بہار الیکشن کا پہلا مرحلہ : جوش نہیں ، ہوش کی ضرورت

محمد شارب ضیاء رحمانی
بہار الیکشن کے پہلے مرحلے میں 71 سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی۔ بہار کا تازہ ترین سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ روزگار، لاک ڈاؤن ، کسان، مزدوروں کے مسائل کو تیجسوی یادو نے پوری مضبوطی کے ساتھ اٹھایا ہے۔جس کے بعد قومی مدعے پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ہزار کوششوں کے باوجود رام مندر، دفعہ 370، پاکستان ابھی تک انتخابی ایشوز نہیں بن سکے۔ راجد نے عوام کی نبض پکڑلی ہے ۔مزدوروں کی بدحالی، ان کی نقل مکانی اور مہنگائی و بے روزگاری عوام کو زیادہ سمجھ آرہے ہیں۔ سب سے زیادہ قابل رحم حالت نتیش کمار کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نپی تُلی گفتگو کرنے والے وزیراعلیٰ، ذاتیات پر بیان دے رہے ہیں اور ریلیوں میں بِپھرے ہوئے ہیں، ’اپنے باپ سے پوچھ لو‘ اور ’نوبچے والا بیان‘ اسی گھبراہٹ کا نتیجہ ہے ۔نتیش کمار عام طور پر سنجیدہ اندازہ کے لیے جانے جاتے ہیں لیکن بی جے پی نے انھیں جس طرح چکرویو میں پھنسا دیا ہے، اس سے نکلنا آسان نہیں ہے۔اس کے لیے وہ خود ذمے دار ہیں جیسے محبوبہ مفتی نے اپنے پاؤں میں کلہاڑی ماری ہے۔ ایک ماہ پہلے تک اپوزیشن کا چہرہ غیر واضح اور این ڈی اے کا چہرہ واضح تھا ، لگتا تھا کہ نتیش کمار کو ووٹ دینا مجبوری ہوگی۔ اس وقت صورت حال یہی تھی کہ نتیش نہیں تو پھر کون ؟ لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔ سروے پیش کرنے والے چینلوں کا اندازہ بھی بدلا ہے۔ اب مہاگٹھ بندھن کا چہرہ واضح ہے۔ این ڈی اے میں وزیراعلیٰ کا چہرہ دھندھلا ہوگیا ہے، این ڈی اے کا وزیر اعلیٰ کون ہوگا، اس کا یقین خود جدیو کو نہیں ہے۔ بی جے پی دوکشتیوں پرسوار ہے۔ ہزار وضاحت کے باوجود لوجپا کے اقدمات کس کے اشارے پر ہورہے ہیں، یہ ہم، آپ سے زیادہ نتیش کمار کوسمجھ آرہا ہے۔ بی جے پی یہ کیوں کہہ رہی ہے کہ سیٹیں ہماری زیادہ بھی آئیں تو وزیراعلیٰ نتیش کمار ہوں گے؟ یعنی بی جے پی کو یقین ہے کہ اسے جدیو سے زیادہ سیٹیں آئیں گی۔ لوجپا نے اپیل کی ہے کہ جہاں اس کے امیدوارنہیں ہیں وہاں بی جے پی کو ووٹ دیں ۔ لوجپا جدیو کے خلاف لڑرہی ہے یعنی ایل جے پی کا ووٹ بی جے پی کو ٹرانسفر ہوگا اور بی جے پی کا ایل جے پی کو ملے گا، مسلم ووٹ بِدکنا جدیو کا سب سے بڑا خسارہ ہے۔ کچھ مسلم ووٹ جدیو کی طرف جانے کی اٹکلیں تھیں، اس کام کے لیے میدان میں ’ وفادار‘ اتار دئیے گئے ہیں۔ لیکن بی جے پی، موہن بھاگوت نے سی اے اے کا مدعا چھیڑکر نتیش کمار کے مسلم ووٹ بینک کو بِدکا دیا ہے اور بِدکنا بھی چاہیے تھا۔ آخر ایوان میں سی اے اے ووٹ دینے کی سزا بھی تو ضروری ہے ۔
بی جے پی گزشتہ الیکشن میں اٹیکنگ پوزیشن میں تھی، اس باروہ دفاعی پوزیشن میں ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ تیجسوی یادو کو اپنی پچ پر کھِلایا جائے لیکن تیجسوی یادو نے روزگار کا مدعا اٹھاکر بی جے پی کو اپنی پچ پر لانے کی کوشش کی ہے۔ دس لاکھ ملازمت کے جواب میں انیس لاکھ روزگار (پکوڑا بھی روزگار ہے) کا وعدہ اسی کا شاخسانہ ہے ۔ بی جے پی اور جدیو بار بار پندرہ سال کو بنام پندرہ سال کرنے کی کوشش میں ہے لیکن تیجسوی یادو اس پچ پر جانے کو تیار نہیں ہیں وہ نئی توانائی بھررہے ہیں۔
