کس کروٹ بیٹھے گا بہار میں سیاست کا اونٹ

مشتاق احمد نوری
بہار کی سیاست چناؤ سے قبل ہی اتھل پتھل کا شکار رہی ہے ۔ایک طرف مہا گٹھبندھن آر ۔جے ۔ ڈی اور گانگریس کے ساتھ چناؤ میدان میں مقابلہ کررہا تھا تو دوسری طرف این ڈی اے میں بے جے پی جدیو کے علاوہ کچھ علاقائی پارٹی پورے دم خم کے ساتھ مقابلے کے لئے تال ٹھوک رہی تھی۔ چناؤ نتیش کمار کی قیادت میں ضرور لڑی جارہی تھی لیکن ان کے اپنے لوگ نتیش کی پارٹی کی ہار کے لئے زور آزمائی میں لگے تھے۔یہ کام ڈھکے چھپے نہیں ہورہا تھا بلکہ بی جے پی کے کہنے پر جدیو میں چراغ سے آگ لگا دیا گیا اور نتیش کے خلاف ایسے پروپیگنڈے کئے جانے لگے ، گویا اس سے بڑا کرمنل اور کرپٹ سیاست داں بہار نے پیدا ہی نہیں کیا ہو ، اور یہ سارا تماشا بھاجپائی دیکھتے رہے اور مند مند مسکرا کر مزے لیتے رہے کیونکہ ان کی پلاننگ شروع سے نتیش کو کمزور کرنے کی تھی۔ چناؤ کا نتیجہ ان کے من مطابق آیا یا لایا گیا اور ایک کمزور سرکار کی بنیاد ڈالی گئی ۔ نتیش کمار بچے نہیں تھے وہ ان چالوں کو بخوبی سمجھ رہے تھے اس لئے جدیو کی کم سیٹ دیکھ کر انہوں نے وزیر اعلی بننے سے انکار کردیا لیکن بھاجپا نے بڑی ہوشیاری سے نتیش کمار کو یہ کہہ کر راضی کرلیا کہ آپ کی قیادت کا اعلان طے شدہ ہے اس لئے سیٹ کم ہونا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ۔ اس طرح پھول بھرا کانٹوں کا تاج نتیش کمار کے سر رکھ دیا۔ تاج میں پھول نظر آتے تھے لیکن اندر کے کانٹوں کا احساس وزیر اعلی کو شروع سے ہی ہونے لگا ۔ کم وزرا کی سرکار بنی ۔ اور سب کچھ ٹھیک ہے کی آواز باہر سنائی دیتی رہی لیکن اندر ہی اندر نتیش کمار کو زک پہونچانے کی کوشش تیز تر ہونے لگی۔ اچانک کرائم کی رفتاز میں تیزی سے اچھال آگیا یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے یہ یہ نیچرل ہے یا پرایوجت ہے۔ نتیش کمار کی خوبی یہ رہی ہے کہ وہ سنتے سب کی ہیں لیکن فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ انہوں نے کرائم کنٹرول پر لگاتار منتھن کرنا شروع کردیا اور ادھر کرائم میں اضافہ ہوتا رہا گویا کوئی ہے جو یہ سب ہوتے رہنا دیکھنا چاہتا ہے۔ روزانہ پورے بہار میں قتل چوری اور ریپ کا گراف بڑھتا رہا ساتھ ہی سڑک حادثے میں مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا یہ سب نتیش کمار کی کوششوں سے بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہا جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان سب کے پیچھے کچھ بڑے لوگوں کی سوچ کام کررہی ہے اس لئے یہ پرایوجت کرائم رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ گزشتہ دنوں انڈیگو کے ہیڈ مینیجر روپیش کمار کا قتل ہوگیا اور چاروں طرف سے آواز یوں اٹھنے لگی گویا نتیش جی نے ہی یہ قتل کروایا ہو۔ اپوزیشن کا آواز اٹھانا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن بھاجپا کے وزیر اور دیگر نیتا بھی مخالفت میں آواز اٹھانے لگے اور ہرطرف سے آواز آنے لگی کہ بہار میں مہا جنگل راج قائم ہوگیا ہے اور نتیش جی سے بہار چل نہیں پارہا ہے ، اس لئے انہیں استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ دراصل بھاجپا کا ایجینڈا ہی یہی ہے اسے جو بھی غلط سلط کروانا ہو وہ نتیش کمار سے ہی کرایا جائے اور اس کا سارا الزام ان کے سر ڈال دیا جائے اور بعد میں اتنا خراب سچویشن پیدا کردیا جائے کہ وزیر اعلی کو ذلیل کرکے ہٹادیا جائے ۔ سیاست میں ہلچل پیدا کرنے کے لئے کوئی کرائم کنٹرول کے یوپی موڈل لاگو کرنا چاہتا ہے کوئی مہاراشٹر موڈل کی وکالت کرنے لگا ہے لیکن نتیش کمار ایک مضبوط ارادے کے مالک ہیں انہیں بہار ماڈل پر بھرسہ ہے اور وہ اسی تگ و دو میں لگے ہیں کہ کس طرح بہار میں شانتی بحال ہو۔
نتیش کمار نے بہت مضبوطی سے شراب بندی پر پاپندی عائد کی تھی اور سخت قانون بھی بنائے لیکن عجب اتفاق کہ ان دنوں شراب بندی کے قانون کا مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ بہار میں ٹرک بھر بھر کے انگریزی شراب کی آمد ہورہی ہے گلی کوچے میں شراب کی دیسی فیکٹری چالو ہے ، لوگ اب بھی شراب پی رہے ہیں لیکن انہیں چوگنی سے زائد قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے۔ پولیس شراب پکڑتی ہے ضائع بھی کرتی ہے لیکن اس کا آنا بند نہیں ہورہا ۔ اس کی ذمہداری نتیش پر مڑھنے کے بجائے پولیس پر سختی کرنی چاہئے تب ہی یہ سب بند ہوگا ۔ اگر سچ پوچھیے تو اس کے پیچھے بھی کوئی شاطر دماغ ہے جس کے اشارے پر شراب کا تانڈو جاری ہے۔
بھاجپا کو اس بار مضبوط نہیں کمزور وزیراعلی کی ضرورت ہے لیکن نتیش کمار کو جاننے والوں کو معلوم ہے وہ اپنے اصولوں کا سمجھوتا نہیں کرتے۔ وزارت کا پھیلاؤ ہونا تھا لیکن نہیں ہورہا ۔ نتیش جی نے صاف لفظوں میں کہ دیا کہ بھاجپا سے ابھی تک پرستاؤ نہیں آیا ہے۔ پہلے جدیو کے لوگ خاموشی سے سارا تماشا دیکھ رہے تھے لیکن اب ان کے تیور بھی سخت ہورہے ہیں۔ نتیش کمار نے بہت سوچ سمجھ کر جدیو میں تبدیلی کی خود کو پارٹی سے آزاد کرلیا۔ اپنے دست راست رام چندر پرساد سنگھ (آر۔سی۔ پی سنگھ) کو قومی صدر بنادیا اور کشواہا ذات کے فرد کو صوبے کی ذمہداری دے دی ۔ اس کے بعد ہی جدیو کے تیور بدلنے لگے۔
سیاست میں دل بدلنا ایک عام سی بات ہے۔ این ڈی اے کے لوگ دعویٰ کررہے ہیں کہ مہاگٹبھندن کے 19 افراد این ڈی اے میں شامل ہورہے ہیں ان کا اشارہ ان کانگریسیوں کی جانب ہے جو کئی کڑوڑ میں ٹکٹ خرید کر جیتے ہیں جنہیں کانگریس سے کوئی مطلب ہی نہیں اِدھر راجد کے لوگ کہ رہے ہیں کہ جدیو کے 17 ودھایک ان کے پالے میں آنے کو تیار ہیں۔ آج کی سیاست میں سب کچھ ہے لیکن پارٹی کے تئیں وفاداری نہیں ہے۔ انہیں صرف اپنے مفاد سے مطلب ہے جہاں بھاری تھیلی ملےگی انہیں ضمیر بیچنے میں دیر نہیں لگتی۔ اس لئے کون سی افواہ کب سچ ثابت ہوجائے کہا نہیں جاسکتا۔
