باغی لگائیں گے کیا بنگال میں بھاجپا کی نیا پار؟

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
الیکشن آتے ہی وفاداریاں بدلنے کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ اس وقت بنگال میں پارٹی بدلنے کا کھیل شباب پر ہے۔ مکل رائے سے لے کر شوبھیندو ادھیکاری تک ٹی ایم سی کے کتنے ہی لیڈران بی جے پی کا دامن تھام چکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ترنمول کانگریس کے کچھ اور موجودہ، سابق ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ بی جے پی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں بنگال کی سیاست میں جو بدلاؤ دیکھنے کو ملے، اس اتھل پتھل کا مرکز کانتھی قصبہ بنام کالی گھاٹ بن گیا۔ کالی گھاٹ میں وزیر اعلیٰ ممتابنرجی کا بنگلہ ہے اور کانتھی قصبہ میں شوبھیندو ادھیکاری کا گھر۔ شوبھیندو نندی گرام آندولن کا چہرہ تھے۔ نندی گرام سے ہی ممتابنرجی کے اقتدار میں آنے کا راستہ صاف ہوا تھا۔ اس کے علاوہ شوبھیندو ممتابنرجی کے بعد ٹی ایم سی میں سب سے مقبول لیڈر تھے۔ ان کے والد بھی ٹی ایم سی سے ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ شوبھیندو مدناپور ضلع کے نندی گرام سے ایم ایل ہیں۔ اور آس پاس کے کئی اضلاع میں ان کا اثر ہے۔
شوبھیندو کے استعفیٰ دے کر بی جے پی میں جانے کو ترنمول کانگریس کےلئے بڑا نقصان مانا جا رہا ہے، لیکن ممتابنرجی کو پہلے سے ان کے بی جے پی میں شامل ہونے کا اندازہ تھا۔ انہوں نے ڈیڑھ مہینے پہلے اپنے قریبی ساتھیوں سے کہا تھا کہ شوبھیندو بی جے پی میں جا رہے ہیں۔ اس لئے وہ ان سے بات نہیں کر رہی تھیں۔ انہوں نے شوبھیندو سے بات کرنے کی ذمہ داری سوگت رائے اور پارتھ چٹرجی کو سونپی تھی۔ ٹی ایم سی میں مانا جا رہا ہے کہ شوبھیندو نے چٹ فنڈ معاملہ میں سی بی آئی جانچ کے ڈر سے یہ قدم اٹھایا ہے۔ بہر کیف ٹی ایم سی میں اب تک کا یہ سب سے بڑا بدلاو ¿ ہے۔ اس بغاوت کی وجہ ممتا کے بھتیجے ابھیشک بنرجی اور ان کے سیاسی مشیر پرشانت کشور سے کارکنان کے ایک حصہ کی ناراضگی کو بتایا جا رہا ہے۔ ان کارکنان کا الزام ہے کہ یہ دونوں من مانے طریقہ سے پارٹی کو چلا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بدلاو ¿ بی جے پی کو ٹی ایم سی پر فوقیت دلا پائے گا۔
بی جے پی نے شوبھیندو کے آنے کے بعد جارحانہ رخ اختیار کر لیا ہے۔ وہ یہ دکھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ممتا کا کھیل اب ختم ہو گیا ہے۔ جبکہ ممتابنرجی ایسی زمینی لیڈر ہیں جو بغیر لڑے ہار ماننے والی نہیں ہیں۔ انہوں نے باغیوں کو ان کے گڑھ میں گھیرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ مدناپور کی 16 اسمبلی سیٹوں پر ٹی ایم سی نے ایسے نیتاو ¿ں کو لگایا ہے جو لمبے وقت سے مدناپور میں ادھیکاری خاندان کے خلاف رہے ہیں۔ ممتا مدناپور کے سبھی 350 بلاک اور 70 ڈویژن میں کارکنوں کی میٹنگ کریں گی۔ وہ رائے دہندگان تک پہنچ کر بتائیں گی کہ کیسے شوبھیندو نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ دوسری طرف وہ اقلیتی ووٹروں کو بتائیں گی کہ شوبھیندو مسلم مخالف بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔ مغربی مدناپور اور جھارگرام ضلعوں کی 35 اسمبلی سیٹوں پر قابل ذکر مسلم آبادی ہے۔ ٹی ایم سی کو لگتا ہے کہ اس کے بعد شوبھیندو کو مسلمانوں کا ووٹ نہیں ملے گا۔