خیر، بات مسلمانوں کی حکمت عملی پرکرنی ہے۔ چھوٹی پارٹیوں، لوجپا، رالوسپا، بی ایس پی ، پپو یادو کی ’جاپ‘ اور مجلس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سیکولر ووٹ اور خصوصاً مسلم ووٹوں کی تقسیم کا اندیشہ ہے۔ مجلس سے مسلم نوجوانوں کی جذباتی وابستگی قابل فہم ہے ۔ لیکن کشواہا کے امیدواروں کے لیے اویسی کی مہم نے این ڈی اے کی راہ آسان کردی ہے۔اس پالیسی پر اویسی کو نظر ثانی کرنی چاہیے ورنہ بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔ یاد رکھیے، کسی بھی کشواہا کا ووٹ مجلس کو ٹرانسفر نہیں ہوگا، تو پھر ہم کیوں اپنا ووٹ رالوسپا اور بی ایس پی کو دے کر برباد کیوں کریں؟ صورت حال یہ ہے کہ جہاں مجلس کا امیدوار نہیں ہے وہاں بھی نوجوان جوش میں ہوش کھو رہے ہیں اور رالوسپا کے پیچھے دیوانہ وار لگے ہیں۔ نام نہاد سیکولروں پر نوجوانوں کا غصہ بجا ہے ، لیکن جوش کی بجائے ہوش بھی ضروری ہے ۔نہیں بھولنا چاہیے کہ کشواہا عظیم اتحاد سے نکلنے کے بعد این ڈی اے میں شمولیت کے لیے دہلی تشریف لائے، بات نہیں بنی تو الگ محاذ بنایا، وہ مودی سرکار میں وزیربھی رہ چکے ہیں، مایاوتی کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کوووٹ دینے سے سیدھا فائدہ این ڈی اے کو ہوگا۔
کل کی 71سیٹوں پر کیا کرنا ہے؟
خلاصہ یہ ہے کہ کل 71سیٹوں پر ووٹنگ میں ہم واضح حکمت عملی طے کرلیں۔ ان میں سے ایک سیٹ (شیر گھاٹی، گیا) پر مجلس لڑرہی ہے۔ اس سیٹ کے علاوہ تمام نشستوں پرمسلمان یک طرفہ مہاگٹھ بندھن کو ووٹ کریں، ان ستر سیٹوں میں کسی بھی چھوٹی پارٹی کے چکر میں بالکل نہ پڑیں، اس سے صرف ووٹ تقسیم ہوگا۔ جیسے کچھ نوجوان مسلمان شیخ پورہ میں لوجپا امیدوار، اورنگ آباد میں رالوسپا کے امیدوار کے دیوانے ہیں۔ اس طرح ووٹ تقسیم ہوگا۔ ہاں شیر گھاٹی (گیا) کی سیٹ پرمجلس کو جتانا چاہیے۔ وہاں کی صورت حال یہ ہے کہ یہاں جدیو کا ووٹ تقریباً 40000 ہزار ہے، جدیوسے ونود پرساد یادو امیدوار ہیں اور مہاگٹھ بندھن سے منوج اگروال ہیں، ان کا ووٹ تقریباً 45000 ہزار ہے۔ لوجپا یقیناً جدیو کے ووٹ کاٹے گی جس نے جدیو کی طرح ’یادو‘ یعنی مکیش کمار کو امیدوار بنایا ہے۔ اس طرح جدیو اور یادو کا ووٹ تقسیم ہوگا۔ زمینی صورت حال کے مطابق نہیں لگتا کہ اس سیٹ پر آر جے ڈی جیت سکتی ہے۔ کیوں کہ آرجے ڈی نے مسلمانوں کے پسند کا امیدوار نہیں اتارا ہے۔ مسلمان آر جے ڈی کے امیدوار سے مسلم مخالف اقدامات کی وجہ سے ناراض ہیں۔ ہاں پپو یادو کی پارٹی نے مسلم امیدوار عمیر خان عرف ٹکہ خان کو امیدوار بنایا ہے، نوجوان کے علاوہ عمر رسیدہ مسلمان جن کا ووٹ تقریباً 35000 ہے۔ اس سیٹ پر ایم آئی ایم نے مسرورعالم کو اتارا ہے۔ نوجوان مسلمان، مسرور عالم کے ساتھ ہیں۔ جن کاووٹ تقریباً 25000 ہے۔ اگر پپو یادو کے امیدوار کو کچھ یادو ووٹ مل جاتے ہیں اور مسلمان یک طرفہ دیتے ہیں تو عمیر خان کی پچاس ہزار ووٹ کے ساتھ جیت یقینی ہے اور اگر یادو ان کے ساتھ نہ ہو تو مسلمان مجلس کے امیدوار مسرور عالم کو کامیاب بنائیں اور یک طرفہ ووٹ کریں۔ یعنی کوشش یہ ہوکہ ان دونوں میں کسی ایک پرفیصلہ کریں اور پچاس ہزار ووٹ ان کو مل جائے تو نہ آر جے ڈی جیتے گی اور نہ جدیو کامیاب ہوگی۔ باقی تمام ستر سیٹوں پر چھوٹی پارٹیوں کو بالکل نظر انداز کرکے صرف مہاگٹھ بندھن کے امیدواروں کو جتائیں۔ آگے کے دو مرحلوں میں بھی بس یہی راستہ اختیارکرنا چاہیے۔ پپو یادو یا مجلس کے جہاں جیتنے والے مضبوط امیدوار ہوں، انھیں ووٹ دیا جائے تاکہ مہاگٹھ بندھن کو بھی سبق ملے کہ مسلمان ان کے غلام نہیں ہیں، جہاں مضبوط متبادل ہوگا ہم وہاں آر جے ڈی کو بھی سبق سکھائیں گے (جیسے شیر گھاٹی کی مثال دی گئی) باقی جگہوں پر اور کوئی تجربہ کرنا نقصان دہ ہوگا۔ ہرگز چھوٹی پارٹیوں خصوصاً رالوسپا، آزاد سماج پارٹی اور بی ایس پی کے چکر میں ووٹ تقسیم نہ کریں۔ وقت ہے کہ جوش کو قابو میں رکھیں، ہوش سے کام لیں ورنہ ہماری ذراسی بھول بہار کی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوگی۔