جامعہ باغی ہے؟

محمد یوسف نظامی 

(جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی)

محترم قارئین :

آپ نے بالکل صحیح پڑھا کہ جامعہ باغی ہے، میں بھی کہتا ہوں کہ جامعہ باغی ہے ، اس کے خون میں ہی بغاوت ہے، حتی کہ اس میں درس لینے والے اور درس دینے دونوں باغی ہیں اور اس کےگرد و نواح میں قیام پذیر باشندےبھی باغی ہیں، اتنا ہی نہیں جامعہ بغاوتوں کی قیادت بھی کرتا ہے۔ اگر جامعہ کی تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کے بانیان بھی باغی تھے، جامعہ کی پوری نسل ہی باغی ہے۔ یہ ان کی بغاوت کا ہی نتیجہ تھا کہ جامعہ جیسی عظیم الشان مسلم اقلیتی ادارہ کی بنیاد علی گڑھ میں پڑی، اور انھوں نے اس قدر اپنے حریف کے گال پر زور کا طمانچہ مارا کہ ان کو ہندوستان چھوڑکر ہی جانا پڑا۔

اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تویہ بات ہم پر روز روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ جامعہ کیوں باغی ہوتا ہے؟ کب، کیوں اورکس کے خلاف بغاوت کرتا ہے ۔ جامعہ اس وقت بغاوت کی قیادت کرتا ہے جب ہندوستانیوں پر ناحق ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور انھیں غلامی کی زنجیروں میں قید کیا جاتا اور بلاخطا سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاتا ہے تاکہ مظلوموں کو ظالم کے چنگل سے چھڑایا جاسکے ۔ جامعہ اس وقت باغی ہوتا ہے جب کوئی دھرتی ماں کی عصمت کو تار تار کرنے پر تلا ہوتا ہے تاکہ اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرکے دودھ کا قرض ادا کرسکیں ۔ جامعہ اس وقت بغاوت کا بگل بجاتا ہے جب وہ ملک کے قانون کا جنازہ نکلتے دیکھتا ہے ، تاکہ قانون کا جنازہ اٹھنے سے روکا جاسکے ۔ جامعہ ان باغیوں کے کندھے سے کندھا ملا کر چلتا ہے جنھیں بلاقصور ملک سے باہر نکالنے کی ناپاک سازش کی جاتی ہے ۔ جامعہ ان فرقہ پرستوں کے سامنے سینہ سپر ہو جاتا ہے جو ماں ہندستان کے سر سے جمہوریت کی چادر کو کھینچنا چاہتا ہے تاکہ اس کے سر کو بے پردہ ہونے سے بچایا جاسکے ۔۔۔۔۔۔۔ اگریہ بغاوت ہے ؟ تو ہاں، جامعہ باغی ہے، اس سے وابستہ ہرہر افراد و بچے بھی باغی ہیں۔ اور میں بھی باغی ہوں ۔ لھٰذا ایک بار پھر نونہالانِ جامعہ نے اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس کی صد سالہ تاریخ کو دہرائی۔

کالےقانون NRC , CAB کو 9 دسمبر 2019ء کو وزیر داخلہ امت شاہ کےذریعہ لوک سبھا اور پھر 11 دسمبر 2019ء کو راجیہ سبھامیں پیش کیا گیا ، جہاں سفید کوٹ میں بیٹھے کم عقلوں نے بلاتردد پاس کردیا اور 12 دسمبر 2019ء کو صدر جمہوریہ کے دستخط کے ساتھ ہی NRC,CAA ایک ایکٹ بنادیا گیا۔

 12/دسمبر 2019 کا دن ہندوستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کاںاضافہ تھا، جو این آر سی وسی اے اے کی شکل میں تحریر کیا گیا تھا ۔ یہ آر ایس ایس اور برہمن واد کی ذہنیت کا پیدا کردہ ہندوستانی مسلم قوم کے خلاف ایک پروپیگنڈہ تھا ، یہ ایسا کالا قانون تھا جو اپنوں کو اپنوں سے جدا کررہا تھا ، اور اندر والوں کو باہر اور باہر والوں کو اندر داخل کرانے کی ایک ناپاک سازش تھی، یہ فرقہ پرستی کو جنم دینے والا قانون تھا، جس دن یہ قانون پارلیمنٹ سے پاس ہوا وہ ہندوستان کی تاریخ کاسیاہ دن تھا اور ہندوستانی جمہوریت پر ایک بدنما داغ تھا، اور اس وقت قانون کو پاس کرنے والے شداد ۔نمرود، راون اور ہٹلر بنے ہوئے تھے ۔ یہ آزاد ہندوستان کے مجاہدین کے ارواح کے ساتھ گندھا کھیل کھیلا جارہا تھا۔