ٹی ایم سی کے کئی ممبران اسمبلی اپنے حلقوں میں اینٹی ان کم بینسی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ترنمول ان سیٹوں پر نئے چہروں کی تلاش میں ہے۔ جن کو اس بار ٹکٹ ملنے کی امید نہیں ہے وہ ٹکٹ ملنے کے لالچ میں بی جے پی کا حصہ بن سکتے ہیں۔ دوسری پارٹیوں خاص طور سے ٹی ایم سی لیڈران کے بی جے پی میں آنے سے اس کا کاڈر ناراض ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ ترنمول لیڈران کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ ملک مخالف اور کرسی کے لالچی ہیں۔ ٹکٹ پانے کےلئے ہی وہ الیکشن سے ٹھیک پہلے پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ جو بھی بی جے پی سے جڑنا چاہتا ہے، اسے پہلے پارٹی کے نظریہ کو قبول کرنا ہوگا۔ بی جے پی قیادت کو معلوم ہے کہ کون کس عہدے کےلئے ٹھیک ہے۔ مکل رائے کی مثال سامنے ہے۔ وہ جب بی جے پی میں آئے تھے تبھی یہ صاف کر دیا گیا تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ کے امیدوار نہیں ہوں گے۔ اب اگر شوبھیندو یہ خواب دیکھ رہے ہیں تو یہ بالکل بھی نہیں ہونے والا۔ اس کا فیصلہ آر ایس ایس کرے گی کہ وزیر اعلیٰ کون ہوگا۔ اس کے کارکنان بڑی تعداد میں زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت دوسری پارٹیوں سے آنے والوں میں سے کچھ کو تو ٹکٹ ضرور دے گی لیکن یہ خیال بھی رکھے گی کہ اس سے پارٹی میں گٹ بازی نہ ہو۔
وزیراعظم نریندرمودی جنوری سے بنگال کا دورہ کریں گے۔ بی جے پی بنگال کی لڑائی کو مودی بنام ممتا بنانا چاہے گی لیکن ممتا کی کوشش ہوگی کہ ممتا کے سامنے بی جے پی میں کون ہے۔ اس سلسلہ میں بنگلہ بھاشا بھاشی و باہری اور بنگال کی تہذیب، روایت اور عزت کا سوال بھی اٹھے گا۔ کلکتہ میں بہاری، مارواڑی، گجراتی اور جینیوں کی بڑی آبادی ہے۔ بی جے پی ان کے درمیان دبے چھپے اپنی مہم چلا رہی ہے۔ ترنمول ایک بنگالی پارٹی ہے، ممتا یہ تشہیر کریں گی کہ ان کی پارٹی غیر بنگالیوں کے خلاف نہیں ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہیں گی کہ کیلاش وجے ورگیہ جیسے باہری بنگالیوں کی پہچان ختم کر دیں گے۔ بنگال کی روداری اور میل ملاپ کی تہذیب کو ختم کر دیں گے۔ بی جے پی مذہب اور فرقہ واریت کی بنیاد پر ریاست کو بانٹنا چاہتی ہے۔ وہ ربیندرناتھ ٹیگور کے گیت سونار بنگلہ کو بانٹنے کےلئے استعمال کر رہی ہے جبکہ ٹیگور نے یہ گیت 1906 میں انگریزوں کے ذریعہ مذہب کی بنیاد پر بنگال کو بانٹنے کے خلاف بنگال کو متحد رکھنے کے لئے لکھا تھا۔
