یوگیندر یادو کو ڈر ہے کہ اگر مسلمان کسی مسلم قیادت والی پارٹی کو ووٹ دینے لگے تو پھر سیکولر مورچے صرف الگ الگ ذاتوں کے نمائندے بن کر رہ جائیں گے ۔
شرجیل عثمانی
(اسٹوڈنٹ لیڈر اور فریٹرنیٹی موومنٹ کے قومی سیکریٹری)
میں نے دی پرنٹ میں شائع یوگیندر یادو کے حالیہ کالم کا جواب دینے کے لئے خود کو مجبور کیا ہے جس میں انہوں نے مجلس کے ابھار کو ایک پریشان کن خبر بتا کر بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔
حالانکہ منطقی اعتبار سے، انتخابی مبصر اور تجزیہ کار سے لیڈر بنے یوگیندر یادو کی سطحی تنقید کا کوئی مطلب نہیں ہے، لیکن یہ ایک ناپسندیدگی کا کھلا اظہار ضرور ہے، اگر ہم بغور دیکھیں تو پائیں گے کہ بہار اسمبلی انتخابات میں اسد الدین اویسی کی پارٹی کی کامیابی کے بارے میں زیادہ تر لیڈران جو کچھ کہتے ہیں وہ دراصل یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ مسلم ووٹ جسے وہ اپنا ذاتی حق سمجھتے تھے اب ان کا نہیں رہا۔
حیدرآباد کے باہر مجلس کے ابھار سے خاص کر بھارت کے ہندی بیلٹ میں زیادہ تر سیکولر سیاسی مورچے یکساں طور پر ہل گئے ہیں، جب بہار انتخابات کے نتیجوں کا اعلان ہوا اور تیجسوی یادو کی آر جے ڈی کی قیادت میں عظیم اتحاد کے اچھے مظاہروں کے باوجود این ڈی اے کو مزید پانچ سال کے لئے حکومت مل گئی تو بھت سے کانگریسی لیڈران ناخوش تھے، اور ایک وقت میں تو ایسا لگا کہ جیسے کانگریس پورا الیکشن ہار جانے سے اتنی مایوس نہیں تھی جتنی کے مجلس کے سیمانچل میں پانچ سیٹ جیتنے سے تھی، وہی سیمانچل جو کبھی اس کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔
بہار میں کانگریس کے سب سے بڑے مسلم لیڈران میں سے ایک طارق انور نے ٹیوٹ پر لکھا “این ڈی اے کو اویسی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے بہار میں ایک بار پھر حکومت بنانے میں ان کی مدد کی”.
یوتھ کانگریس کے بیشتر فیس بک پیج پر بھی اسی طرح کے پوسٹر اور کارٹون شیئر کئے گئے کہ مجلس بی جے پی کی بی ٹیم ہے اور اویسی نے بہار جیتنے میں این ڈی اے کی مدد کی ہے، لیکن انتخابی اعداد و شمار ایسے تمام دعووں کو خارج کرتے ہیں، حالانکہ ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ کانگریس نے ایسا بے بنیاد دعویٰ کیا ہے، دسمبر 2018 میں تلنگانہ اسمبلی الیکشن میں راہل گاندھی نے کہا تھا: ” ٹی آر ایس بی جے پی کی بی ٹیم ہے اور مجلس بی جے پی کی سی ٹیم ہے “۔
یوگیندر یادو کو حقیقت جانچنے کی ضرورت ہے
یوگیندر یادو کی تنقید، مذمت اور ہوشیاری سے پر ہے، ان کا الزام ہے کہ مجلس خاص طور سے ایک نقصان دہ سیاسی جماعت ہے، وہ حیدرآباد میں قائم پارٹی کی تاریخ بتاتے ہیں اور جس وقت حیدرآباد ایک آزاد ریاست تھا تب بھارت یا پاکستان کے معاملے میں اس کے نظریہ کو لے کر بھارت کے تئیں اس کی وفاداری اور تابعداری پر سوال کھڑے کر کے اسے غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، میں نے تو ابھی تک نہیں دیکھا کہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کی وفاداری پر اس بات کو لے کر سوال اٹھ رہے ہوں کہ اس کے تاسیسی اراکین نے 1947 سے قبل کیا کیا تھا، ہم جانتے ہیں کہ کانگریس کس طرح ہندو مہاسبھا کے بانی مدن موہن مالویہ اور لالہ لاجپت رائے جیسے ہندو قوم پرست حتی کہ وی ڈی ساورکر تک کو سراہتی تھی۔
