مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ)
حضرت مولانا سید محمد شمس الحق 1916-2007 بن سید محمد ابراہیم بن سید شاہ نور الدین حسین بن سید شاہ ولایت حسین ، سابق قاضی امارت شرعیہ ،سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر وسابق صدر مدرس مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی زہد و ورع ، رسوخ فی العلم کی وجہ سے چودہویں صدی کے ممتاز علماء میں تھے، فقہ، حدیث، امور قضا میں ان کی صلاحیت کا ایک زمانہ قائل تھا، وہ اردو، فارسی اور عربی زبان کے لکھنے، پڑھنے بولنے میں مہارت رکھتے تھے اور نثر ونظم پر ان کی قدرت مثالی تھی ، شاعری ان کے لیے ذریعۂ عزت نہیں تھی، لیکن وہ طبیعت کی جولانی کے زیر اثر شاعری بھی کیا کرتے تھے، ان کا بہت سا کلام تو ضائع ہو گیا ، جو بچ گیا ، اسے بڑی محنت، تلاش وتحقیق کے بعد نامور عالم دین، مفسر قرآن، مشہور خطیب، شاعر وادیب اور استاذ فقہ وحدیث عزیز گرامی قدر مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری دار العلوم سبیل السلام حیدر آباد نے کلامِ شمس کے نام سے مرتب کیا ہے ، اور نہ صرف مرتب کیا ہے ، بلکہ تحقیق کے فن کو برتا ہے ، دستیاب شدہ نسخوں سے موازنہ کرکے حاشیہ میں اختلافات درج کیے ہیں، اور کوشش کیا ہے کہ یہ مجموعہ ہر اعتبار سے صحیح اور درست انداز میں قاری تک پہونچے، اس کے لیے علمی دنیا مولانا موصوف کی شکر گذار ہے ۔
کتاب کی ترتیب میں قرآنی عظمت کا خیال رکھتے ہوئے عم پارہ کے ’’منظوم مفہوم‘‘ کو شروع میں رکھا گیا ہے، میں نے ’’منظوم مفہوم‘‘ کا لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ بقول مولانا عبد الماجد دریا آبادی قرآن کریم میں ’’الکتاب‘‘ کا جو لفظ استعمال ہواہے اس کا بھی صحیح ترجمہ جتنی اس میں وسعت اور جامعیت ہے ، اس کے اعتبار سے نہیں کہا جا سکتا ، یہی وجہ ہے کہ مترجمین نے آیات قرآنی کے اردو قالب میں ڈھالنے کو ترجمہ کے بجائے ترجمانی سے تعبیر کیا ہے۔
آیات اور سور قرآنی کے ’’منظوم مفہوم‘‘ بیان کرنے کے اس سلسلے کا آغاز میری ناقص معلومات کے مطابق محمد عباس عباسی بدایونی نے زاد الآخرۃ کے نام سے کیا تھا ، 1244ھ میں تکمیل کے بعد چار جلدوں پر مشتمل اس ترجمہ کی طباعت 1868ھ مطابق1258ھ میں منشی نول کشور کے لکھنؤ مطبع سے ہوئی تھی اور یہ قرآن کریم کے عربی متن کے ساتھ شائع ہوا تھا، اس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا، محمد شمس الدین سابق یزدی نے 125679 اشعار پر مشتمل منظوم مفہوم کو ترجمہ قرآن کے طور پر پیش کیا ،یہ چھوٹے سائز میں مطبع لاہور سے 2966 صفحات پر قرآن کریم کے ساتھ طبع ہوا تھا ، ابراہیم بیگ مرزا چغتائی 1940م نے بھی منظوم ترجمہ کی کوشش کی جو آگرہ سے 1934ھ میں شائع ہوا تھا ، اطہر زبیر لکھنوی کا منظوم ترجمہ سحر البیان کے نام سے کراچی میں 1951 مطابق 1370ھ میں منظر عام پر آیا ، ایک کوشش عبد العزیز خالد نے بھی کی اور فرقان جاوید کے نام سے مقبول عام اکیڈمی لاہور نے 188ء میں اسے شائع کیا، یہ منظوم مفہوم 1072 صفحات پر مشتمل ہے، ہندوستان میں کیف بھوپالی کے ترجمہ قرآن کو کافی شہرت ملی، انور جلال پوری، اور علامہ کبیر کوثر نے بھی بعض سورتوں کو منظوم اردو قالب عطا کیا، سیماب