اس وقت بنگال کی تقسیم کو روکنے کےلئے ملک بھر میں انگریزوں کے خلاف جس طرح کی سماجی و سیاسی جدوجہد دیکھنے کو ملی اس کی مثال دوبارہ کبھی دیکھائی نہیں دی۔ ایک ہی جلوس میں ایک بار بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگتا تو دوسری مرتبہ اللہ اکبر کا۔ اس احتجاج سے انگریز اتنے گھبرا گئے کہ انہوں نے نہ صرف بنگال کی تقسیم کا فیصلہ واپس لیا بلکہ اپنی راجدھانی کو بھی کلکتہ سے دہلی منتقل کردیا۔ ان کی سمجھ میں آگیا تھا کہ عوام کو بانٹے بغیر وہ بھارت میں حکومت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مذہب کے نام پر جس لکیر کو کھینچا تھا اسی طرح کی لکیر بی جے پی فرقہ واریت کے نام پر کھینچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے لئے سونار بنگلہ کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ بغیر یہ جانے کہ اس گیت کی پہلی دس لائنیں بنگلہ دیش کے قومی ترانے میں شامل ہیں۔
ماحول کو فرقہ وارانہ بنیاد پر پولرائز کرنے کے لئے این آر سی، سی اے اے اور ہندوتوا کے علاوہ مقتول بی جے پی کارکنان کی فہرست پڑھ کر سنائی جا رہی ہے۔ فہرست پڑھنے کا کام کسی اور نے نہیں خود ملک کے وزیر داخلہ نے کیا۔ قتل و خون ہر دور (کانگریس، لیفٹ اور ممتابنرجی) میں بنگال کی سیاست کا حصہ رہا ہے۔ 1997 میں بنگال کے وزیر داخلہ بدھی دیو نے بنگال اسمبلی میں ایک رپورٹ رکھی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ 1977 سے 1996 تک 28 ہزار لوگ سیاسی تشدد میں مارے گئے۔ سنگور، نندی گرام اور لال گڑھ کے خونی واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔ نندی گرام کے واقع پر اس وقت بنگال کے گورنر گوپال کرشن گاندھی نے کہا تھا کہ کس طرح قانون انتظامیہ جمہوریت کو نگل چکی ہے۔ ہر واقعہ کے بعد تقریباً اسی طرح کی باتیں اس وقت کے گورنر کہہ چکے ہیں۔ موجودہ گورنر بھی سیاسی تشدد پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
ممتابنرجی بی جے پی کے ہندوتوا کے جواب میں رام کرشن پرم ہنس اور وویکا نند کی تعلیمات کو لے کر عوام کے درمیان جائیں گی۔ جن کے ہندوتوا میں سب کےلئے جگہ ہے۔ وہ اپنے کارکنوں کے قتل اور بی جے پی کے ذریعہ ان کی پارٹی میں پھوٹ ڈالنے کے سوال اٹھائیں گی۔ انہوں نے اپنی سرکار کی کارکردگی کو مشتہر کرنے کےلئے کئی موسیقی کار اور فلمی ستاروں کو سڑکوں پر اتارنے کا فیصلہ کیا ہے جو بتائیں گے کہ کیسے بنگال کی تہذیب کو برباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف خود بی جے پی کے لیڈران ترنمول سے بھاجپا میں آنے والوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آسنسول نگر نگم کے چیف جتیندر تیواری کی بی جے پی میں شمولیت پر آسنسول سے ممبر پارلیمنٹ بابل سپریو سمیت دیگر سینئر بی جے پی لیڈران کھل کر مخالفت کر چکے ہیں۔ ٹی ایم سی بی جے پی کے اندر سے اٹھ رہی ان آوازوں کو اور ہوا دے سکتی ہے۔ اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ ترنمول کے باغی بی جے پی کی نیا کو پار لگائیں یا نہیں۔