ماضی کے لئے اگر کانگریس کی تنقید ہوتی بھی ہے تو وہ اس کی غلطیوں یا زیادہ سے زیادہ اس کے مسلمانوں کو لبھانے اور خوش کرنے تک محدود ہوتی ہے لیکن یوگیندر یادو نے مجلس کو اس کی غلطیوں کے لئے مشتبہ قرار نہیں دیا ہے بلکہ اس کے بجائے انہوں نے بھارت کے تئیں پارٹی کی وفاداری اور تابعداری پر سوال کھڑے کئے ہیں۔
ساتھ ساتھ یوگیندر یادو یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ مجلس فرقہ پرست جماعت ہے، حالانکہ وہ اتنے ایماندار ضرور ہیں کہ اس بات کو مانتے ہیں کہ صرف مجلس ہی فرقہ پرست جماعت نہیں ہے، وہ لکھتے ہیں کہ شیرومنی اکالی دل، انڈین یونین مسلم لیگ، ملی کاؤنسل، اے آئی یو ڈی ایف اور کیرلا کانگریس کے بھت سے دھڑے بھی اتنے ہی فرقہ پرست ہیں۔
اے آئی یو ڈی ایف، جیسا کہ یادو کہتے ہیں صرف اس معاملے میں الگ ہے کہ یہ اپنے نام کے اعتبار سے فرقہ پرست نہیں ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کو اس میں شامل کیوں نہیں کیا جو برہمنوں کی نمائندگی کرتی ہے، عام آدمی پارٹی جو بنیوں کی نمائندگی کرتی ہے، ایس پی جو اترپردیش میں یادووں کی نمائندگی کرتی ہے، آر جے ڈی جو بہار میں یادووں کی نمائندگی کرتی ہے، بی ایس پی جو یوپی میں دلتوں کی نمائندگی کرتی ہے، ایس بی ایس پی جو راجبھروں کی نمائندگی کرتی ہے، اپنا دل جو کرمیوں کی نمائندگی کرتی ہے اور بہوجن ونچت اگہاڑی جو مہاراشٹر میں دلتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔
غور طلب ہے کہ یوگیندر یادو نے صرف تین پارٹیوں کا نام لیا جو تینوں اقلیت سماج سکھ، عیسائی اور مسلمان کی نمائندگی کرتی ہیں۔
اخیر میں یوگیندر یادو کی سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ اویسی کی مجلس وہ مناسب ساتھی ہوسکتی ہے جس کی ہندو اکثریتی سیاست کو تلاش تھی، مجھے انہیں یاد دلانا پڑیگا کہ ہندوتوا کی سیاست پہلے ہی دو انتخابات جیت چکی ہے اور مجلس کی مدد کے بغیر ہی تمام اسٹیٹ انسٹیٹیوشن کو خطرہ میں ڈال چکی ہے۔
نریندر مودی حکومت پہلے سے بھی زیادہ ووٹوں کے ساتھ پھر سے منتخب ہوکر آگئی ہے اور سب کچھ ہونے کے باوجود ان کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، ہندو اکثریتی سیاست سچ میں مواقع کی تلاش میں تھی جو انہیں سیکولر لیڈران نے خود دے دئے ہیں، سیکولر پارٹیوں کے ذریعے رام مندر بھومی پوجن کے استقبال نے ہندو اکثریتی سیاست کو منظوری دے دی ہے، سیکولر پارٹیوں کے ذریعے ایودھیا فیصلہ کے استقبال اور مسلمانوں سے جڑے مسئلوں پر ان پارٹیوں کی مسلسل خاموشی نے بھی یہی کام کیا ہے۔
سیکولر پارٹیوں کو الزام سے بری کردینا
یوگیندر یادو کے لئے اس طرف سے آنکھیں پھیر لینا آسان ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ مودی کے دوسرے دور کے شروع ہونے کے بعد سے ہندو اکثریتی سیاست “ہندو خطرہ میں ہے” سے ہٹ کر مسلمانوں کو ڈر کر جینا پڑیگا پر آگئی ہے۔
