔ نظام الدین تبلیغی جماعت مرکز معاملہ میں ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ملک اور بیرون ملک جماعتیوں کے خلاف درج ایف آئی آر کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو ’ بلی کا بکرا‘ بنایا گیا ہے۔ یہی نہیں ہائی کورٹ نے گودی میڈیا کی جانبدارانہ رپورٹ پر بھی سوال کھڑا کیا اور کہا کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو ہی انفیکشن کا ذمہ دار بتانے کا پروپگینڈا چلایا گیا جو مناسب نہیں تھا۔ہائی کورٹ نے گودی میڈیا کے گال پر زناٹے دار طمانچہ جڑتے ہوئے کہا کہ ” دہلی کے مرکز میں غیر ملکی جماعتیوں کے خلاف پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں بڑا پروپگینڈا چلایا گیا ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی کہ جس میں ہندوستان میں پھیلے کووڈ19-انفیکشن کاذمہ دار ان بیرون ملکی ہی ہیں، ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ صاف کہا ہے کہ ’ تبلیغی جماعت کو بلی کا بکرا بنایا گیا‘ یہی نہیں ممبئی ہائی کورٹ بینچ نے گودی میڈیا اور فرقہ پرست سیاسی رہنماﺅں کو بھی اپنے فیصلے میں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں انفیکشن کے تازہ اعدادو شمار ظاہر کرتے ہیں کہ عرضی گذار کے خلاف ایسے ایکشن نہیں لیئے جانے چاہیے تھے۔غیر ملکیوں کے خلاف کاروائی کی گئی اس پر ندامت کرنے اور ازالہ کے لئے مثبت قدم اٹھائے جانے کی ضرورت ہے ۔ ہائی کورٹ بینچ نے مزید یہ بھی کہا کہ ’ ایک سیاسی حکومت اس وقت بلی کا بکرا ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے جب وبا یا آفت آتی ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ ممکن ہے ان غیر ملکیوں کو بلی کا بکرا بنانے کے لئے منتخب کیا گیا ہو۔ہائی کورٹ بینچ نے یہ صاف اور واضح کر دیا کہ ’ کسی بھی سطح پر یہ انداز ممکن نہیں ہے کہ وہ اسلام مذہب کی تشہیر کر رہے تھے یا کسی کامذہب تبدیل کر انے کا ارادہ تھا۔58صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس ٹی وی تلواڈے اور جسٹس ایم جی سیولیکر کی ڈویزن بینچ نے کہا کہ ایسا معلوم پڑتا ہے کہ یاستی حکومت نے سیاسی مجبوری کے تحت کام کیا اور پولیس نے بھی ضابطے کے مطابق ٹھوس قوانین کی دفعات کے تحت ان کو دئے گئے اختیارات کو استعمال کرنے کی ہمت نہیں کی۔
جہاں ایک جانب ممبئی ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے کی جم کر تعریف ہو رہی ہے اور” ستیہ میو جئے تے“ یعنی سچ کی ہمیشہ جیت قرار دیا جا رہا ہے تو وہیں گودی میڈیا کے ایک طبقہ میں مایوسی کا ماحول دیکھا جا رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا رہا ہے کہ اتنے اہم اور تاریخی فیصلہ آنے کے بعد بھی ابھی تک گودی میڈیا نے اس فیصلے کے سلسلے میں کوئی ڈیبٹ تک نہیں کی ہے اور نہ ہی اسے بریکنگ خبر بنا کر پیش کیا گیا ہے جبکہ مارچ اور اپریل کے دوران گودی میڈیا نے ہفتوں ، ہفتوں تک ڈیبٹ چلایا کہ تبلیغی جماعتیوں کے وجہ سے ہی ملک میں کورونا کی توسیع ہو ئی ہے انہیں کی وجہ سے ملک کے لوگ اپنی جان گنوا رہے ہیں ۔ ایک چینل نے تو اپنی کرسی سے اچھل اچھل کر تبلیغی جماعتوں کو ہندوستان کو اٹلی بنانے کی سازش قرار دے رہا تھا۔ تبلیغی جماعتوں کے بہانے ملک کے مسلمانوں کو گودی میڈیا نے کیا کیا لقب سے نہیں نوازا مسلمانوں کو کورونا جہاد تک بتایا، پاکستان پرست، مسلم پرست، اسلاموپھوبیہ تک قرار دے دیا گیا ۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ گودی میڈیا کے زہریلی اور متعصبانہ ڈیبٹ اور خبروں سے غریب مسلم ، چھوٹے موٹے کام کرنے والے فٹپاتھی دکانداروں اور سبزی فروشوں پر اسکا برا اثر پڑا انکی دکان سے نہ تو کوئی سبزی لیتا تھا اور نہ ہی انہیں اپنے کالونیوں اور محلوں میں سبزی فروخت کرنے دیتا تھا انہیں کرونا جہادی کہہ کر مارنے کے لئے دیش بھکت لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل آتے تھے یہاں تک کہ فرقہ پرست سیاسی قائدین نے اپنے اپنے علاقے میں یہ فرمان جاری کیا تھا کہ کوئی بھی ہندومسلمانوں کی دکان سے سامان نہیں لے گا یہ لوگ کورونا جہادی ہیں۔ اس پروپگینڈا کو گودی میڈیا نے جس طرح سے پھیلایا تھا وہ یقینا ملک کے لئے خطرہ تھا۔ مسلمانوں کی اس معاملے میں تعریف کرنی چاہئے کہ انہوں نے کسی بھی طرح کی بدتمیزی اور اسکا کوئی ریکشن نہیں کیا انہیں ملک کی عدالت اور اللہ پر بھروسہ تھا اسی کا نتیجہ ہے کہ ممبئی ہائی کورٹ نے میڈیا کو کہیں بھی منھ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔ ممبئی ہائی کورٹ کے سخت تبصرے نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ اب بھی انصاف باقی ہے۔ممبئی ہائی کورٹ بینچ کا تاریخی فیصلہ آنے کے بعدجمعیتہ علماءہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے خوشی کا اظہار کیا ہے ۔ ارشد مدنی نے بھی میڈیا کو آئینہ دیکھاتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو ملک کی یکجہتی، سماجی آہنگی، بھائی چارہ، مذہبی رواداری اور ہندو مسلم کے درمیان اتحاد اور بھائی چارہ پیدا کرنے کا کام کرنا چاہئے نہ کہ منافرت پھیلا نے کا،وہیں حیدرآباد سے رکن پارلیامنٹ اور آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں عدالتی فیصلے کی ستائش کرتے ہوئے لکھا کہ پوری ذمہ داری سے بی جے پی کو بچانے کے لئے میڈیا نے تبلیغی جماعت کو بلی بکرا بنایا اس پورے پروپگینڈا سے ملک بھر میں مسلمانوں کو نفرت اور تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ اس سچائی سے انکار نہین کیا جا سکتا کہ گودی میڈیا نے جس طرح سے کورونا دور کے دوران بی جے پی کی مدھیہ پردیش میں حکومت کی تشکیل پر کوئی آواز نہیں اٹھائی اور کوروناوباءکا الزام تبلیغی جماعیتوں پر ڈال دیا وہ کافی افسوس ناک پہلو تھا اس سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ گودی میڈیا نے پوری طرح سے پی ایم مودی کی ناکامی چھپانے کی کوشش کی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ گودی میڈیا اب بھی پی ایم مودی کو بچانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے ، بے تحاشہ بے روزگاری، کورونا وباءسے موت، کسانوں کی خودکشی،مزدوروں اور غریبوں کی تنگ ہالی پر کوئی بات نہیں کی جا رہی ہے۔
بہرحال! ممبئی ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے کے بعد گودی میڈیا اپنی زہریلی ، متعصبانہ اور جانبدارانہ رپورٹ سے پرہیز کتنا کرتی ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب سے پی ایم مودی نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے تب سے ملک کا گودی میڈیا پی ایم کی خامیوں پر پردہ ڈالنے اور ہندو مسلم اتحاد کو تار تار کرنے، مسلمانوں کو بدنام کرنے کی دانستہ کوشش کرنے میں اہم رول ادا کر رہی ہے۔ ما رچ اور اپریل کے مہینے میں تبلیغی جماعت کو مہرا بنا کر پورے ملک میں مسلمانوں کوزیر کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی جسے دنیا نے دیکھ لیا ہے۔ میڈیا کے ایک طبقے نے جان بوجھ کر کورونا کے بہانے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش کی اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ میڈیا کے اس رویے نے یقیناً چوتھے ستون پر سوال کھڑے کر رہے ہیں۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ اگر بے لگام اور غیر ذمہ دار میڈیا پر شکنجہ کسا نہیں گیا تو یہ ملک کے لئے تباہ کن ہوگا۔ حیرت تو اس بات کی ہوتی ہے کہ میڈیا کی یکطرفہ اور دوہرے رویہ سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ وہ اس پر روک لگانے کے بجائے خاموش تماشائی بن کر انکی زہریلی رپورٹ کی تائد کرتی ہے۔ اب کیامیڈیا پرممبئی ہائی کورٹ کے سخت تبصرے کے بعد گودی میڈیا اپنی زبان پر لگام لگا پائے گی؟کیا گودی میڈیا غیر جانبدارانہ روپورٹنگ کر پائے گی یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔
arifshajar1@gmail.com






