عدیل اختر
بہار اسمبلی انتخابات کے بعد سب سے زیادہ توجہ اور بحث کا موضوع جناب اسدالدین اویسی اور ان کی سیاست ہے۔ حیدر آباد کے ایم پی اور مجلس اتحاد المسلین کے صدر اسدالدین اویسی جو تعلیم و لیاقت میں بیرسٹر اور سیاست میں اپنے والد صلاح الدین اویسی کے جانشیں ہیں اب ایک ملک گیر سیاسی قائد بن گئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ حیدرآباد اور اس کے گر د نواح کے سیاسی دائرے سے باہر نکل کر پورے ملک کے مسلمانوں کے سیاسی ترجمان بننے کی ان کی کوشش کامیاب ہورہی ہے اور مہاراشٹر و بہار میں مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد اب بنگال اور یوپی کی زمین بھی ان کے لئے تیار ہے، ان دونوں ریاستوں کی آئندہ اسمبلیوں میں بھی ان کی پارٹی کے ممبران کی موجودگی متوقع ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب اسد اویسی نے اس کے لئے بڑی محنت کی ہے اور چوطرفہ مخالفت و مذمت اور تہمت کو درکنار کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف آگے بڑھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔لہذا ان کی ہمت کی بھی تعریف کی جانی چاہئے اوران کی خود اعتمادی کی بھی ستائش ہونی چاہئے۔ان کی اس حوصلہ مندی اور خود اعتمادی کی بنیاد ایک تو ان کی تعلیم و لیاقت اور صلاحیت ہے اور دوسری طرف ایک موروثی اور خاندانی سیات داں ہونا ہے۔البتہ موروثی چودھراہٹیں اور خاندانی اجارہ داریاں اپنے اندر جو برائیاں رکھتی ہیں وہ جناب اسد اویسی میں نہیں پائی جاتیں ایسا سوچنا سادہ لوحی کی بات ہوگی۔ حیدرآباد کے عوام جو انہیں ووٹ دیتے ہیں اور کاندھوں پر بٹھاتے ہیں وہ عام حالات میں اور عام طور سے اویسی خاندان کے لئے کوئی عقیدت بہرحال نہیں رکھتے ہیں۔لیکن مسلمان عوام کو اپنی مجبوریوں کا پتا ہے اور اپنی سیاسی محرومیوں کا دکھ ہے جس کی وجہ سے وہ سیاسی نمائندگی کے معاملے میں بہت سیانے پن سے کام لیتے ہیں اور جلد ہی اپنا پینترا نہیں بدلتے۔ اسی وجہ سے تیلنگانہ میں مسلمانوں کو مجلس اتحاد المسلین کی حمایت سے ہٹانا مخالفوں کے لئے جتنا مشکل کام رہا ہے اتنا ہی مشکل کام شمالی ہند کے مسلمانو ں کو نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں کے دام فریب سے نکالنا رہا ہے۔
شمالی ہند میں مسلم لیگ کی کبھی نہیں چلی، مسلم مجلس زیادہ دنوں تک چل نہیں پائی اور مسلم فورم، پرچم پارٹی،پیس پارٹی علماء کاؤنسل جیسی سیاسی آوازیں مل جل کر بھی یہاں کے مسلمانوں کی آواز نہیں بن سکیں۔ ان پارٹیوں کی ناکامی کی خاص وجہ حالانکہ ان کے پاس عوامی قائدین کا نہ ہونا رہا ہے لیکن اس کی دوسری وجہ یہاں کے مسلمانو ں کی نفسیات بھی ہے۔ خوف کی نفسیات، احساس کمتری کی نفسیات، احساس جرم کی نفسیات، اجتماعی سیاسی شعور نہ ہونے سے بننے والی ذاتی مفاد پرستی کی نفسیات اور سیکولر نیتاؤں کی چکنی چپڑی باتوں و علامتی تماشہ بازیوں سے خوش ہوجانے کی نفسیات۔ مگر آ ج یہ نفسیات بدل رہی ہے۔البتہ اس نفسیاتی بدلاؤ کی وجہ اسدالدین اویسی جیسے کسی لیڈر کا سامنے آنا نہیں ہے بلکہ ہندو سیاست کا پوری طرح بے نقاب اور بے اعتبار ہوجانا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ نام نہاد سیکولر سیاست کے جال میں الجھے ہوئے صدی کی تین چوتھائیاں پوری ہورہی ہیں اور تیسری نسل اب جوان ہوکر میدان عمل میں ہے جس کے ذہن پر ماضی کا کوئی خوف طاری نہیں ہے بلکہ اپنے حق اور اپنی عزت نفس کا سودا سرمیں سما چکا ہے۔
