نیپالی وزیر اعظم کی یقین دہانی ،سراج العلوم السلفیہ کو دیا جائے گا یونیورسیٹی کا درجہ

نیپالی وزیر اعظم کی یقین دہانی ،سراج العلوم السلفیہ کو دیا جائے گا یونیورسیٹی کا درجہ
وزیراعظم پشپ کمال دہال سے مولاناشمیم احمدندویؔ کی قیادت میں ایک خصوصی وفدکی ملاقات
کاٹھمانڈو،نیپال
ملت ٹائمز/ہارون فیضی
جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر ملک نیپال کاسب سے قدیم اورسب سے عظیم تعلیمی،رفاہی اوردعوتی ادارہ ہے،ملک نیپال میں شاہی حکومت کے خاتمہ اورجمہوریت کے قیام کے بعدیہاں کے مسلمان اپنے سیاسی،تعلیمی اورسماجی ومعاشی حقوق کے تئیں کافی پُرامید ہیں اوریہاں کی جمہوری حکومتوں کے سامنے اپنے مسائل پیش کرتے رہتے ہیں، اسی سلسلہ میں جامعہ سراج العلوم السلفیہ نے بھی اپنی قائدانہ ذمہ داریوں کومحسوس کرتے ہوئے ملک کے مسلمانوں کے گوناں گوں مسائل کوایوان حکومت تک پہونچانے کی کوشش کی اوراس کے لئے اس کے ناظم اعلیٰ نے ایک وفدکی قیادت کرتے ہوئے وزیراعظم نیپال عزت مآب پشپ کمال دہال(پرچنڈ) سے ان کی رہائش گاہ پرملاقات کی اورایک خوبصورت مومنٹو اورتوصیفی سند پیش کیا،جس کوقبول کرتے ہوئے وزیر اعظم نے مولاناشمیم احمدندویؔ وڈیلی گیٹ ٹیم کاشکریہ اداکیا،ڈیلی گیٹ نے اپنے اس ملاقات میں وزیر اعظم کے سامنے اپنے مطالبات کوبہت ہی موثر ڈھنگ سے رکھا، اس وفد میں نیپال مدرسہ بورڈ کے نائب صدرجناب رضی حیدر بھی ہمراہ تھے واضح ہوکہ نیپال مدرسہ بورڈ کے صدرنیپال کے وزیرتعلیم ہوتے ہیں،رضی حیدرصاحب نے مسلمانان نیپال کے لئے ایک اقلیتی یونیورسٹی کے قیام کی ضرورت پرزوردیا جس کے لئے انہوں نے جامعہ سراج العلوم السلفیہ کومنظوری دینے کی زبردست سفارش وتائید کی۔
واضح رہے کہ ڈیلی گیٹ کے سربراہ مولاناندویؔ نے نیپال میں مسلمانوں کے دینی اداروں کے مسائل سے روشناش کراتے ہوئے کہاکہ مدرسہ کے بچے ملک نیپال میں ناکہ صرف ناخواندگی کی شرح کم کرنے میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں بلکہ بیرون ممالک کی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ بچوں نے ملک نیپال کے وقاروعظمت کوبلندکیاہے،لیکن سراسرظلم تویہ ہے کہ دورشہنشاہیت سے لے کر آج تک مدارس کے اسنادکوحکومت نیپال کی نگاہ میں ایک کورے کاغذ سے زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی ہے، جب کہ مدرسہ کے اسنادپڑوسی ملک ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں اوربیرون ممالک میں اہمیت وعزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے نیزدیگر شعبۂ جات میں مدرسہ کے اسناد سے ہی اعلیٰ تعلیم کے لئے داخلے بھی ہوتے ہیں۔
وزیراعظم وفدکی باتوں سے کافی متاثرہوئے اورمسلم مسائل کے حل کے لئے(جن میں اقلیتی یونیورسٹی کا قیام وفدکی نظرمیں سرفہرست تھا)ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی، مولاناشمیم احمدندویؔ کے ہمراہ جامعہ کے نائب ناظم ڈاکٹرمنظوراحمدندویؔ علیگؔ اورمدرسہ کے ترجمان اورنیپال مدرسہ بورڈ کے ممبر مولانامشہوداحمدخاں نیپالی بھی تھے، پوری گفتگوکے دوران وزیراعظم کے مشیرخاص جناب بلدیوکھنال بھی نہ صرف موجودرہے بلکہ وفدکی بہت بہتراندازمیں تائید وترجمانی کرتے رہے،انہیں کی کوششوں سے وزیراعظم کی بے انتہا مصروفیات کے باوجود یہ ملاقات ممکن ہوپائی،واضح رہے کہ اس وقت وطنِ عزیز میں صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے لئے صوبائی حدبندیوں کامسئلہ بہت اہم ہے،جس کے لئے نوتشکیل شدہ دستور میں ترمیم کی بات چل رہی ہے،پھربھی پوری گفتگو بہت ہی مثبت اورخوشگوارماحول میں ہوئی، مسلمانان نیپال کے دیگرمسائل میں موثر مسلم آیوگ اورحج کمیٹی کی تشکیل نوجیسی مسلم ایشوزسے جڑی باتیں زیربحث آئیں اوروزیراعظم نے ان مسائل کے حل میں حددرجہ دلچسپی کااظہارکیا،بلکہ آگے بڑھ کرازخودیہ کہاکہ مسلمانوں کے تعلق سے اوربھی باتیں اگرہوں توان کے حل کے لئے ہم اورہماری حکومت موجودہے۔وفدنے وزیراعظم کے ان جذبات کاشکریہ اداکیااورخوشگوار احساسات اورتعلقات لئے واپس ہوا۔

SHARE