اپنی بات ثابت کرنے کے لئے بی جے پی کو اویسی کی پارٹی کی ضرورت نہیں ہے، ابھی تک مسلم ووٹوں کو اپنے حق میں مان کر چلتے ہوئے سیکولر پارٹیوں نے ان کی جائز نمائندگی انہیں نہ دے کر سماجی انصاف قائم کرنے میں ناکام رہی ہے،سچر کمیٹی، کنڈو کمیٹی اور دیگر تحقیقی کاموں کی رپورٹ صاف طور پر مسلمانوں کو لے کر سیکولر پارٹیوں کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتی ہیں، ان پارٹیوں نے ہندو اکثریتی سیاست کے نا صرف کام کرنے کا بلکہ پھلنے اور پھولنے کا راستہ صاف کیا ہے۔
ان حالات کے لئے سیکولر پارٹیوں کی غیر مناسب پالیسیاں ذمہ دار ہیں، یہی ایک موقع تھا جس کا ہندو اکثریتی سیاست کو انتظار تھا، ہم اس سے گزر چکے ہیں، یوگیندر یادو اور دوسروں کو ڈر ہے کہ اگر مسلمان کسی مسلمان کی قیادت والی پارٹی کو ووٹ دینے لگینگے تو پھر ہر سیکولر مورچے کو وہی بننا پڑیگا جو وہ حقیقت میں ہے یعنی الگ الگ ذاتوں کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعت۔
مجلس کوئی سیکولر پارٹی نہیں ہے کیونکہ ہندو اسے ووٹ نہیں دیتے، سماج وادی پارٹی سیکولر پارٹی ہے کیونکہ یادووں کے علاوہ اسے مسلمان بھی ووٹ دیتے ہیں۔
یوگیندر یادو غلط سمجھ رہے ہیں، وہ ہندو اکثریتی سیاست کو سامنے لانے کا الزام ہندو اکثریت کے بجائے مسلمانوں کو دے رہے ہیں،جیسے کہ اگر اسد الدین اویسی یا کوئی دوسری مسلم سیاسی جماعت نا ہوتی تو تو ہندو اکثریتی سیاست ختم ہو چکی ہوتی، اب وقت ہے کہ ہندو کمیونٹی کے لوگ مسلمانوں کو الزام دینے کے بجائے اپنے جھمیلوں کی ذمہ داری خود لیں جیسا کہ بی جے پی کرتی ہے۔
یوگیندر یادو کے سیکولرازم کا مطالبہ یہ ہے کہ مسلمان ہندوؤں کی قیادت والی پارٹیوں کو ووٹ دیں، جیسا کہ وہ 1947 سے تقریباً پوری ایمانداری سے کرتے آرہے ہیں، مسلمانوں کے مجلس کو ووٹ دینے کا- جوکہ ایک مسلم پارٹی ہے-ان کی نظر میں مطلب یہ ہے کہ مسلمان سیکولرازم کو خارج کر رہے ہیں۔
اس سوچ کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ ہے، اگر یوگیندر یادو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ سیکولرازم کے تحفظ کے لئے مسلمانوں کو صحیح معنوں میں اپنی نمائندگی کا ایک بہترین موقع کھو دینا چاہیے تو اس سیکولرازم کا تحفظ نہیں کیا جانا چاہیے، اسد الدین اویسی کا ابھار سیکولر پارٹیوں کے بی جے پی کی ہندو اکثریتی سیاست کے مقابلے کھڑے ہونے یا نا ہونے کے جواب میں ہے۔
یوگیندر یادو کو یہ نہیں مان لینا چاہیے کہ مجلس ایک مسلم بی جے پی بن جائے گی، اس کے بجائے ایک بار کے لئے ہندو اکثریت کو ایک مسلم لیڈر کے پیچھے کھڑے ہوکر بھارت کے سیکولرازم کا تحفظ کرنا چاہئے۔
خیر اپنی تقریروں میں ہندو اکثریتی سیاست کا مقابلہ کرنے یا آئین کے سیکولر اقدار کا مظاہرہ کرنے میں کوئی دوسرا لیڈر اسد الدین اویسی کی برابری نہیں کرسکتا ہے۔
سیکولر پارٹیوں کی تصدیق کے بغیر بھی کوئی مسلم لیڈر سیکولر ہوسکتا ہے یہ ماننے میں یوگیندر یادو کا تامل اصل میں اسلام کے تئیں اُنکے خوف (اسلامو فوبيا) کو ظاہر کرتا ہے۔
(مترجم:احمد الحریری، دی پرنٹ ، 21 نومبر 2020)