اسد اویسی صاحب کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ قومی سیاست کے افق پر ایک ایسے وقت میں ابھرے ہیں جب مسلمان از خود کسی سیاسی قائد کی تلاش میں تھے اور ہیں۔یعنی سیاست کی زمین انھوں نے تیار نہیں کی ہے بلکہ تیار زمین پر انہیں کھیتی کرنے کاموقع مل گیا ہے۔لہٰذا اسد اویسی صاحب کے لئے خود پسندی کے فریب میں مبتلا ہونا نقصان دہ ہوگا۔ انہیں مسلمانوں کے دل میں اپنی جگہ پائیداری کے ساتھ بنانے کے لئے مسلمانوں کے دل کی آواز کے ساتھ چلناہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے دل کی آواز کیا ہے؟ مسلمانوں کے دل کی آواز یہ ہے کہ وہ اپنی محرومیوں کے ازالہ کے لئے جسے اپنا قائد بناکر نمائندگی کا موقع دیں وہ انہیں مایوس نہ کرے۔ یہ مایوسی کیسے پیدا ہوتی ہے؟ یہ اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ قائد خود کو خادم سمجھنے کے بجائے مختار کل سمجھنے لگتا ہے۔ وہ عوام کی مرضی کے خلاف چلتا ہے، عوام کی تمناؤں اور اعتماد کا سود ا کرتا ہے اور عوام کو سوال کرنے کاکوئی موقع نہیں دیتا۔ ہر سوال اٹھانے والے پر وہ اپنی زبان چلاتا ہے اور اپنے اختیار کا کوڑا مارتاہے۔ رام پور کے اعظم خاں اس کی ایک مثال ہیں۔ ان کے تکبر اور خود پسندی نے انہیں ملت سے اور ملت کو ان سے دور رکھا۔ جن سے ووٹ لے کر وہ وزیر بنے ان کو جانوروں کی طرح ہانکا۔ خود کو قائد ملت کہا اور ملت کے باقی قائدین کو جوتے کی نوک پر رکھا۔ کسی بھی دوسرے مسلمان کا یہ حق انھوں نے تسلیم نہیں کیا کہ وہ بھی مسلمانوں کا نمائندہ بن کر سیاست کے میدان میں آئے۔خود اسد الدین اویسی کو اپنی بادشاہی کے زمانے میں انھوں نے یوپی میں قدم نہ رکھنے دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔ لہذا،اسدالدین اویسی صاحب کو اگر مسلمانوں کا ہمہ گیر اعتماد حاصل کرنا ہے تو انہیں مسلمانوں کی سیاسی بدحالی کا فائدہ اٹھانے کے بجائے فی الواقع اس بدحالی کو دور کرنے کے لئے سنجیدہ طرز عمل اختیار کرنا ہوگا۔ اس سنجیدہ طرز عمل کا تقاضا یہ ہے کہ اسد الدین اویسی صاحب خود کو مسلمانوں کا واحد نمائندہ سمجھنے اور سمجھانے کی غلطی نہ کریں، بلکہ ملت کے ان تمام گروہوں سے اعتماد اور باہمی تعاون کا رشتہ قائم کریں جو سیاسی میدان میں مسلمانوں کی خدمت کے لئے سرگرم ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں اس میدان میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ مختلف لوگوں نے مختلف پلیٹ فارم کھڑے کرنے کی کوشش کی ہے۔اس طرح کے جولوگ اپنے دم پر آگے نہیں بڑھ سکے وہ آپ کے آگے بڑھنے میں مدد گار ہوسکتے ہیں اگر آپ انہیں عزت دیں اور ان کے وجود کو تسلیم کریں۔
مجلس اتحاد المسلمین اگرچہ حیدرآباد کی ایک قدیم پارٹی ہے لیکن ملک گیر سطح پر تو ابھی نئی نئی ہی ہے۔ اس پارٹی کا کوئی مضبوط بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے۔ بنیادی ڈھانچے سے مراد ہے کیڈر۔ یعنی ایسے افراد جن کی سیاسی اور نظریاتی تربیت ہوئی ہو، جنہیں کسی ڈسپلن کی باقاعدہ تعلیم دی گئی ہواور جنہیں بھارت کی بے چیدہ سیاست کا اور اس سیاست میں مسلمانوں کے سیاسی مسئلہ کا کوئی فہم دیا گیا ہو۔ جو کچھ فہم ہے وہ صرف قائد کا ہے یا قائد کے گھر والوں کا ہے۔ باقی تمام کارکن تو بالعموم ایک فرقہ وارانہ جوش اور ذاتی سیاسی عزائم رکھنے والے افراد ہی ہیں۔ یہ پائیدار سیاست کا بنیادی ڈھانچہ نہیں ہیں۔ اس کے بالمقابل ملک میں مسلمانوں کی ایسی سیاسی تنظیمیں بھی مضبوط ہورہی ہیں جن کے پاس سیاست کا ایک پورا فلسفہ ہے، اس فلسفہ کے مطابق تیار ہونے والا جاں نثار کیڈر ہے، جس پر تنظیم یا تنظیموں کا انحصار ہے۔ جو ایک فرد یا کچھ افراد کی خاندانی پارٹیاں نہیں ہیں بلکہ واقعی ایک تنظیم ہیں اور کسی ایک فرد کے منظر نامہ سے غائب ہوجانے سے پوری پارٹی کے بیٹھ جانے اندیشہ نہیں ہے۔یہ سچ ہے کہ ان پارٹیوں کے پاس اسد اویسی جیسا بڑا لیڈر فی الحال نہیں ہے لیکن یہ پارٹیاں مجلس اتحاد المسلمین جیسی خاندانی اجارہ داری والی پارٹی سے کہیں زیادہ مضبوط اور بڑی ہیں۔ اس لئے اسد صاحب کو چاہئے کہ وہ ان پارٹیوں سے لین دین کا معاملہ کریں۔ بہار میں آپ نے مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی سے اتحاد کرنے کی اپنی آرزو پوری کرلی،لیکن ایس ڈی پی آئی جیسی کسی پارٹی سے اتحاد کرنے کی تو آپ نے آرزو ہی نہیں کی۔ نتیجہ یہ کہ آپ کا گٹھ بندھن الگ اور ایس ڈی پی آئی کا گٹھ بندھن الگ۔
مجلس اتحاد المسلمین کو فرقہ وارانہ سیاست سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔ فرقہ وارانہ سیاست سے بچنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کے لئے سیاست نہ کی جائے بلکہ یہ ہے مسلمانوں کا سیاسی مقدمہ فرقہ وارانہ اشتعال دلانے والی تقریروں سے نہ لڑا جائے۔ اسد اویسی صاحب خود تو اب اس معاملے میں کچھ محتاط ہو گئے ہیں لیکن ان کے چھوٹے بھائی اکبرالدین اویسی کی پہچان جذبات سے کھیلنے والے ایک مقرر کی ہی ہے۔ پانچ سال پہلے تک اسد الدین اویسی کی انتخابی تقریروں کا رنگ بھی کچھ کم ہر ا نہیں تھا۔حزب مخالف کے لئے اچھی زبان اس لئے استعمال نہ کرنا کہ تالیاں بچانے والی بھیڑ گالم گلوچ کی زبان سے زیادہ جو ش میں آتی ہے، ایک گھٹیا سیاست ہے۔ اسدالدین اویسی کو اس گھٹیا انداز کی فرقہ وارانہ سیاست سے اوپر اٹھنا ہوگا۔
بھارت میں مسلمانوں کا سیاسی مسئلہ بنیادی طور سے انصاف اور برابری کا اور اقتدار میں حصہ داری کا مسئلہ ہے۔ انصاف اور برابری دستورہند کے اور دستوری نظام سیاست کے بنیادی تصورات ہیں۔ لہذا مسلمانوں کے سیاسی مقدمے کو ان تصورات کے حوالے سے ہی لڑاجانا چاہئے اور انصاف و مساوات کی یہ لڑائی صرف مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ ہر طبقہ اور ہر فرد کے لئے لڑی جانی چاہئے۔ اس لئے یہ ضروری نہیں مسلمان اپنی سیاسی جماعت مسلم نام سے ہی بنائیں۔ جب یہ لڑائی سب کے حقوق کے لئے ہے تو اس کانام بھی سب کے لئے قابل قبول ہونا چاہئے۔ چنانچہ کیا ہی اچھا ہو کہ اسدالدین اویسی پوری سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ مسلمانوں کے ووٹوں کی امانت کو سنبھالیں اور ایک مخلصانہ لائحہ عمل کے ساتھ آگے بڑھیں۔