ادھر مہاگٹھبندھن بھی کم پریشان نہیں انہوں نے اپنی کشتی چنگھاڑتے سمندر سے واپس تو لے آئی لیکن کنارے پہونچتے پہونچتے ان کے ہاتھ سے پتوار ہی چھوٹ گئی اور ساری محنت رائیگاں چلی گئی۔ تیجسوی یادو مکمل مایوس نہیں ہوئے ہیں کہ انہیں اب بھی کسی معجزے کا انتظار ہے۔ وہ مہا گٹھبندھن کے گانٹھ کو ڈھیلا ہونے سے بچائے رکھیں یہ بڑی بات ہوگی۔ انہوں نے کانگریس کو 70 سیٹ دیکر جو غلطی کی اس کا خمیازہ تو انہیں بھگتنا ہی ہوگا کیونکہ کانگریس نے صرف سیٹ بیچنے میں دلچسپی لی اسے جتانے میں اس کے اعلی کمان نے بھی سنجیدگی سے کچھ نہیں کیا ورنہ اس بار بہار کی سیاست میں بلاؤ نشچت تھا۔
وزیر اعلی بہار اپنی سی کوشش کررہے ہیں کہ بہار مضبوط بنے وہ بھاجپا کے بہت سے اصولوں کے خلاف آواز بھی اٹھا چکے ہیں چاہے این آرسی کا مسئلہ ہو یا سنسس کے سوالوں میں تبدیلی کا۔ سب کو یہ معلوم ہے کہ وہ اپنے موقف میں آسانی سے تبدیلی نہیں کرتے۔
ابھی جو سیاسی حالات ہیں اس سے اس بات کا اشارہ صاف مل رہا ہے کہ بھاجپا اس بار نتیش کمار کو کبھی مضبوط نہیں ہونے دےگی اسے مکھوٹا بنا کر اپنی من مانی کرےگی۔ پھر وزیر اعلی کو ایسی الجھن میں مبتلا کردےگی کہ یاتو نتیش کمار خود الگ ہوجائیں یا بھاجپا کے دباؤ پر انہیں ناکارہ کرکے باہر کا راستہ دیکھا دیا جائے ۔ پھر دو صورت ممکن ہوگی کہ بھاجپا کا مکھ منتری ہو اور جدیو سپورٹ کرے (اس سلسلے میں نتیش کمار کو بلیک میل کرنے کی پوری تیاری مکمل ہے) یا پھر جدیو باہر نکل آئے اور اس کی مدد سے مہا گٹھبندن کی سرکار وجود میں آئے لیکن تب تیجسوی ہی وزیر اعلی ہوں گے ، نتیش کمار وزارت میں کوئی عہدہ قبول نہیں کریں گے ۔ یہ سب قیاس پر مبنی ہے لیکن سیاست کا اونٹ کب کس کروٹ بیٹھ جائے اسں کی خبر اونٹ کو بھی نہیں ہوتی۔
دوسری طرف مانجھی اپنا گیم کھیل رہے ہیں کہ ایک ایم ایل سی اور ایک وزیر کی مانگ کا اعلان کرچکے۔ راجد میں تھے تو وہاں بھی انہوں نے ایم ایل سی کا پد لیا تھا۔ دوسری طرف مانجھی کبھی کبھار تیجسوی کی بھی تعریف کردیتے ہیں ۔مانجھی ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہیں اور اُدھر وی آئی پارٹی بھی اپنا رنگ دکھانے لگی ہے۔
کچھ بھی ہو اس بار بھاجپا کے تیور جگ ظاہر ہیں وہ نتیش کمار کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گی ان کے پاؤں کے نیچے کی زمین اتنی گرم کردے گی کہ ان کے لئے ٹک کر کھڑا رہنا مشکل ہوجائے گا ۔ ظاہری طور پر بھاجپا محبت بھی درشاتی ہے کیونکہ بھاجپا زہر دے کر نہیں مٹھاس دے کر مارنے میں مہارت رکھتی ہے۔ تب نتیش کمار جی یہی سوچیں گے کہ ۔۔۔۔
آدمی ظلم کا مارا تو پنپ جاتا ہے
مہربانی سے مٹاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں