تمام مسلمانوں کو ایک ہی بلاک میں ووٹ دینے کا خیال اسی طرح سے ناپسندیدہ ہے جس طرح ہندوؤں کو ایک ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کی کوشش
تحریر : یوگندر یادو
مجلس کے ابھار نے مجھے تشویش میں ڈال دیا ہے، بہار اسمبلی انتخابات کے بعد میں نے جب یہ بات ایک ٹیلیویژن مباحثہ میں کہی تو معمول کے مطابق اس بار بھی میرے اوپر طعنے کسے گئے لیکن اس بار طعنے کسنے والے مسلمان تھے، مجھ پر اسلاموفوب اور پوشیدہ سنگھی ہونے کا الزام لگایا گیا اور اس طرح کے رد عمل سے میرے دل میں یہ یقین اور بھی پختہ ہوگیا کہ مجلس کا ابھار سچ میں ایک تشویش اور فکر مندی کی بات ہے۔
بیجا تشویشات
اس معاملے میں میری تشویش ویسی نہیں ہے جیسی کہ سیکولر جماعت والوں کی تشویش ہے، میں مجلس پر اس بات کا الزام نہیں دے رہا ہوں کہ اس نے سیکولر ووٹوں میں سیندھ لگانے اور اس بات کو یقینی بنانے کا کام کیا ہے کہ عظیم اتحاد ہار جائے، پہلی بات تو یہ ہے کہ مجلس پر جو الزام لگایا جا رہا ہے وہ صحیح نہیں ہے، ایم آئی ایم بہار کے شمال مشرقی خطہ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں پانچ سیٹوں پر جیتی ضرور ہے لیکن علاقہ کی جن باقی پانچ سیٹوں پر پارٹی الیکشن لڑی وہاں ووٹ اس طرح سے تقسیم نہیں ہوئے کہ عظیم اتحاد کے امیدوار ہار جائیں، سینٹر فار دی ڈیولپنگ سوسائٹی (CSDS) کے اندازے کے مطابق بہار میں تقریبا 76 فیصد مسلم ووٹ عظیم اتحاد کے کھاتے میں گیا ہے، پھر ظاہر ہے کہ مسلم رائے دہندگان نے این ڈی اے کو ہرانے کے لئے حکمت عملی کے ساتھ ووٹ نہیں کیا۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر مسلم ووٹ سچ میں تقسیم ہوگیا تو پھر ایسا ہونے میں آخر غلط کیا ہے؟ آپ کسی سیاسی پارٹی پر یہ الزام نہیں لگا سکتے نا کہ اس نے اپنے حریف کو جیتنے نہیں دیا، جو بھی نئی پارٹی آتی ہے اسی کو ووٹ کٹوا کہ دیا جاتا ہے، 2013 میں دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی پر بھی یہی الزام لگایا گیا تھا، یہ دیکھنا بڑا دلچسپ ہے کہ جن پارٹیوں پر بی جے پی کو آگے بڑھ کر روکنے کی بنیادی ذمہ داری تھی وہ پارٹیاں یہ امید لگائے بیٹھی تھیں کہ باقی تمام پارٹیاں انہیں ایسا کرنے میں مدد کریں گی ۔
بات چاہے جو بھی ہو، تمام مسلمانوں کو ایک ہی بلاک میں ووٹ دینے کا خیال اسی طرح سے ناپسندیدہ ہے جس طرح ہندؤوں کو ایک ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کی کوشش، صحت مند جمہوریت تو وہی کہلائے گی جہاں رائے دہندگان اپنی پیدائش سے حاصل خصوصیات یعنی ذات اور مذہب وغیرہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ پارٹی کے نظریات اور اپنے اندازے کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہوں، اگر مسلم ووٹ تقسیم ہوگئے تو اس سے یہی پتا چلتا ہے کہ ان کے پاس امیدوار کے انتخاب کے ایک سے زیادہ آپشن تھے، اور ایسا تھا تو یہ ایک اچھی بات ہے۔
ماضی مشتبہ اور حال فرقہ وارانہ
میری فکر مندی یہ نہیں ہے کہ مجلس نہایت ہی نقصان دہ سیاسی پارٹی ہے، اس حیدرآبادی پارٹی کو لے کر آج جو لوگوں کی طبیعت میں نفرت پل رہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اس کے لیڈر اسد الدین اویسی ٹیلیویژن کے جمے جمائے چہرہ ہیں، وہ صاف صاف اپنی باتیں کہتے ہیں، ان کی باتوں میں زور اور دم ہوتا ہے اور وہ اپنی باتوں کے ساتھ حملہ آور ہونے میں پرہیز نہیں کرتے، اس طرح ان کی پارٹی حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے والوں کا بھت ہی آسانی سے شکار ہو جاتی ہے۔
