پس آئینہ:شمس تبریزقاسمی
حرم شریف امن وسلامتی کا منبع وشرچشمہ ہے ،پوری دنیا کو وہاں سے قتل وغارت گری ختم کرنے کاپیغام دیا گیا ہے ،بتوں کو منہدم کرکے خدائے واحد کے سامنے سجدہ ریزہونے کی تعلیم دی گئی ہے ،یہ واحد جگہ ہے جہاں انسان اور جانور کے قتل کے ساتھ گھاس اور پودوں کا کاٹنا بھی حرام ہے ،جنگ وجدال یہاں ممنوع ہے،لڑائی ،جھگڑا اور شورشرابہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،پور ی انسانیت کو یہاں سے اتحاد کا راستہ دکھایاجاتاہے ،دنیا کے مختلف خطے اور علاقے میں آباد مسلمان دیوار کعبہ کے سایے میں آکر ایک جان دوقالب کے پیکر بن جاتے ہیں،تمام حسب ونسب ،عہدہ ومناصب ،آپسی اختلافات وچپلقش،مسلکی لڑائیاں فراموش کرکے ایک مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں،مکرمہ مکرمہ میں واقع اس عظیم الشان گھر کا نام خانہ کعبہ ہے جو دنیا کے بالکل وسط میں واقع ہے،اس کی عظمت کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے ’’بیشک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے ،برکت والا سارے جہان کا راہنما، اس میں نشانیاں ہیں کھلی ہوئی مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوا امن والا ہو گیا۔ یعنی حکم الہی کے مطابق جو حرم میں داخل ہوگیا وہ امن کے سائے تلے آگیا۔لیکن تاریخ شاہد ہے کہ حکم الہی کے باجود دشمنان اسلام نے اس امن والے شہر کا امن سبوتاژ کرنے کیلئے مختلف ادوار میں مختلف انداز سے سازشیں کی ہیں ،روئے زمین کا یہ سب سے مقدس مقام خطرناک دہشت گردانہ حملوں کی زد میں متعدد بار آیاہے، اس کی حرمت و پاکیزگی کو ایک بار نہیں کئی بار پامال کیا گیاہے ۔
طلوع اسلام سے پچاس سال قبل خانہ کعبہ کو منہدم کرنے کی سب سے پہلی ناپاک کوشش یمن کے بادشاہ ابرہہ نے کی تھی جسے ابابیلوں کے لشکرنے شکست فاش دیکر ذلیل وخوارہوکر لوٹنے پر مجبور کیا،اس کے بعد متعدد مسلم رہنماؤں کے کعبہ کے تقدس کو پامال کیا،بنو امیہ کے حکمراں یزید بن معاویہ نے نواسۂ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اوران کے اہل بیت کا خون بہانے کے ساتھ مکہ اور مدینہ کی حرمت سے بھی کھلواڑکیا،64 ہجری میں جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حجاز میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزیدی اقتدار کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا تو یزیدی لشکر مکہ پر حملہ آور ہوگیا اورشہر کا محاصرہ کر کے آس پاس کی پہاڑیوں پر منجنیقیں نصب کرکے خانہ کعبہ پر پتھروں کی بارش شروع کردی، روئی اور گندھک کے بڑے بڑے گولے بنائے گئے جن میں آگ لگاکر بیت اللہ پر پھینکا گیا،یزیدی لشکر کی اس حرکت سے غلافِ کعبہ میں آگ لگ گئی اور کعبہ کی دیواریں جل کر سیاہ اور شکستہ ہوگئیں،ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ یزید کی موت کی خبر آئی اور حملہ آوروں کو محاصرہ اٹھانا پڑا۔ (تاریخ ابن خلدون ص684)
73 ہجر میں بنوامیہ نے خانہ کعبہ پر دوبارہ حملہ کیا، اسلامی تاریخ میں مشہور ظالم گورنر حجاج بن یوسف نے عین رمضان المبارک کے مہینے میں کعبہ کے اطراف کا محاصرہ کرکے سنگ باری شروع کردی، پتھروں کی شدید بارش کی تاب نہ لاکر لوگ مکہ چھوڑ چھوڑ کر بھاگنے لگے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مکہ معظمہ پر حجاج بن یوسف کا قبضہ ہوگیا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن زبیر کا سر کاٹ کر اسے کعبہ کے پرنالے میں لٹکادیا گیا ۔