اکبر آبادی کا منظوم مفہوم قرآنی پر مشتمل ترجمہ وحیِ منظوم کے نام سے موجود ہے ، اسے سیماب اکیڈمی کراچی پاکستان نے بڑے اہتمام کے ساتھ 1981ء میں شائع کیا تھا ، یہ 974صفحات پر مشتمل ہے، ان کے علاوہ منظوم اردو مفہوم القرآنی ، عطا قاضی، قرآن منظوم پروفیسر محمد سمیع اللہ اسد، منظوم القرآن بدر الدین خان انجم عرفانی بلرام پوری بھی اس باب میں معروف ومشہور ہیں، جو ش ملیح آبادی نے بھی سورۃ رحمن سے متاثر ہو کرایک نظم لکھی، جس کا آغاز’’ اے فنا انجام انسان کب تجھے ہوش آئے گا‘‘ سے ہوتا ہے او رمخمس کے انداز میں ہر بند کا اختتام ’’کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا‘‘ پرہوتا ہے ، اس مناسبت سے کئی لوگ اسے سورۃ رحمن کا ترجمہ قرار دیتے ہیں جو صحیح نہیں ہے،کیوں کہ جوش نے اس نظم میں آیات کی مناسبت سے افکام منظوم نہیں کیے ہیں۔
حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحب ؒ کا ترجمہ پارہ عم اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ، جو مکمل نہیں صرف سورہ ناس سے سورہ انشقاق تک ہے ، یہ ترتیب عکسی ہے ، لیکن چھوٹے بچوں کو پڑھانے او ریاد کرانے کی غرض سے اسی ترتیب نے قبول عام حاصل کرلیا ہے ، مولانا نے بھی اسی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے اورترجمہ کرنے میں بڑی حد تک الفاظ قرآنی کا خیال رکھا ہے ، چوں کہ مولانا کی گرفت فن اور عروض دونوں پر ہے، اس لیے کلام میں روانی، بر جستگی ہے اور شاعرانہ عجز کا ان کے یہاں کوئی موقع نہیں ہے ، اشعار نقل کرنے لگوں تو بات لمبی ہوجائے گی، پوری کتاب آپ کے سامنے ہے ، پڑھیے اور مولانا کی قادر الکلامی پر سردھنیے۔
کلام شمس کا دوسرا باب حمد،نعت اورمنقبت پر مشتمل ہے، مولانا کی جولانیٔ طبع اور موزونیٔ فکر کا اس باب میں بھر پور اظہار ہوا ہے ، مولانا کے اس باب کے اشعار میں رفعت تخیل بھی ہے اور فکری ندرت بھی ، ان میں سے زیادہ تر کسی نہ کسی موقع سے کہے گئے ہیں، اس لئے ان اشعار کو پڑھتے وقت اس خاص موقع کا ادراک و احساس پورے طور پر ہوتا ہے ، مولانا نے ایک دو جملہ لکھ کر شروع میں ہی اس طرف اشارہ کردیا ہے ، جیسے’’ کراچی سے جدہ جاتے ہوئے ‘‘ وغیرہ اس باب کی بیش تر نعتیں یاد حرم کے نام سے کتابی شکل میں پہلے شائع ہو چکی ہیں۔
اس باب میں ایک نعت ’’کیا مرتبہ سرکار کا اللہ غنی ہے‘‘ کے تحت ہے ، یہ در اصل انجمن مصلح الطلبہ کے زیر اہتمام منعقد ایک نعتیہ مشاعرہ کا طرح مصرع تھا، یہ مشاعرہ مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں 26 جنوری 1986ء کو ہوا تھا ، ان دنوں میرا بھی قیام مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں ہی تھا ، مولانا نے اس مشاعرہ کی صدارت فرمائی تھی ، اس مشاعرہ میں ارباب علم وفن کے علاوہ طلبۂ مدرسہ احمدیہ ابابکر پور نے بھی اپنا کلام پیش کیا تھا او رمولانا نے ان سب کی بڑی حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔
تیسرا باب غزلیات اور نظموں پر مشتمل ہے ، اس میں تین غزلیں ، ایک نذرانۂ عقیدت ،ایک منظوم سپاس نامہ اور ایک بابری مسجد کا مرثیہ ہے ، غزلیات کی اتنی کم تعداد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مولانا نے غزلیں نہیں کہیں، کہیں تو بہت ساری، لیکن ان کو محفوظ رکھنے کا خیال نہیں آیا، اس لیے ضائع ہو گئیں، ان تین غزلوں میں دوغزل وہی ہے جسے انہوں نے بزم احباب ادب ویشالی کے زیر اہتمام 25مارچ1989ء کومنعقد آل بہار مشاعرہ کے لیے لکھا تھا، گو اس مشاعرہ میں وہ تشریف نہیں لا سکے تھے، یہ بزم ہم لوگوں نے ہی قائم کی تھی اور اس مشاعرہ کا انتظام وانصرام عملا احقر کے ہی ہاتھوں میں تھا ، یہ مشاعرہ بھی طرحی تھا اور مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں ہی منعقد ہوا تھا ، اس کا طرح مصرع تھا ’’ باد نسیم آج بہت مشکبار ہے‘‘ انٹھاون شعرائ کی اس مشاعرہ میں شرکت ہوئی اور پہلے دور میں ہی رات ختم ہو گئی تھی ، شعرائ کا انتخاب بھی میں نے ہی کیا تھا اور اس بات کو ملحوظ رکھا تھا کہ کوئی خاتون اور کوئی شرابی اس مشاعرہ میں مدعو نہ کیہو ، ایک شاعر جو شرابی تھے اس شرط پر آپائے کہ وہ جب تک مدرسہ میں رہیں گے، پینے کا شغل نہیں رکھیں گے اور آنے کے پہلے بھی پینے سے باز رہیں گے؛ تاکہ منہ کی بدبو او رتعفن سے لوگوں کو تکلیف نہ ہو، اس مشاعرہ کو آکاش وانی پٹنہ نے اپنے اردو پروگرام میں نشر بھی کیا تھا۔
چوتھے باب میں عوامل نحو منظوم ہے ، جو نحوی قواعد کو یاد کرنے کے لیے بہت مفید ہے، یہ الگ سے رسالہ کی شکل میں پہلے بھی چھپ چکا ہے ، میں جس زمانہ میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں پڑھایا کرتا تھا تو بچوں کو اسی کی مدد سے قواعد یاد کراتا تھا اور اس سے بڑی آسانی ہواکرتی تھی ۔
پانچواں باب متفرقات ہے ، جس میں ایک سہرا ، چند ظریفانہ اشعار اور دو عربی قصیدے کو جگہ دی گئی ہے ، مولانا کے سہروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے اور تلاش وتحقیق سے اس میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے، عربی قصیدے مولانا کی عربی زبان وادب پر قادر الکلامی کے غماز ہیں اور ان قصائد نے اہل علم وفن سے قبول عام وتام کی سند پائی ہے ، اس علاقہ میں مولانا عربی کے دوسرے بڑے شاعر ہیں، مولانا سے قبل ایک عربی کے بڑے شاعر حکیم مختار احمد کرہٹیا کے رہنے والے تھے، مظفر پور میں مطب کرتے تھے، مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے معتقد تھے، حضرت کے وصال کے بعد فی البدیہہ انہوں نے چھپن اشعار پر مشتمل مرثیہ کہا تھا، جن میں سے بائیس اشعار کے ہر مصرعیہ سے سال وفات نکلتا ہے اور آخر کے چار اشعار سے ترتیب سوانح’’تذکرۃ الرشید‘‘ کا سن برآمد ہوتا ہے، یہ مرثیہ تذکرہ الرشید کے آخرمیں مطبوعہ شکل میں موجود ہے،جس سے ان کی عربی زبان پر قدرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، مولانا مختار احمد مولانا نور محمد پنجابی کے تلمیذ رشید تھے۔
بات لمبی ہوتی چلی گئی، مقطع میں آنے والی سخن گسترانہ بات بس اتنی سی ہے کہ عزیزم مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری نے یہ اچھاکام کیا ہے، ورنہ یہ کلام بھی زمانہ کے دستبرد سے ضائع ہو جاتے تو بڑا علمی اور ادبی نقصان ہو جاتا ، اپنی تحریر کے اختتام پر مولانا موصوف کو پھر ایک بار مبارکباد دیتا ہوں او ردعا کرتا ہوں کہ ان کا علمی سفر اسی طرح جاری و ساری رہے، اور وہ تیزی سے اس میدان میں آگے بڑھتے رہیں ، آمین یا رب العالمین (بشکریہ نقیب)