یہ بات طے ہے کہ مجلس کا ماضی مشتبہ رہا ہے،اس وقت کے حیدرآباد کے حاکم نظام کی سرپرستی میں 1927 میں قائم ہوئی اس پارٹی نے مسلمانوں کے غلبہ و اقتدار کے مسلم لیگ کے مطالبہ کی حمایت کیا تھا، یہی نہیں بلکہ ہندوستان میں حیدرآباد کے انضمام کے خلاف ہندوستانی فوج سے لڑے والے مسلح رضاکاروں سے بھی مجلس کا تعلق رہا ہے، لیکن ایک بار جب مجلس نے آزاد ہندوستان کی سچائی کو قبول کرلیا تو پھر اس کی قیادت کی ذمہ داری اویسی خاندان کے کاندھے پر آئی اور تب سے پارٹی آئینی جمہوریت کے طے شدہ دائروں میں رہ کر اپنی سیاست کرتی ہے، اس پارٹی خاص طور سے اویسی فیملی پر اس کا الزام لگتا رہا ہے کہ حیدرآباد کے تمام علاقوں اور طبقوں پر ان کا زور چلتا ہے، لیکن اس معاملے میں مجلس ممبئی کے شیو سینا سے کسی بھی طرح مختلف نہیں ہے۔
مجلس ایک فرقہ پرست پارٹی ہے، یہ پارٹی “مسلمانوں کی، مسلمانوں کے لئے اور مسلمانوں کے ذریعے ” طرز کی سیاست کرتی ہے، لیکن ایسا کرنے والی صرف یہی تنہا پارٹی نہیں ہے، ذرا شرومنی اکالی دل کے بارے میں سوچئے جو” سکھوں کی، سکھوں کے لئے اور سکھوں کے ذریعے “طرز کی سیاست کرتی ہے، یا پھر ہم کیرلا کی انڈین مسلم لیگ اور اترپردیش کی ملی کاؤنسل کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، یا پھر اس سلسلہ میں ہم ان پارٹیوں کو یاد کرسکتے ہیں جن کے نام سے تو ان کا ایجنڈا ظاہر نہیں ہوتا لیکن اپنے تمام سیاسی مقاصد اور اظہار میں وہ کسی ایک مذہب کی نمائندگی کرتی ہیں، مثلاً آسام کی آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ اور کیرلا کانگریس کے مختلف دھڑ، اور سب سے واضح مثال تو بی جے پی کی ہے، پھر ہم اس سلسلہ میں ایسی پارٹیوں کو بھی لے سکتے ہیں جو کسی خاص ذات کی نمائندگی کرتی ہیں، یہ تمام پارٹیاں قانون شکنی کرتے ہوئے ذات کی بنیاد پر یا پھر فرقہ وارانہ اپیل کے ذریعے اپنے لئے ووٹ اکٹھا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، بیشک ایسا کرنے سے روکنے کے قوانین ہیں لیکن یہ قانون کاغذی بن کر رہ گئے ہیں، ان پارٹیوں کو غیر قانونی قرار دینا مسئلہ کا حل نہیں ہے، ایسی پارٹیوں سے سیاسی زمین پر ہی نپٹنا ہوگا، فرقہ وارانہ سیاست کے نام پر صرف مجلس پر انگلی اٹھانا منافقت کہلائے گا۔
اصل مسئلہ
مشکل مجلس کو لے کر نہیں بلکہ مشکل ان باتوں کو لے کر ہے جن کی نمائندگی مجلس کرتی ہے، یہ پارٹی قومی اسٹیج پر خاص مسلم سیاست کے ابھار کی علامت ہے،مسلمان ہونے کی وجہ سے کسی شخص میں جو خوف ہوتا ہے اس کو برانگیختہ کرنے کی تمام کوششیں نریندر مودی حکومت میں ہوئیں، آج مسلمانوں کو لگنے لگا ہے کہ وہ اپنے ہی ملک میں دوئم درجہ کے شہری بن کر رہ گئے ہیں، انہیں اندیشہ ہے کہ حالات اس سے بھی زیادہ برے ہوسکتے ہیں، خوف و غصہ کے اس ماحول میں اسد الدین اویسی جیسے شخص کے لئے اپنے دائرہ کو بڑھانے کا بھرپور موقع ہے، روایتی مسلم سیاست کے برعکس اویسی کو آئینی جمہوریت کی زبان معلوم ہے اور روایتی سیکولر سیاست کے برعکس اویسی مسلم مفادات کی بات بھی زور و شور سے کرتے ہیں، جب سپریم کورٹ نے رام مندر معاملہ میں اپنا عجیب سا فیصلہ سنایا تو اویسی نے مسلم کمیونٹی کی طرف سے اپنی بات رکھی، وہ جانتے ہیں کہ انہیں جو کچھ کہنا ہے اسے قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے کیسے کہا جائے، وہ ٹیلیویژن کی طاقت بھی سمجھتے ہیں، اسی لئے اویسی پر الزام لگانا بے کار ہے، ووٹ کے بازار میں جو کچھ موجود ہے اسے اویسی جیسے چالاک لیڈر حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