اس کالےقانون کو کسی بھی ہندوستانی و محب وطن کےلئے قبول کرنا کسی بھی حال میں آسان نہ تھا، لیکن کوئی ظالم و برہمن وادی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنا نہیں چاہتا تھا اور نہ ہی کوئی مفلوج دماغ کے برہمن واد کےخلاف انگلی اٹھانا چاہتا تھا، کیونکہ کہیں ان کی نظر میں ان کا مقام و مرتبہ کم نہ ہوجائے اور اپنا وقار کھو بیٹھیں۔ چنانچہ وہی ہوا جو ہر بار ہوتا ہے، جامعہ والے کہاں اس کو تسلیم کرنے والے تھے، پس 13 /دسمبر کو بعد جمعہ جامعہ گیٹ نمبر 7 پر کالے قانون کے خلاف اعلانیہ مظاہرہ کیا پھر جنتر منتر کا رخ کیا ہی تھا کہ پھر اچانک ہولی فیملی کی جانب جامعہ گیٹ نمبر 4 پر ملک کے ظالم بہادروں نے راستے کو بیئریکیڈنگ کے ذریعہ روک دیا، لیکن یہ محب وطن کو کہاں روک سکتی تھی، لھٰذا پولیس و مظاہرین کے مابین ہاتھا پائی کی نوبت آگئی اور اچانک پولیس نے اپنا ظالمانہ مظاہرہ پیش کیا اور بےتحاشہ مظاہرین پر لاٹھی چارج کردیا، جس سے ان میں بھگڈر مچ گئی اور اس دوران پولیس نے آنسو گیس کے گولے بھی مظاہرین پر برسائے، جس سے بہت سارے طلباء زخمی ہوگئے، اس مظاہرہ میں جامعہ طلباء ، اساتذہ، جامعہ اساتذہ کمیٹی اور جامعہ نگر کے باشندوں وغیرہ نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی تھی۔ یہ چھڑپ شام تک جاری رہا اورکسی بھی حال میں مظاہرین کا قافلہ جنتر منتر تک نہ پہونچ سکا، حالانکہ بہت سے بچے کسی طرح جنتر منتر پہونچ کر اپنا مظاہرہ درج کرایا۔

15 دسمبر 2019ء کا دن جامعہ کی تاریخ کا سیاہ دن ثابت ہوا، 2:00 بجے دن میں بڑے پیمانے پر مظاہرین کا قافلہ جنتر منتر کی جانب کوچ کیا،اس میں تقریباً پورا جامعہ نگر وغیرہ کے علاقوں سے عوام نے شرکت کی۔پس یہ قافلہ جب آشرم فلائی اور کے پاس پہونچا تو پھر اچانک دہلی پولیس اور مظاہرین کے درمیان چھڑپ ہوگئی۔ جہاں پولیس مظاہرین پر لاٹھی اور آنسوگیس استعمال کرتی ہوئی ان پر ٹوٹ پڑی ، وہیں پر مظاہرین میں نامعلوم گروہ ہوا جو پتھروں کے سہارے اپنا دفاع کررہا تھا۔ اس بیچ کئی بس، موٹر سائکل، کار اور بہت دیگر سامانوں کو بھی نظر آتش کردیا گیا۔

پولیس کی بربریت یہیں ختم نہ ہوئی بلکہ انھوں نے مظاہرین کو دوڑا دوڑا کر مارنا شروع کیا، ایک گروہ بھاگ کر جامعہ کیمپس میں پناہ کے لئے داخل ہوگیا۔اب کیا تھا فرقہ پرستوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں کو جس موقع کی تلاش تھی وہ ہاتھ آیا۔ وہ جامعہ گارڈز پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے کیمپس میں گھس گئے اور بے دردی سے بغیر کسی شناخت کے لائبریری، ابن سینا ریڈنگ ہال میں پڑھ رہے بچوں پر اپنی بربریت کا مظاہرہ کیا، یہاں کی کرسیاں، دروازے، سی سی ٹی وی کیمرے ویڈیو کو بے دردی سے توڑ ڈالا، بچوں کی کتابوں کو جوتوں سے روند ڈالا، حتی کہ ان طلباء کو بھی نہیں بخشا جو ٹوائلٹ میں قضائے حاجت میں مصروف تھے۔ اِدھر ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریری میں اندر بچوں کو بندکرکے ان پر آنسو گیس چلائے گئے اور اندرونی ڈھانچہ کو بری طرح تباہ کردیا گیا حتی کہ پی ایچ ڈی سیکشن کوبھی نہیں چھوڑا اور ان میں لگے کیمروں، کرسیوں کا کباڑ خانہ بنادیا، جس درندگی کا مظاہرہ کیاگیاتھا معلوم ہورہا تھا کہ جیسے جامعہ کیمپس میں عالمی جنگ چل رہی ہو۔ اتنا ہی نہیں بلکہ پورے ہاسٹل میں آنسو گیس کے گولے چلائے گئے۔ کثیر تعداد میں طلباء زخمی ہوئے اسی میں بہت سے میرے بھی ساتھی زخم ہوئے، اور بھائی منہاج الدین نے ہمیشہ کے لئے اپنی ایک آنکھوں کھودی۔ بچوں کو لائبریری سے ہاتھ اوپر کرکے قیدی کی شکل میں نکالا گیا اور پھر ان کو بغیر کھانا و پانی کے دہلی کے مختلف تھانوں میں ڈال دیا گیا۔جہاں انھیں پوری رات گزارنی پڑی۔ جامعہ نگر میں جس دہشت گردی کا ننگا ناچ ناچا گیا اس سے پورا بٹلہ ہاؤس کو میدان جنگ بنادیا گیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے 26//11 کا حادثہ جامعہ میں دوبارہ ہوگیا ہو۔

