ٹی آر پی تنازعہ: بالی ووڈ کی شبیہ خراب کرتے کرتے نیوز چینل خود زوال پذیر!

جواہر سرکار

ٹی وی نیوز چینلوں کے لیے ٹی آر پی کا کھیل انتہائی گندا ہو گیا ہے۔ چیخ چیخ کر کسی بھی بات کو سنسنی خیز بنانے کے لیے مشہور اینکرس نے سوشانت سنگھ کی موت معاملہ پر بھی افسوسناک رخ اختیار کیا۔

کسی بھی چیز کی کوئی حد ہوتی ہے۔ یہی اظہارِ خیال ہے بالی ووڈ کا اور ان لوگوں کا جو حال کے دنوں میں چھوٹے پردے پر ہو رہے میڈیا ٹرائل سے عاجز آ چکے ہیں۔ کچھ ٹی وی چینلوں نے اپنے گھٹیا مفاد کے لیے بالی ووڈ کو بدنام کر کے رکھ دیا۔ نشیڑیوں کا اڈہ قرار دے کر بالی ووڈ کو ملک کی سب سے گندی انڈسٹری قرار دے دیا۔ بکواس ‘ثبوتوں’ کی بنیاد پر فلمی ہستیوں کی عزت دھول میں ملا دی۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد ٹی وی چینلوں نے حیرت انگیز طریقے سے زوال میں پہنچ چکی معیشت، کووڈ-19 سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی اور چین سے لگتی سرحد پر تقریباً 6 دہائیوں کے سب سے بڑے خطرے کی جانب سے لوگوں کا دھیان ہٹانے کا کام کیا خود اپنے آپ ہاتھ میں لے لیا؟
ممبئی کے پولس کمشنر نے 8 اکتوبر کو یہ انکشاف کیا کہ ریپبلک ٹی وی اور دو دیگر ٹی وی چینل ٹی آر پی ڈاٹا کو متاثر کر رہے تھے اور اس کے لیے انھوں نے براڈ کاسٹ آڈینس ریسرچ کونسل (بارک) کی جانب سے مخصوص گھروں میں لگائے گئے میٹروں میں ہی سیندھ لگا دی تھی۔ اس معاملے میں ٹی آر پی کے اس پورے کھیل کی باریکیوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ کسی پروگرام کی مقبولیت کا فطری طور پر سیدھا اثر اشتہار کی شرح پر ہوتا ہے۔ چونکہ سبھی چینل دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پروگرام کو سب سے زیادہ لوگ دیکھ رہے ہیں، اس لیے حقیقت کا پتہ غیر جانبدار طریقے سے لگانا ضروری ہو جاتا ہے۔
سال 2015 تک ‘ٹیم’ (ٹیلی ویژن آڈینس میزرمنٹ) نام کی نجی کمپنی کی اس کام پر بالادستی تھی۔ وہی دنیا اور اشتہار دہندگان کو بتاتی تھی کہ کس چینل کو کب کتنے لوگ دیکھتے ہیں۔ اس میں دو بین الاقوامی میڈیا نام اے سی نیلسن اور کنتار کی نصف نصف شراکت داری تھی۔ ‘ٹیم’ نے خاص طور سے شہری علاقوں کے 8 ہزار گھروں میں ‘پیپلز میٹر’ لگائے۔ تب 12 کروڑ گھروں میں ٹی وی سیٹ تھے اور ‘ٹیم’ کے ڈاٹا بیس پر اس وجہ سے سوال اٹھے کہ اس کا سیمپل سائز بہت چھوٹا ہے اور اس کی ریٹنگ میں دیہی علاقوں کو تو پوری طرح سے نظرانداز ہی کر دیا گیا۔ لیکن ‘ٹیم’ کو سب سے زیادہ اس بات کے لیے کٹہرے میں رکھا گیا کہ اس نے کن گھروں میں یہ میٹر لگا رکھے ہیں، اس کو لے کر اس نے ضروری رازداری نہیں برتی۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایسے میں کوئی بھی ٹی وی کمپنی ان گھروں سے رابطہ کر کے انھیں متاثر کر سکتی تھی۔ ہندوستان کے ایک مشہور نیوز چینل نے ان اسباب سے ‘ٹیم’ کے خلاف امریکہ کی عدالت میں کیس کر دیا۔ اس نظام میں کچھ کو شرطیہ فائدہ تو باقی کو نقصان ہوا ہوگا۔
یہی نظام سالوں سال چلتا رہا اور پھر وزارت برائے اطلاعات و نشریات نے ملک کے سرکردہ چینلز سے مل بیٹھ کر اپنا خود کا ریٹنگ عمل طے کرنے کو ترغیب دی اور اس طرح موجودہ وقت کا ‘بارک’ منظر عام پر آیا۔ سال 2015 کے وسط سے بارک نے کمپیوٹر سے بغیر کسی نظام کے منتخب کیے گئے گھروں میں اپنا خود کا خفیہ ‘بار-او-میٹر’ لگانا شروع کیا۔ اس کے بارے میں عام طور پر یہی مانا جاتا رہا ہے کہ یہ کافی حد تک شفاف اور غیر جانبدار نظام ہے کیونکہ یہ کام اکثر مقابلہ آرا کمپنیاں اور سخت نظر رکھنے والے اشتہار دہندگان کر رہے تھے۔ بارک نے 44 ہزار گھروں میں یہ میٹر لگا رکھا ہے اور ‘ٹیم’ کے مقابلے اس کا سیمپل سائز یقینی طور پر بہت بڑا ہے، لیکن ٹی وی والے 20 کروڑ گھروں کو دیکھتے ہوئے اسے بہت کم ہی کہا جا سکتا ہے۔
اب ایک فطری سوال۔ اگر بارک کا ریٹنگ عمل اتنا ہی غیرجانبدار تھا تو پھر یہ ٹی آر پی گھوٹالہ کس طرح ہوا؟ دراصل اس کی آخری کڑی سب سے کمزور ہے۔ بارک ان گھروں تک لوگوں کو بھیجتا ہے اور یہ کام آؤٹ سورس کر دیا گیا ہے۔ ممبئی پولس کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور تین نجی چینلوں کی جانب سے ‘بار-او-میٹر’ والے کچھ گھروں کو رشوت دے کر ملا لیا اور اس طرح ان چینلوں کی ٹی آر پی غیر فطری طور پر زیادہ ہو گئی۔
کھیل یہاں پر یکدم سے گندا ہو گیا اور شائستگی کو طاق پر رکھ دیا گیا جب چیخ چیخ کر کسی بھی بات کو سنسنی خیز بنانے کے لیے مشہور اینکروں نے سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کو افسوسناک انداز میں فائدہ کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ سب سے پہلے کوشش ہوئی کہ اس معاملے کو قتل کے طور پر پیش کر دیا جائے، لیکن جب اس کہانی کو آگے بڑھانا مشکل ہو گیا تو قتل کے لیے اکسانے کے فارمولے کو آزمایا گیا، اور جب یہ اوندھے منھ گر گیا تو پورے معاملے کو ڈرگس کا موڑ دے دیا گیا۔ نارکوٹکس محکمہ کے انتہائی سرگرم لوگ ایک تنہا عورت پر ٹوٹ پڑے۔
آخر کار بالی ووڈ کے چندد بے باک لوگوں نے انڈسٹری کو بے وجہ بدنام کرنے کی اس مہم کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ یہ امید پیدا کرنے والی پیش قدمی ہے اور یقیناً اس بات کی مثال بھی ہے کہ ملک کا حوصلہ ابھی زندہ ہے اور چند مفاد پرست نیوز چینل اس پر گہن بن کر حاوی نہیں ہو سکتے۔
(مضمون نگار سابق آئی اے ایس افسر اور پرسار بھارتی کے سابق چیف ایگزیکٹیو افسر ہیں)