اگر کسوٹی کسی ایک علاقہ سے باہر نکل کر خاص مسلم سیاست کو آزمانے کی بنائی جائے تو پھر کہنا ہوگا کہ اس کسوٹی پر مجلس سب سے زیادہ کامیاب رہی ہے، بہار میں اس پارٹی کی کامیابی اندھے کے ہاتھ بٹیر لگنے جیسا معاملہ نہیں ہے، وہ ایک لمبے وقت سے اس کوشش میں لگی تھی کہ اس کی سیاست حیدرآباد سے باہر بھی پھیلے، بہار کی ہی طرح، اویسی اپنے پیر جمانے کے لئے تیسرے مورچہ کی پارٹیوں کے ساتھ اپنی پارٹی کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، 2019 میں انہوں نے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں پرکاش امبیڈکر کی بہوجن ونچت اگہاڑی کے ساتھ اتحاد کیا تھا، ان کی پارٹی کو اورنگ آباد میونسپلٹی کے انتخابات میں زبردست کامیابی ملی، آگے ہم یہ بھی دیکھینگے کہ مجلس مغربی بنگال اور اترپردیش کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں اپنی کوشش جاری رکھے گی۔
ملک کی تقسیم کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں نے جس طرح کی سیاست کی ہے، مجلس کی سیاست اس سے بلکل مختلف ہے، مالبار اور حیدرآباد جیسے چھوٹے علاقوں کو چھوڑ دیں تو دیگر کسی بھی جگہ مسلمانوں نے مسلم پرست پارٹیوں پر بھروسہ نہیں کیا، اس کے برعکس مسلمانوں نے اپنا بھروسہ جواہر لال نہرو، وی پی سنگھ اور ملائم سنگھ یادو جیسے لیڈران پر جتایا، مسلمانوں نے اپنا ووٹ سیکولر پارٹیوں کو دیا جنہیں اکثریت کمیونٹی کا بھی بھروسا حاصل تھا۔
مجلس کا ابھار اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسلم عوام اب کانگریس طرز کی سیکولر سیاست سے اکتا چکے ہیں، آر جے ڈی اور ایس پی بھی کانگریسی طرز کی سیاست کرتی تھی، یہ مسلمانوں کو بندھک بنائے رکھنے اور انہیں ایک ووٹ بینک کے طور پر سمجھنے کی سیاست ہے اور مسلم عوام اب اس بات کو سمجھ چکے ہیں، اس طرز کی سیاست مسلمانوں کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے میں مددگار نہیں ہے، اور بطور مسلم ان کے دل میں کوئی دکھ اور تکلیف ہے تو اسے بھی سیکولر طرز کی سیاست کھل کر نہیں کہنے دیتی ہے، ہندوستانی مسلمانوں کا المیہ سیاہ فام امریکیوں سے مشابہ ہے، ریپبلک پارٹی کو سیاہ فاموں کی فکر نہیں ستاتی ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ سیاہ فام رائے دہندگان اسے ووٹ نہیں دیتے ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی بھی سیاہ فاموں کی فکر نہیں کرتی کیونکہ اسے لگتا ہے کہ ہمیں ووٹ دینے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، ہندوستان میں کچھ ایسی ہی حالتوں کے بیچ مجلس نے مسلم عوام کو ایک راستہ دکھایا ہے کہ اگر وہ مساوی شہری نہیں ہوسکتے تو کم از کم مسلم تو ہو ہی سکتے ہیں، یہ کوئی حل نہیں ہے لیکن حل جیسا لگتا ہے۔
سیاست کے قومی اسٹیج پر خاص مسلم سیاست کا ابھار ہندو اکثریتی سیاست کا وہ مناسب ساتھی ہوسکتا ہے جس کا انتظار اسے ایک زمانے سے رہا ہے، اس کے نتیجہ میں اب ہوگا یہ کہ ہندو اور مسلمانوں کے بیچ موجود اختلاف کی کھائی کو پاٹنے کی سیاست کے اندر کوئی پرزور جذبہ نہیں رہ جائے گا، بی جے پی کو اقتدار میں بیٹھ کر ہندو اکثریتی سیاست نے سیکولر سیاست کو خارج کر ہی رکھا ہے، اگر اقلیتوں کو بھی سیکولر سیاست بے کار لگنے لگے تو پھر سمجھئے کہ ہندوستان کے آئین میں جس سیکولر ہندوستان کا نظریہ درج ہے اس کا خاتمہ ہوگیا، سیکولر سیاست کو چاہیے کہ وہ خود کو بدلے اور اس خطرہ کا مقابلہ کرے، سیکولر سیاست کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے۔
(مترجم: احمد الحریری، دی پرنٹ،18، نومبر2020)