بنو عباس کے عہد خلافت جب مقتدر باللہ خلیفہ تھا ایک ایسے فرقے کا بھی تذکرہ ملتا ہے جو ابن الحنفیہ کو نعوذ باللہ رسول مانتا تھا، اس فرقے کے لوگ صبح و شام دو وقت کی نماز پڑھتے تھے اور سال میں دو دن کے روزے رکھتے تھے، انھوں نے اپنا قبلہ کعبہ کے بجائے بیت المقدس کو قرار دے رکھا تھا، اس فرقہ کو قرامطہ کہا جاتا ہے،929/ 318 میں قرامطہ فرقے کے پیروکار ابو طاہر سلیمان بن الحسن نے ایک لشکر جرار کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی اور حرم شریف میں داخل ہو کر قتل عام شروع کر دیا،کعبہ کے اندر حاجیوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں زمزم کے کنویں میں ڈال دیں اور کعبہ کی عمارت کو توڑ ڈالا، اس کے سردار طاہر نے حجر اسود کو گرز مار کر توڑ ڈالا اور یمن لے گیا، جہاں اس کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ وہ یہ بھی اعلان کرتا گیا کہ آیندہ حج مکہ میں نہیں یمن میں ہوا کرے گا، بیس سال تک حجر اسود کعبہ سے دور رہا۔
المناک سانحوں کی فہرست میں کعبہ شریف پر مرتدین کا قبضہ بھی شامل ہے ، جس کی وجہ سے چودہ دن تک طواف معطل رہا اس عرصے میں حرم کعبہ کے در و دیوار اذان اور جماعت کی سعادت سے محروم رہے۔ یکم محرم الحرام مطابق 20نومبر 1979 منگل کی صبح امام حرم شیخ عبد اللہ بن سبیل نے نماز فجر کا سلام پھیرا ہی تھا کہ چند آدمیوں نے امام صاحب کو گھیرے میں لے لیا ان میں سے کچھ لاؤڈ سپیکر پر قابض ہو گئے اس وقت حرم شریف میں ایک لاکھ کے قریب نمازی موجود تھے۔ان حملہ آوروں کا سرغنہ 27سالہ محمد بن عبد اللہ قحطانی تھا جس نے چار سال تک مکہ یونیورسٹی میں اسلامی قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کا دست راست جہیمان بن سیف العتیبہ تھا۔ ان لوگوں نے بڑی باریک بینی سے پلاننگ کر کے جنازوں کا بہروپ بنا کر چارپائیوں کے ذریعے اسلحہ کی بڑی مقدار تہہ خانوں میں جمع کر لی تھی۔ جب تمام تیاریاں مکمل ہو گئیں تو اچانک حرم کے تمام دروازے بند کر کے ان پر اپنے مسلح افراد کھڑے کر دئیے۔ایک آدمی نے عربی میں اعلان کیا کہ مہدی موعود جس کا نام محمد بن عبدا للہ ہے آ چکا ہے۔نام نہاد مہدی نے بھی مائیک پر اعلان کیا کہ میں نئی صدی کا مہدی ہوں میرے ہاتھ پر سب لوگ بیعت کرینگے۔اس گمراہ ٹولے نے مقام ابراہیم کے پاس جا کر گولیوں اور سنگینوں کے سائے میں لوگوں کو دھمکاتے ہوئے بیعت شروع کروا دی۔سعودی فرمانروا شاہ خالد نے 32علماء پر مشتمل سپریم کونسل کا اجلاس فوری طور پر طلب کر لیا۔ علماء کرام نے قرآن ا ورحدیث کی روشنی میں متفقہ طور پر فیصلہ دیا کہ مسلح گمراہ افراد کیخلاف کارروائی شریعت کے عین مطابق ہے۔ اس فتوے کی روشنی میں بیت اللہ کے تقدس کے پیش نظر بھاری اسلحہ استعمال کرنے سے گریز کیا گیا،لیکن مرتدین کا مکمل صفایا کردیاگیا، 7دسمبر1979 کو دوبارہ حرم شریف کو عبادت کیلئے کھولا گیا۔ اس لڑائی میں 75باغی مارے گئے اورنیشنل گارڈز کے60 فوجی شہید ہوئے۔ 26حاجی شہید اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ مرتدین کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا۔سزائے موت پانے والے مرتدین میں 41سعودی عرب، 10مصر، 6جنوبی یمن،3کویت سے جبکہ عراق ، سوڈان اور شمالی یمن کا ایک ایک مرتد شامل تھا۔
حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر کعبہ کو دہشت گردانہ حملہ کا شکاربنانے کی ناپاک کوشش کی گئی ہے ،یمن میں سرگرم باغی حوثی ملیشیاؤں نے 28 اکتوبر کی شب میں مکہ مکرمہ کی جانب بلیسٹک میزائل داغاتھا جسے مکہ مکرمہ سے 65 کیلومیٹر کے فاصلہ پرفضاء میں ہی مارگرایاگیا،سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل احمدالعسیری کے مطابق حوثی باغیوں اور ان کے اتحادیوں نے یمن کے شمالی شہر صعدہ میں واقع ایک مسجد سے مقدس شہر مکہ مکرمہ کی جانب بیلسٹک میزائل داغا تھا،جو مکہ مکرمہ سے تقریبا 880 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔
مکرمہ مکرمہ سعودی عرب کا ایک صوبہ ہے جس کا اطلاق طائف ،نجد اور جدہ سمیت کئی شہروں پر ہوتاہے لیکن جب مکہ بولاجاتاہے تو اس سے مراد کعبہ اور بیت اللہ ہوتاہے ،اس شہر پر حملہ کرنا اور کعبہ کو نشانہ بنانا دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر حملہ کرنے کے مترادف ہے ،یہ ناقابل معافی اور بدترین جرم ہے ،باغیوں کی حمایت کرتے ہوئے کچھ صحافی اور تجزیہ نگارحضرات بشمول ایک ملک کے یہ کہ رہے ہیں کہ حرم شریف کے بجائے جدہ ایئر پورٹ کو نشانہ بنایاگیاتھا لیکن یہ تاویل جرم کو بڑھانے کے مترادف ہے ،جدہ بھی مکہ مکرمہ کا حصہ ہے ،یہاں دنیا بھر سے مسلمان عمرہ اور حج کی سعادت کیلئے آتے ہیں،بالفرض مان لیاجائے کہ جدہ ایئر پورٹ نشانہ تھا تو بھی اس کی آنچ حرم تک ہی پہونچتی ہے کیوں کہ مرنے والے زائرین حرم ہوتے ۔سعودی عرب کا دفاعی نظام بھی محل غور ہے ،800 کیلومیٹر کے فاصلہ سے میزائل داغاگیا اور سعودی افواج نے اسے مکہ کے قریب صرف 65 کیلومیٹر کے فاصلہ پر مارگرایا ،یمن کی سرحد سے نکل کر تقریبا پانچ سو میٹر سعودی عرب کی فضاء میں میزائل کے ہونے کا سعودی دفاعی نظام کو کوئی احساس نہیں ہوسکا،اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ حرم شریف کے تحفظ کیلئے سعودی عرب کی دفاعی قوت ناکافی ہے ، مقامات مقدسہ کو خطرات لاحق ہیں،کبھی بھی داعش ،حوثی ملیشیا یا اسلام کے لباس میں ملبوس دیگر دہشت گردی تنظمیں حرم شریف کو نشانہ بناسکتی ہیں ،چندماہ قبال دیارسول مدینہ منورہ میں بم بلاسٹ کا افسوسناک حادثہ پیش آچکاہے ،اس کے علاوہ داعش نے عراق اور شام کے متعدد مقدس اور تاریخی مقامات کو نیست ونابودکردیا ہے ،خود کعبۃ اللہ پر ماضی میں متعدد بار دہشت گردانہ حملہ ہوچکا ہے،پڑوسی ریاست یمن سے سب زیادہ خطرات لاحق ہیں،اب تک اس سرزمین سے تین حملہ ہوچکاہے ، سب سے پہلا حملہ یمن کے بادشاہ ابرہہ نے ہاتھیوں کی فوج لیکر کیاتھا،کعبہ شریف کومنہدم کرنے کی دوسری کوشش بھی یمن سے تعلق رکھنے والے قرامطہ فرقہ نے کی تھی اور اب بلیسٹک میزائل حملہ بھی یمن سے ہی کیا گیا ہے جن کی تفصیل اوپر آچکی ہے۔ اس لئے مضبوط دفاعی قوت اور میزائل شکن ہتھیار کا حصول عربوں اور مسلمانوں کیلئے اب ضروری ہوگیا ہے،،اپنے وجوداور بقا کیلئے اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے، قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا واضح فرمان ہے’’اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی۔‘‘(سورہ انفال ،آیت 60)
stqasmi@gmail.com
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)