ہائی جینک کا علاقہ بھی بری طرح تباہ کردیا گیا تھا، بیگم حضرت محل، نہرو گیسٹ ہاؤس اور آڈیٹوریم وغیرہ ہر جانب تباہی کا منظر نظر آرہا تھا۔ اس وقت جس کو جہاں بھی موقع ملا ، خود کو ظالم کے ہاتھوں سے بچانے کےلئے چھپ گیا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ جیساکہ جنرل ڈائر کی روح قبرسے اٹھ کرچلی آئی ہو، 2019ء میں جامعہ کا حادثہ سازش کے تحت انجام دیا گیا، اور بعین ہی سوسال قبل 1919ء میں جلیاں والا حادثہ بھی سازش کے تحت ہی واقع ہوا تھا، یہاں کے منظر کو مشاہدہ کرکےمحسوس ہورہا تھا کہ جامعہ والا علم وفن کا باغ ایک بار پھر جلیاں والا باغ میں تبدیل کردیا گیا۔ جامعہ والا باغ اور جلیاں والا باغ کے حادثہ میں کوئی زیادہ فرق نہ تھا بلکہ وہاں جنرل ڈائر تھا اور یہاں جنرل ڈائر کی اولادیں تھیں۔ جلیاں والا باغ صرف ایک صدی قبل ہی امرتسر پنجاب میں واقع ہوا اور جامعہ والاباغ ایک صدی بعد دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں واقع ہوا۔

یہ کالی رات ختم ہونےکانام ہی نہیں لے رہی تھی، رات بھر پوری فضا ایمبولنس اور پولیس کی سائرنس سے گونج رہا تھا، وہیں پر جامعہ کیمپس اور بٹلہ ہاؤس کی گلیاں آہ و زاری سے گونج رہا تھا۔ ایک روایت کے مطابق جہاں پولیس کی وردی میں آرایس ایس غنڈوں کا ہجوم تھا وہیں پر مظاہرین میں بھی بہت سے فرقہ پرست عناصر شامل ہوچکا تھے، جس کی وجہ یہ معلوم نہ ہوسکاکہ کس گروپ نے سامانوں کو نظر آتش کی اور کس نے یہ فساد برپا کیا۔ البتہ اس پورے حادثے کا الزام جامعہ طلباء پر ڈال دیا گیا اور پھرایک مہم کے تحت ان کےخلاف شازش کرکے غیر قانونی مقدمے چلائے جارہے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور بہت سےجامعہ طلباء و دیگر مظاہرین قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔

15 دسمبر 2019ء کی شام میں ہونے والا حادثہ سراسر انسانیت کے خلاف تھا لیکن جب بھی ہم تاریخ آزادی ہند کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک سرد سانس لینے پر مجبور ہوجانا پڑتا ہے کہ جس طرح ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمارے اسلاف نے بہت سی قربانیاں دیں ہیں اسی طرح اس برہمن واد سے آزادی کےلئے اور ان کے خلاف کھڑے ہونے کےلئے ہمیں بھی بہت سی قربانیاں دینی ہوگیں۔ کیونکہ یہ تو ابھی ابتداء ہے نہ جانے اپنے وطن عزیز کی خاطر اور اس طرح کے کتنے فرقہ پرستوں کےخلاف ہمیں قربانیاں دینی ہوگئیں۔ پس یہ ہمارا اپنا وطن عزیز ہے جو جان سے زیادہ پیارا ہے۔ اس کی حفاظت کےلئے ہم کوئی بھی بغاوت کرنے کو تیار ہیں خواہ ہمیں باغیوں کا علمبردار قرار دے دیا جائے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ کیونکہ جامعہ نے ہمیشہ فرقہ پرستوں و ملک دشمن عناصرکے خلاف بغاوت کرنے والوں کا ساتھ دیا ہے اور ان کے خلاف جاکر خود کو باغی قرار دیا ہے۔

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کے مٹی میں 

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں